حادثات، سانحات ، پولیس رویہ اور عوامی ردعمل
شاہ نواز تارڑ
ch_shahnawaztarar@yahoo.com
کسی بھی حادثہ یا سانحہ پر عوامی ردعمل ایک فطری امر ہے‘ کہیں مظاہرے‘ کبھی سینہ کوبی‘ کہیں خودسوزی کی کوشش کے ذریعے احتجاج ریکارڈ کرایا جاتا ہے تاکہ ظلم اور ظالم سے بچا جاسکے اور انصاف و پناہ حاصل ہو۔ ایسے ہی جب انسان کو کہیں پناہ نہ ملتی ہو سستا اور فوری تو کیا ’’مہنگا‘‘ اور ’’دیرپا‘‘ انصاف بھی ملنے کی توقع نہ رہے تو پھر وہ؎نہیں ملتی پناہ ہمیں جس زمیں پراک حشر اس زمیں پر اٹھا دینا چاہئے کی عملی تصویر بن جاتا ہے۔بات بنیادی ذمہ داریوں سے پولیس کے صرف نظر کرنے اور اختیارات سے تجاوز کرنے کے باعث بگڑتی ہے۔ پرامن لوگوں کے بپھر جانے کے بعد پولیس حالات کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے اور وہ اس کیلئے لاٹھی‘ گولی کا بے دریغ استعمال کرتی ہے۔ پولیس اہلکاروں کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے‘ بندوقیں آگ اگلنا شروع کردیتی ہیں پھر سامنے آنے والوں کو کیڑے مکوڑوں سے بھی کم تر سمجھاجاتا ہے۔ پولیس کا یہ رویہ جلتی پر تیل کا کام کرتے ہوئے عوامی غیظ و غضب کی آگ کو مزید بھڑکا دیتا ہے۔ اور تصادم پھر خونی بن جاتا ہے اور ’’کئی خاک نشینوں کا خون رزق خاک ہو جاتا ہے۔‘‘ حادثات کی صورت میں پولیس ذمہ داریاں پوری کرنے اور روایتی کلچر سے ہٹ کر غیرسنجیدہ ہونے کے بجائے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو حادثات کو سانحات میں بدلنے سے روکا جاسکتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ کسی بھی واردات یا وقوعہ کی فوری ایف آئی آر درج کردی جائے تو نوبت احتجاج اور توڑ پھوڑ تک نہ پہنچے۔ لیکن پولیس مظاہرین کے مشًتعل ہونے ’’توڑ پھوڑ ‘‘ ہنگاموں اور جلائو گھیرائو کا انتظار کرتی رہتی ہے تاکہ ’’بات نکلے اور دور تلک جائے‘‘۔ٹھیک ہے واردات ‘ حادثہ یا وقوعہ کو روکنا تو پولیس کے بس میں نہیں لیکن کیا فوری ایف آئی آر درج کرنا‘ میرٹ پر تفتیش کرنا‘ بروقت چالان جمع کرانا‘ مقدمات میں وقوعہ واردات کی مناسبت سے دفعات لگانا بھی پولیس کے بس میں نہیں؟ تو پھر پولیس ڈکیتی کا مقدمہ درج کرنے کے بجائے چوری کی دفعات کیوں لگاتی ہے‘ راہزنی کی واردات کو جیب تراشی میں کیوں بدلتی ہے‘ نوسربازی کی ایف آئی آر درج کرنے کی بجائے گمشدگی کی رپٹ کیوں لکھتی ہے‘ ڈکیتی‘ قتل جیسی سنگین واردات کو ’’گھریلو جھگڑا، دیرینہ رنجش، لین دین کا تنازع‘‘ یا دیگر رنگ کیوں دیتی ہے کیا یہ دفعات پولیس کیخلاف ہوتی ہیں‘ کیا ایس ایچ او‘ محرر‘ ذیل افسر یا انچارج انویسٹی گیشن کو ایسی سنگین وارداتوں میں ملزم بنایا جانا ہوتا ہے۔ اگر جواب نفی میں ہے تو پھر پولیس رویہ بدلے‘ غیرسنجیدگی کے بجائے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو حادثات کو سانحات میں بدلنے سے روکا جاسکتا ہے ورنہ متاثرین یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ کاروانوں کو لوٹنے کیلئے راہزنوں نے دیئے جلائے ہیںاور پولیس، قانون نافذ کرنے والے اداروں‘ ضلعی انتظامیہ اور تمام تر دستیاب وسائل کے باوجود امن و امان کی صورتحال روزبروز نازک تر ہوجانے سے فیض احمد فیض کی بات سچ لگتی ہے۔محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہوگماں تم کو ہے کہ رستہ کٹ رہا ہے یقیں مجھ کو ہے کہ منزل کھو رہے ہو
کاش! پولیس اغواء کی ایف آئی آر‘ گمشدگی رپٹ بروقت درج کرکے بازیابی کیلئے قانون کو حرکت میں لائے تو زینب سمیت کئی کلیاں درندوں کے ہاتھوں مسل جانے سے محفوظ رہ جاتیں۔کاش! مقدمات کا اندراج کرتے وقت پولیس جرم کے مطابق دفعات لگائے تو مجرم کیوں بچ جائیں۔کاش! پولیس ذمہ داریوں کا مظاہرہ کرے تو قاتل‘ ڈاکو دندناتے نہ پھریں اور ناکوں پر نہ رکنے والے بے گناہ ’’اپنے ہی ساتھیوں‘‘ کی گولیوں کا نشانہ نہ بنیں۔کاش! پولیس جس کے گلے میں پھندا پورا آجائے اس کو لٹکانے کی روایت ترک کردے۔کاش! پولیس چادر چار دیواری کا تقدس پامال کرنا چھوڑ دے ‘قوم کی عفت مآب مائوں‘ بہنوں‘ بیٹیوں کو سرعام رسوا نہ کیا جائے۔ پولیس کو رویہ بدلنا ہوگا ورنہ ۔بے داو گروں کی بستی میں داد کہاں، فریاد کہاں
سر پھوڑتی پھرتی ہے ناداں فریاد جو درد درجاتی ہے