اس تھیوری کا سب سے بڑا داعی اطالوی مصنف میکائولی تھا گو چانکیہ بھی یہی بات اپنے مخصوص انداز میں کہتا ہے۔ سیاست اور منافقت ہم وزن ہیں اور ساتھ ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ہیں۔ راست روی، سچ اور اصول پرستی کا اس اقلیم میں کوئی عمل دخل نہیں ہے "ENDS JUSTIFY MEANS" سچ بولنا اچھی چیز ہے بشرط وہ مقاصد کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ سیاست میں ایک ہی مقصد ہوتا ہے۔ حصول اقتدار جب یہ ہاتھ آ جائے تو پھر اسکی حفاظت بھی ضروری ہوتی ہے۔ شیکسپیئر نے یہی بات میکبتھ میں اپنے ایک کردار سے کہلوائی ہے۔ ایک جرنیل میکبتھ اپنے بادشاہ ڈنکن کو قتل کرکے خود تخت پر بیٹھ جاتا ہے، احساس جرم شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے ذرا سے شک پر بھی وہ مخالفین کو مروا دیتا ہے جیل میں ڈال دیتا ہے۔ اسے ایک دوست سمجھانے کی کوشش کرتا ہے تم نے مقصد حاصل کر لیا ہے اب اس ظلم اور زیادتی کا کیا جواز ہے؟ تم ایک بنیادی بات بھول رہے ہو۔
TO BE THUS IS NOTHING THAN TO BE SAFELY A THUS.
شاہ بننے کے بعد شاہی کی حفاظت بھی کرنا پڑتی ہے۔اسے جواب ملتا ہے۔
PRINCE کے منصہ شہود پر آتے ہی لعن طعن شروع ہو گئی۔ میکائولی کو عصر حاضر کا شیطان کہا گیا۔ مردود اور بدباطن شخص جس نے جھوٹ بولنے کا جواز تلاش کیا۔ جس نے سلطنت کی حفاظت اور استحکام کیلئے قتل و غارت،، فریب اور دھوکہ دہی کو جائز قرار دیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اسے ان حکمرانوں نے بھی رگیدا جو اسکی کتاب کو تکیے کے نیچے رکھ کر سویا کرتے تھے جنہوں نے ہر شبد کو گھول کر پیا تھا اور ہر نصیحت کو حرزجاں بنا لیا تھا۔ نقل کفر کفر نہ باشد۔ وہ حاکم وقت کو کہتا ہے۔ ظلم اپنے ماتحتوں سے کروائو۔ انعامات اور نوازشیں اپنے دست خاص سے دو۔ لوگ تم سے ڈریں لیکن نفرت نہ کریں۔ مطلب برآری کیلئے آنکھوں میں التجا اور شفقت پیدا کرو مطلب نکلنے کے بعد انہیں ماتھے پر رکھ دو۔ یاری دوستی کی راج نیتی میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اپنے ہر قول کے حق میں وہ تاریخی حوالے دیتا ہے۔ فلورنس کے ایک صوبے کے لوگ نافرمان تھے۔ پرنس ان سے سخت تنگ تھا۔ اسکے مشیر نے صائب مشورہ دیا۔ ’’اپنے سب سے زیادہ وفادار شخص کو گورنر بنا کر بھیجو تاکہ وہ باغیوں کی سرکوبی کر سکے۔ چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ گورنر نے نافرمان لوگوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔ جیلیں بھر گئیں۔ جائیدادیں ضبط کر لی گئیں۔ مجبور اور مقہور لوگ پرنس کے پاس پہنچے۔ معافی کے طلبگار ہوئے، گورنر کے خلاف شکایتوں کے انبار لگا دیئے۔ پرنس نے ایک بار پھر مشیر کی طرف دیکھا، اسے جواب دینے میں کوئی دقت پیش نہ آئی بولا… OPEN TRIAL OF THE GOVERNER AND PUBLIC EXECUTION چوراہے پر جب وفادار گورنر کو پھانسی دی گئی تو لوگ پرنس کی انصاف پسندی پر عش عش کر اٹھے۔
گو بادشاہتیں ختم ہو گئی ہیں۔ گنتی کے جو چند رہ گئے ہیں وہ بھی اپنی رخصتی کے دن گن رہے ہیں۔ جمہوریت آ گئی ہے لیکن غریب ملکوں میں اسکے ساتھ صرف کھلواڑ ہو رہا ہے۔ ہمارے لیڈر گو اپنے آپ کو عوام کا خدام کہتے ہیں لیکن ان کا مزاج ’’طرز حکومت‘‘ شاہوں سے کم نہیں ہے۔ ملک کے سب سے بڑے محلات میں رہتے ہیں۔ بیرون ملک محل نہیں محلات ہیں۔ دولت کے انبار ہیں لیکن انہیں عوام کا غم کھائے جا رہا ہے۔ جلسوں میں بھی شعر پڑھتے ہیں تو اس غریب انسان کے جسے بمشکل ایک وقت کی روٹی میسر تھی جس کی تاریک کٹیا میں دن کو بھی شب کی سیاہی کاسماں رہتا تھا جس کو ہر چوتھے روز پولیس کسی نہ کسی مقدمے میں ملوث کر دیتی تھی۔ کالا باغ کے زمانے میں اس پر دو بوتل دیسی شراب رکھنے کا مقدمہ بنا۔ عدالت میں اپنی صفائی دیتے ہوئے جالب بولا… حضور! اگر دو بوتل شراب ہوتی تو وہ میرے معدے سے برآمد ہوتی۔ بوتلوں میں گل سڑ نہ رہی ہوتی۔ میاں منیر اور طارق عزیز ٹائپ لوگ جب سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کے جرم میں سزا کاٹ کر آتے ہیں تو انہیں پارٹی سے بیک بینی ودوگوش نکال باہر کیا جاتا ہے کہ ایسے قانون شکن لوگوں کی نیک نام پارٹی میں جگہ نہیں بنتی۔ وہ اس پر بھی شکر ادا کرتے ہیں کہ اطالوی گورنر کی طرح ان کا پبلک ٹرائل نہیں ہوا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ معزز عدالت نے بھی کبھی یہ جاننے کی تکلیف نہیں کی کہ انہیں بھیجنے والا کون تھا؟ شیر کی حفاظت کیلئے پیاروں کی قربانی کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
