چین کے عظیم لیڈر ماؤزے تنگ نے پیپلز آرمی منظم کرکے لانگ مارچ کی قیادت کرکے عوامی قوت سے سوشلسٹ انقلاب برپا کیا اور چین کی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد رکھ دی- علامہ اقبال نے چین کے انقلابی عوام کے بارے میں کہا…؎
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ماؤزے تنگ اگر انقلاب برپا نہ کرتے تو آج چین دنیا کی بڑی طاقت نہ بن پاتا-چین کے عوام کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اسے ایک کے بعد دوسرا محب الوطن اور عوام دوست لیڈر ملتا رہا جس نے چین کی ترقی کو اپنی زندگی کا مشن بنایا-چین کے ایک اور عظیم لیڈر ڈنگ زیاو پنگ نے تاریخ کے اہم موڑ پر چین کے معاشی استحکام کے لئے انقلابی نوعیت کے فیصلے کئے-سوشلزم کے بنیادی اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے چین کے دروازے بیرونی ممالک کے لیے کھول دیے جبکہ روس کے لیڈر عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کا ادراک نہ کر سکے اور انہوں نے بیرونی سرمایہ کاری پر پابندی کو برقرار رکھا-چین کے لیڈروں نے بیرونی سرمایہ کاروں کو مختلف ترغیبات دیں- عالمی سرمایہ کاروں کو چین میں سستی لیبر فراہم ہوئی اور ان کو سازگار ماحول بھی دیا گیا جس کی وجہ سے عالمی سرمایہ کاروں نے چین کا رخ کیا-آبادی کے لحاظ سے بھی چین دنیا کی بہت بڑی مارکیٹ ہے اس بڑی منڈی نے بھی سرمایہ کاروں کو اپنی طرف متوجہ کیا-چین کے لیڈروں نے چینی عوام کی تعلیم و تربیت اور ہنر مندی پر خصوصی توجہ دی تاکہ آبادی معیشت پر بوجھ بننے کی بجائے گروتھ کو بڑھانے میں معاون ثابت ہو سکے- گلوبل ٹریڈ کے تقاضوں کے مطابق اپنے شہریوں کو انگریزی زبان سکھائی-چین کی قیادت نے پبلک اور پرائیویٹ سرمایہ کاری میں توازن پیدا کیا-ایسی معاشی اجارہ داریوں سے گریز کیا جو ریاست کے لئے بوجھ بننے لگیں- ملٹی نیشنل کمپنیوں کو چین کے قومی مفادات کے تابع چین کے اندر سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی- غیر معمولی لوٹ مار اور منافع خوری کے دروازے بند کر دئیے گئے-چین کی عظیم قیادت نے بیرونی ڈکٹیشن لینے کی بجائے چینی عقل و دانش پر انحصار کیا اور اپنے فیصلے خود کیے-چین کے لیڈروں نے جو معاشی نظام وضع کیا اس کے مطابق انہوں نے فیصلہ کیا کہ چین کسی غیر ملکی تنازعہ میں نہیں الجھے گا بلکہ عالمی امن کے لیے کام کرے گا اور پرامن بقائے باہمی کے اصول پر اپنی معیشت کو آگے بڑھاتا جائے گا -چین کے قائدین نے بیوروکریسی میں انقلابی اصلاحات لا کر اس کی ذہنیت کو تبدیل کیا اور نوجوانوں کو ذمے داریاں سونپیں - چین کے عوام کو ضابطہ اخلاق کا پابند بنایا اور شراکتی ترقی کے فلسفے کو عوام کے ذہنوں میں راسخ کیا-چین کے معاشی نظام کو نہ تو سوشلسٹ کہا جا سکتا ہے اور نہ ھی سرمایہ دارانہ بلکہ یہ ایک ایسا متوازن نظام ہے جو چین کے عوام کے قومی مفاد میں تشکیل دیا گیاجسے مکسڈ یا مخلوط اکانومی کا نام دیا جا سکتا ہے- یہ نظام بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے- چین کے معاشی نظام کی بنیاد سماجی انصاف پر رکھی گئی ہے-چین نے کرپشن کے جرم کے لئے سزائے موت رکھی ہے جس کی وجہ سے کرپشن پر کافی حد تک قابو پا لیا گیاہے-اگر چین میں کرپٹ عناصر کو موت کی سزائیں نہ دی جاتیں تو چین کا عالمی سطح پر معاشی طاقت بننا ممکن نہ ہوتا- چین نے اپنے متوازن اور عوام دوست معاشی نظام کی وجہ سے انسانی تاریخ کا معجزہ کر دکھایا ہے اور 70 ملین چینی عوام کو غربت کی لائن سے باہر لایاگیا ہے-1980سے چین کا گروتھ ریٹ 10.2 فیصد کی شرح سے تسلسل کے ساتھ جاری و ساری ہے جو معاشی کرشمہ ہے-چین کے لیڈروں نے زراعت اور صنعت