زینب قتل ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس کیجانب سے آئندہ کیلئے جوڈیشل یا انکوائری کمیشن کی تشکیل پر پابندی عائد
تفتیشی نظام کی اصلاح کیلئے تمام ریاستی ستونوں کو فعال کردار ادا کرنا ہوگا
چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے زینب قتل کیس کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران ٹی وی اینکر شاہد مسعود کے ثبوت پیش کرنے میں ناکامی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے الزامات کی تحقیقات کیلئے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کی سربراہی میں نئی جے آئی ٹی تشکیل دینے کے احکامات صادر کردیئے اور متعلقہ اینکر پرسن کو اس جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہونے کی ہدایت کی۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ زینب قتل کیس کے حوالے سے قائم جے آئی ٹی اپنا کام کرتی رہے گی۔ فاضل چیف جسٹس نے آئندہ کیلئے وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی جانب سے کمیشن یا جوڈیشل کمیشن کی تشکیل پر پابندی عائد کردی اور باور کرایا کہ آئندہ کسی معاملے کی انکوائری کیلئے کوئی کمیشن نہیں بنایا جائیگا کیونکہ کمیشن بنا کر معاملہ لٹکادیا جاتا ہے۔ فاضل عدالت نے ریمارکس دیئے کہ تفتیش ہی اصل طریقہ کار ہے۔ فاضل عدالت نے مقتولہ زینب کے والد امین انصاری کو کسی بھی قسم کی پریس کانفرنس سے روک دیا اور ہدایت کی کہ انہیں جو بھی شکایت ہے وہ عدالت کو بتائیں۔ فاضل چیف جسٹس کی سربراہی میں اس کیس کی سماعت کرنیوالے فاضل عدالت عظمیٰ کے سہ رکنی بنچ نے دوران سماعت جے آئی ٹی کو زینب قتل کیس کی تفتیش دس روز میں مکمل کرکے چالان عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ فاضل چیف جسٹس نے باور کرایا کہ تفتیش میں غفلت برتنے والے کو نہیں چھوڑیں گے۔ فاضل عدالت نے زینب کے قتل کے ملزم کو فول پروف سکیورٹی میں رکھنے کا حکم بھی صادر کیا اور اسی طرح زینب کے گھر والوں کو بھی سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ فاضل چیف جسٹس نے دوران سماعت زینب کے والد سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں بحیثیت ادارہ اور بحیثیت قوم آپ سے شرمندہ ہوں‘ زینب ہماری بھی بیٹی تھی۔ اس موقع پر فاضل چیف جسٹس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
قصور کی معصوم زینب کے ساتھ جس درندگی کا مظاہرہ کیا گیا‘ وہ ملک میں قانون کی حکمرانی پر ہی ایک طمانچہ نہیں بلکہ اس پر پوری انسانیت شرمسار ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایسے قبیح جرائم ایک ناسور کی طرح نشوونما پاتے رہے ہیں اور بدقسمتی سے ایسے ننگ انسانیت مجرموں کو ہمارے مروجہ تفتیشی نظام میں موجود قباحتوں کے باعث چھوٹ ملنے‘ انکی صحیح گرفت نہ ہونے اور فوری انصاف کے تقاضے پورے نہ ہونے کے نتیجہ میں بروقت کیفرکردار کو نہ پہنچنے کے باعث ہی ایسے انسانیت سوز جرائم کو تقویت ملتی رہی ہے۔ اگر معصوم زینب کے ساتھ انسانیت کو شرمانے والی درندگی کا واقعہ میڈیا میں اجاگر نہ ہوتا اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پوری فعالیت کے ساتھ قصور کے اس مظلوم خاندان کی زبان نہ بنا ہوتا تو یہ کیس بھی اس نوعیت کے دوسرے مقدمات کی طرح اندھے قانون کی فائلوں میں کہیں دب چکا ہوتا اور ملزم قانون کی نگاہوں سے اوجھل ہی رہتا جیسے وہ زینب سے پہلے دس دوسری معصوم بچیوں کے ساتھ ایسی ہی درندگی کے مظاہرے پر قانون کی آنکھوں سے اوجھل رہا۔ یہ میڈیا کی فعالیت ہی تھی کہ زینب قتل کیس پر اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال آیا اور ہمارے معاشرے پر لگے ایسے بدنما دھبے کو دیکھ کر انسانیت شرماتی اور قوم کے ہر فرد کی آنکھ روتی نظر آتی ہے۔ میڈیا کی فعالیت نے ہی فاضل چیف جسٹس سپریم کورٹ کو زینب قتل کیس کا ازخود نوٹس لینے پر مجبور کیا۔ اب ہائی پروفائل بنے اس کیس کی بدولت قبیح مجرموں کو انصاف کی عملداری میں کسی قسم کی چھوٹ اور رعایت ملنے کا باعث بننے والی ہمارے تفتیشی نظام کی قباحتوں کو دور کرلیا جاتا ہے اور مقننہ مروجہ قانون میں مناسب ترمیم کرکے ایسے سفاک مجرموں کو سرعام پھانسی پر لٹکانے کی تادیبی سزا مقرر کردیتی ہے اور اسی طرح میڈیا کی فعالیت کے باعث سفاک مجرموں کے کالے کرتوتوں اور انکے مکروہ چہروں کو بے نقاب کرنے میں مدد ملتی رہتی ہے تو یقیناً اس سے معاشرتی سدھار کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ اگر میڈیا کی فعالیت کے باعث زینب قتل کیس کے حوالے سے پوری انتظامی مشینری اور عدل گستری کے متحرک ہونے کے باوجود اس نوعیت کے قبیح جرائم کی روک تھام نہیں ہو سکی اور بیمار ذہنیت والے سفاک انسانوں کی معصوم بچیوں اور بچوں کے ساتھ اسی نوعیت کی درندگی ملک کے مختلف حصوں میں جاری ہے تو قانون و انصاف کی عملداری کا تقاضا ہے کہ ایسے جرائم کے پورے پس منظر کا کھوج لگا کر انہیں جڑ سے اکھاڑنے کی ٹھوس حکمت عملی طے کی جائے۔ اس نوعیت کی سفاکی بیمار ذہنیت والے انسانوں کا انفرادی فعل بھی ہو سکتا ہے تاہم ایسے جرائم کیلئے کسی نیٹ ورک کے ملوث ہونے کے امکانات بھی مسترد نہیں کئے جاسکتے۔ دو سال قبل قصور میں سکولوں کے معصوم بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے اور اس فعل کی ویڈیو فلمیں بنا کر بیرون ممالک بھجوانے کے معاملہ کی نوائے وقت گروپ نے ہی نشاندہی کی تھی جس پر انتظامی مشینری اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے صحیح معنوں میں حرکت میں آتے تو ان جرائم میں ملوث ملزمان کو قانون و انصاف کی عملداری میں کبھی رعایت نہ ملتی اور انہیں ملنے والی سزائیں دوسروں کیلئے عبرت کی مثال بن جاتیں۔ یہ ایسے قبیح مجرمان پر قانون کی گرفت ڈھیلی ہونے کا ہی شاخسانہ ہے کہ آج صرف ملزم عمران علی کا بھیانک چہرہ ہی سامنے نہیں آیا بلکہ جھنگ سے بچوں کی فحش فلمیں بنا کر اپ لوڈ کرنیوالا سفاک ملزم بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ اسی طرح علامہ اقبال ٹائون لاہور میں کم عمر بچوں کو فحش فلمیں دکھانے والے نیٹ کیفوں پر بھی کریک ڈائون ہوا ہے جس میں آٹھ ملزمان حراست میں لئے گئے ہیں۔ اسی طرح زینب قتل کیس کے میڈیا پر ہائی لائٹ ہونے کے باعث عوام میں بھی ایسے ملزمان کی موقع پر ہی سرکوبی کا شعور بیدار ہوا ہے اور گزشتہ روز کوٹ رادھاکشن میں شہریوں نے ایک بچی سے زیادتی کی کوشش کرنیوالے سفاک ملزم کا بھرکس نکالا ہے۔ اسکے باوجود ایسے قبیح جرائم کا ارتکاب جاری ہے اور سفاک درندوں نے کوئٹہ میں ایک 12 سالہ بچی کو ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کیا ہے‘ مردان میں ایک تیسری جماعت کی طالبہ کے ساتھ اس نوعیت کی درندگی رپورٹ ہوئی ہے جبکہ فیروزوالا میں دو نوعمر لڑکوں کے ساتھ بھی زیادتی کی گئی ہے۔