ناہید خان، صفدر عباسی، ذوالفقار مرزا، ذوالفقار کھوسہ، غوث علی شاہ اور سب سے بڑھ کر جاوید ہاشمی سیاسی صف شہدا کی ایک طویل فہرست ہے۔ یہ اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ میڈیا مکمل بیدار اور بے خوف ہے۔ حکمرانوں کے روئیے میں بھی پہلی سی صلابت نہیں رہی۔ وگرنہ خان قیوم جیسے ’’مردآہن‘‘ تھرڈ ڈگری میتھڈ‘‘ کی تاب نہ لاتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر دو دن میں معافی نامہ لکھ دیتے تھے۔
ان تاریخی واقعات کے لکھنے اور اطالوی مصنف کا حوالہ دینے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی محض ہوس اقتدار میں اخلاقی قدروں سے منہ موڑ لے۔ ہر اصول توڑ ڈالے، اور بے راہ روی کا شکار ہو جائے۔ مقصد نیک بھی ہو تو اُس تک پہنچنے کا راستہ تو نکلنا چاہئے۔ عمران خان یقیناً ایک ایماندار شخص ہے۔ اسکی دلی خواہش ہے کہ معاشرے سے کرپشن ختم کی جائے۔ غربت میں نمایاں کمی ہو، لوگوں کا معیار زندگی بلند کیا جائے اس کیلئے ضروری ہے کہ کم ممبران اسمبلی کا معیار زندگی بلند کیا جائے اس کیلئے ضروری ہے کہ ممبران کو اسمبلی کی اکثریت کی حمایت حاصل ہو۔ معاشرہ جس زبوں حالی کا شکار ہے اسے تحت الثریٰ سے نکالنے کیلئے فعال لیڈر شپ کے علاوہ ایک عرصہ درکار ہو گا۔ اگر لوگوں کو یقین ہو کہ ان کا پیسہ قومی فلاح و بہبود پر خرچ ہو گا تو یقیناً وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کیلئے دامے، درمے، قدمے، سخنے آگے بڑھیں گے۔
ویسے بھی سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔ بسااوقات طبیعت پر جبر کرکے مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں۔ 72 کے الیکشن میں دولتانہ اور قزلباش نے کھل کر بھٹو کی مخالفت کی۔ دشنام طرازیاں ہوئیں۔ دونوں الیکشن ہار گئے۔ بھٹو نے ایک کو لندن اور دوسرے کو فرانس کا سفیر مقرر کر دیا۔ یہ حُب علی نہیں بُغض معاویہ تھا۔قیوم خان کو ڈبل بیرل خان کہتا ہی نہیں سمجھتا بھی تھا، اسے وفاقی وزارت دی۔ جنرل گل حسن اور ائرمارشل رحیم کو ایک ہاتھ سے سزا دی اور دوسرے سے نوازا۔
دولتانہ اور گورمانی اسمبلی میں گالم گلوچ ہوتے تھے۔ شام کو شغل شب اکٹھے کرتے تھے۔ عمران خان کا زرداری کے ساتھ اکٹھے مل نہ بیٹھنا بچگانہ حرکت ہے۔ سیاست میں سکول کے بچوں کی طرح کٹی نہیں ہوتی۔ حالات اور واقعات کو دیکھنا پڑتا ہے۔ میاں شہباز شریف، آصف زرداری کو گلے میں رسی ڈال کر گوالمنڈی میں گھیسٹنے کا اعلان کیا کرتے تھے۔ موقعہ کی نزاکت دیکھتے ہوئے جاتی عمرہ میں بغلگیر ہو گئے۔ میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر کو ایک دوسرے کی شکل دیکھنا گوارا نہیں تھا۔ لندن میں بیٹھ کر میثاق جمہوریت پر دستخط کئے۔ پچھلے دھرنے میں پیپلزپارٹی نے علامہ قادری کی مخالفت کی۔ اب دونوں شیروشکر ہو گئے ہیں۔ خان اور زرداری صاحب بے شک ایک کنٹینر میں نہ بیٹھیں، ہاتھ ملانے میں کیا حرج ہے؟ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے۔ ویسے قادری صاحب اور دیگر حضرات کو کچھ کر گزرنے کیلئے کنٹینر سے باہر نکلنا ہو گا جس جرنیل کی سپاہ سردی سے ٹھٹھر رہی ہو اسے نرم گرم صوفوں پر نہیں بیٹھنا چاہئے۔ آج سے 23 سو سال قبل یہ سبق سکندر یونانی نے دیا تھا جب اسکی فوجیںگڈروسیہ (مکران) کا صحرا عبور کرتے ہوئے بھوک اور پیاس کی شدت سے جاں بلب تھیں تو وہ گھوڑے سے اتر کر پیدل چلنے لگا۔ سپاہیوں نے بڑی مشکل سے پانی کا ایک گلاس پیش کیا تو اس نے یہ کہتے ہوئے پانی زمین پر گرا دیا۔ جس جرنیل کی سپاہ پیاسی ہوں اسے پانی پینے کا کوئی حق نہیں ہے۔ سکندراعظم ویسے تو نہیں بنتے!