دونوں پر توجہ دی ہے جو ترقی کے دو پہیے ہیں - آج چین دنیا کا نمبر ون ایکسپورٹر ہے اور گروتھ کے لحاظ سے بھی نمبر ون ملک ہے-امریکا دنیا کی نمبر ون سپر طاقت کے نشے میں مبتلا رہا اور دنیا کے مختلف علاقوں میں جنگوں میں الجھتا رہا جس کی وجہ سے اسے معاشی نقصان اٹھانا پڑا جبکہ چین نے عالمی جنگوں میں الجھنے سے گریز کیا اور معاشی استحکام پر پوری توجہ دی- اس کا تیجہ یہ نکلا ہے کہ معاشی ماہرین کے مطابق چین 2030 تک دنیا کی نمبرون طاقت بن جائے گا-چین کے معاشی نظام کا بنیادی اصول شراکتی اور اجتماعی ترقی ہے-جو معاشی نظام عوام کے مزاج اور کلچر کے منافی ہو اس کے نتائج کبھی مثبت نہیں ہو سکتے-چین میں ریاستی کارپوریشنز بھی بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہی ہیں جبکہ نجی ادارے بھی منافع کما رہے ہیں۔ چین نے ون فیملی ون چائلڈ کی پالیسی پر عمل کر کے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کیا تاکہ معاشی ترقی متاثر نہ ہو-ورک ایتھک یعنی کام کا ضابطہ اخلاق چینی معیشت کا اہم اصول ہے - چین کا سیاسی نظام بھی قومی مفاد کے تقاضوں کے مطابق ہے - چین کی کیمونیسٹ پارٹی نے چین کی ترقی اور خوشحالی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسا سیاسی نظام وضع کیا ہے جو معاشی ترقی میں رکاوٹ نہیں بنتا - اس سیاسی نظام میں چین کے عوام کو شامل کیا گیا ہے جو مقامی سطح پر اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں اور ان نمائندوں کو اختیار دیتے ہیں کہ وہ مرکز کی سطح تک عہدیداران منتخب کر سکیں- چین میں مقامی حکومتوں کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ عوام کی شرکت کے بغیر کوئی نظام کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا-پاکستان اور چین کی دوستی بڑی مضبوط اور مستحکم ہے- افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے لیڈروں نے چین کے کامیاب معاشی اور سیاسی نظام سے سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی ورنہ اگر پاکستان کے معاشی نظام کو چین کی طرح سماجی انصاف کے اصول پر تشکیل دے دیا جاتا تو آج پاکستان بھی دنیا کی بڑی معاشی طاقت بن سکتا تھا-چین پاکستان کا بہترین دوست ہے جس پر کامل اعتماد کیا جا سکتا ہے اور جس نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے بااعتماد دوست کی جانب دیکھنے کی بجائے اپنے ملک میں امریکہ اور برطانیہ کا نظام چلا رہے ہیں جو قومی اور عوامی مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکا ہے - اللہ تعالی نے پاکستان کو ہر اس نعمت سے نواز رکھا ہے جو معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے-پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ریاست کا سیاسی اور معاشی نظام ہے جسکو اخلاقیات اور سماجی انصاف کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کے وسائل کی لوٹ مار کو ختم کیا جاسکے اور اجتماعی اور شراکتی ترقی ظہور پذیر ہو سکے - پاکستان کے سیاستدان ہر روز پاکستان کی سیاست اور معیشت کا ماتم بھی کرتے رہتے ہیں اور پاکستان کے سیاسی و معاشی نظام میں انقلابی اصلاحات لانے پر بھی آمادہ نہیں ہوتے جن کی بنیاد پر سیاسی اور معاشی استحکام لایا جا سکتا ہے یہی وہ منافقت ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کو مختلف نوعیت کے کے خطرات لاحق ہوتے جا رہے ہیں-پاکستان میں عوام دوست نظام لانے کے لئے لانگ مارچ کی ضرورت ہے-منظم عوامی انقلاب کے بغیر پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے اور کوئی آپشن باقی نہیں بچا-
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024