اس حوالے سے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تشویش بجا ہے اور انہوں نے پوری دردمندی کے ساتھ اصلاح احوال کیلئے مختلف اقدامات کا عندیہ دیا ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے آئندہ کیلئے وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی جانب سے کسی معاملہ کی تحقیقات کیلئے انکوائری یا جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے پر بھی پابندی عائد کردی ہے اور باور کرایا ہے کہ تفتیش ہی اصل طریقۂ کار ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ متعلقہ ادارے دیانتداری اور ایمانداری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کررہے ہوں تو تفتیش کے ذریعے ہی جرائم کی تہہ تک پہنچ کر اصل مجرمان کا کھوج لگایا اور انہیں کیفر کردار کو پہنچایا جا سکتا ہے جیسا کہ زینب قتل کیس کے حوالے سے محترمہ مریم نواز کے ٹویٹ سے قوم کو آگاہی ہوئی ہے کہ زینب کا قاتل پکڑنے کیلئے پولیس اہلکاروں نے مختلف بھیس بدل کر اپنے فرائض ادا کئے اور پولیس کمانڈوز نے متعلقہ علاقے میں جا کر غبارے بیچے‘ ریڑھی لگائی اور مزدوری کی تب جا کر قاتل تک پہنچنا ممکن ہوا۔ اس میں قوم کیلئے یہ حوصلہ افزا پیغام تو موجود ہے کہ پولیس دیانتداری کے ساتھ فرائض ادا کرے تو کسی مجرم اور قاتل کا اسکے ہاتھوں بچ نکلنا ممکن نہیں۔ اگر فی الواقع ہمارا پولیس سسٹم اتنا فعال ہو جائے تو کسی جوڈیشل یا انکوائری کمیشن کی تشکیل کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ اگر حکومتیں جوڈیشل یا انکوائری کمیشن تشکیل دینے پر مجبور ہوتی رہی ہیں تو اسکی بنیادی وجہ پولیس کے مروجہ تفتیشی نظام پر لوگوں کا عدم اعتماد ہے۔ کسی وقوعہ کے متاثرین کو کسی بااثر ملزم کی تفتیش سے انصاف کی توقع ہی نہیں ہوتی اس لئے وہ صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں تو حکومت کو جوڈیشل یا انکوائری کمیشن تشکیل دینا پڑے ہیں جس کیلئے مروجہ قانون میں انہیں اختیار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے فاضل چیف جسٹس کی یہ تشویش بھی بجا ہے کہ کسی معاملہ کو دبانے یا معرِضِ التواء میں ڈالنے کیلئے کمیشن تشکیل دیئے جاتے ہیں جبکہ ماضی میں تشکیل پانے والے کمیشن اسکی زندہ مثال بھی ہیں تاہم تفتیشی نظام میں اصلاح احوال کے بغیر ہی حکومت کو کمیشن کی تشکیل سے روک دینا بھی انصاف کے تقاضوں کے منافی ہوگا۔ جوڈیشل یا انکوائری کمیشن سے کم از کم قبیح جرائم میں ملوث افراد پر خوف کی تلوار تو لٹک جاتی ہے۔ اگر فی الواقع اصلاح احوال مقصود ہے تو پھر عدلیہ‘ انتظامیہ اور مقننہ کو باہمی مشاورت سے کوئی ایسی ٹھوس اور جامع پالیسی طے کرنا ہوگی جس کے تحت محض تفتیشی نظام ہی جرائم کی بیخ کنی اور مجرمان کی سرکوبی کیلئے مؤثر ہوسکے۔ اس سلسلہ میں فاضل چیف جسٹس سپریم کورٹ‘ مقننہ اور انتظامیہ کے ذمہ داران سے ملاقاتوں کے دروازے بھی کھول چکے ہیں اس لئے توقع کی جا سکتی ہے کہ اصلاح احوال کے اس عمل میں ادارہ جاتی قباحتوں کی بھی نشاندہی ممکن ہوگی اور انصاف کی بلاتاخیر اور بے لاگ فراہمی بھی ممکن ہو جائیگی۔ تاہم جب تک متعلقہ قوانین میں مناسب ترامیم نہیں کی جاتیں اور زینب قتل جیسے سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کو سرعام پھانسی کی سزا دینے کا قانون منظور نہیں کرلیا جاتا اس وقت تک انتظامیہ کو کسی معاملہ کی آزادانہ تحقیقات کیلئے متعلقہ قانون میں انکوائری یا جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی حاصل شدہ سہولت سے استفادہ کرتے رہنا چاہیے۔ نظام عدل کی اصلاح کیلئے زینب قتل کیس بہرصورت انتظامیہ‘ عدلیہ اور مقننہ کیلئے ٹیسٹ کیس ہے۔ اگر تمام ریاستی ستون اس معاشرے میں قبیح جرائم کی بیخ کنی کیلئے متحرک و فعال ہو جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ تطہیر کا عمل کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکے۔