عہد ِ رفتہ میں پارلیمنٹ کے ساتھ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کا رویہ غیر مناسب حد تک جانبدار رہا اور آمروں کو تحفظ فراہم کیا گیا، اس بے آبرو مندانہ رویے کی تلخ حقیقت اور تاریخ کی ابتداء جسٹس محمد منیر کے نظریہء ضرورت کو متعارف کروا نے سے ہوئی،1954 ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی قانون ساز اسمبلی توڑ دی، اور اس وقت کے وزیر ِ اعظم خواجہ ناظم الدین کو بر طرف کر دیا سپیکر مولوی تمیزالدین اسمبلی توڑے جانے کے فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میںچلے گئے ، سندھ ہائی کورٹ نے گورنر جنرل کے اقدام کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے دیا،معاملہ اس وقت کی چیف کورٹ جو کہ اب سپریم کورٹ کہلاتی ہے میں گیا تو چیف جسٹس محمد منیر جو کہ نظریہء ضرورت کے مُوجد بنے انھوںنے گورنر جنرل کے اسمبلی توڑنے کے اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے فیصلہ گورنر جنرل کے حق میں دے دیا ، جسٹس منیر نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’ نظریہ ء ضرورت کے تحت ملک کی سلامتی کے لئے آئین کی معطلی ضروری تھی ‘‘1958 ء میں جنرل ایوب خان نے اسمبلیاں توڑ کر 1956 ء کا آئین معطل کر دیا،سپریم کورٹ نے ایوب خان کے مار شل لاء کو بھی نظریہ ء ضرورت کے تحت جائز قرار دے دیا، 1977 ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کو جنرل ضیاء الحق نے بر طرف کیا اور اسمبلیاں توڑ کر 1973ء کے عوامی اور متفقہ آئین کو معطل کر دیا، جنرل ضیاء کے مار شل لاء کو بھی اسی نظریہء ضرورت کے تحت سپریم کورٹ نے قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جنرل ضیاء الحق نے کہا ہے کہ ’’ آئین کو معطل کیا جارہا ہے نہ کہ کالعدم کیا جا رہا ہے ‘‘اعلیٰ عدلیہ نے مزید کہا کہ ’’ جنرل ضیاء الحق نے یہ اقدام عوام کی بھلائی کے لئے اٹھایا ہے ‘‘
2000 ء میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی منتخب حکومت کو برطرف کیا تو عدالت ِ عظمیٰ نے نہ صرف اسے قانونی قرار دیا بلکہ جنرل مشرف کو آئین میں تبدیلی کی بھی اجازت دے دی ، عہد ِ رفتہ اور عصر ِ حاضر کی پارلیمنٹ کو عدلیہ اور آمروں نے ہمیشہ کمزور بنیادوں پر بے آبرو کر کے آئین کو پا مال کیا اور عوامی رائے عامہ کی توہین کی، ملک کی اعلیٰ عدلیہ عوام الناس کو انصاف مہیا کرنے اور ان کے آئینی حقوق کا محافظ ادارہ ہے ، اس اعلیٰ عدلیہ کے ادارے نے 1954 ء سے لیکر آج تک اسی نظریہ ء ضرورت کے تحت آمروںکو تحفظ دیا ، آمروںنے منتخب وزراء اعظم پر ایک ہی جیسا کرپشن کا الزام لگا کر اسمبلیوں کو بر طرف کیا ، حتی ٰ کہ قائد ِ ملت خان لیاقت علی خان پر بھی اس وقت کے میجر جنرل اکبر خان نے تین وجوہات کی بنا پر پنڈی سازش کیس بنایا جس میں پہلی وجہ کرپشن کا الزام عائد تھا۔ معروف سیاست دان اور پالیمنٹرین سیدہ عابدہ حسین جو کہ امریکہ میں پاکستان کی سفیر بھی رہ چکی ہیں اپنی کتاب میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ کے دورہء امریکہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ جنرل آصف نواز کا استقبال سابق سیکریٹری خارجہ سے کرایا گیا ،سفارتی کوششوں سے جنرل آصف نواز جنجوعہ کی ملاقات ڈک چینی سے کرائی بحیثیت سفیر میں ان کے ساتھ تھی مجھے کہا گیا کہ آپ باہر تشریف رکھیں ون ٹو ون ملاقات کے بعد جنرل آصف نواز جنجوعہ اور ڈک چینی مسکراتے ہوئے باہر آئے، میں نے اسی رات جنرل آصف نواز جنجوعہ کو اپنی رہائش گاہ پر مدعو کیا ، کھانے کے بعد جنرل آصف نواز جنجوعہ نے خود مجھ سے پوچھا کہ آپ کو پتہ ہے کہ ڈک چینی نے مجھ سے کیا کہا، سیدہ عابدہ حسین نے کہامجھے پتہ ہے اس نے کیا کہا ہوگا ، کہ نواز شریف کو ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے پر آمادہ کرو، جنرل آصف نواز نے کہا آپ بہت ذہین ہیں ، وطن واپسی پر جنرل آصف نواز جنجوعہ نواز شریف کو قائل نہ کر سکے ، جس سے نواز شریف اورجنرل جنجوعہ میں اختلافات ہوئے۔کچھ تلخ اور پوشیدہ حقائق ایسے بھی ہیں جن سے عوام بے خبر ہیں ایسے حقائق سے مفاد پرست عناصر نے خوب فائدہ اٹھایا اور اٹھا رہے ہیں، کل تک جو چور تھے آج وہ سادھو ہیں،چور چور کے شور میں ان کی اپنی چوری چھپی ہوئی ہے، اس لئے وہ شور مچانے والوں کے ساتھ خود بھی چور چور کا شور مچا رہے ہیں ۔عدلیہ اور آمروں کے گٹھ جوڑ نے ملک کو پستی میں دھکیلا ، عصر حاضر میں اس تاثر کو ختم ہونا چاہیے ، آئین کی پامالی اور اسے توڑنے والے آمروں کو قانون اور آئین کے مطابق سزا دی جائے ،کرپٹ حکمراں ہوں یا ایک عام شخص بلا تفریق انصاف کے تقاضے پورے کرنا عدلیہ کی آئینی ذمہ داری ہے ، سیاسی یا ذاتی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر مضبوط شہادتوں پر فیصلے ملکی استحکام کا باعث ہوں گے کمزور بنیادوں پر مرتب فیصلے عدلیہ کے وقار کو مجروح کرنے کے علاوہ تاریخ میں متنازع رہیں گے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024