دنیائے اسلام کے حاکموں کے عمل نے ثا بت کیا ہے کہ وہ منفی سوچ جرات سے عاری بصیرت دور اندیشی اور بر وقت درست فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں اور امہ کو درپیش مسائل کے حل میں مکمل طور پر ناکام ہیں۔ وہ جمہور دشمن سوچ کی وجہ سے عوام کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔وہ عوامی اور قومی وسائل کا اپنی منشاء کے مطابق بے دریغ استعمال اور قومی دولت سے اربوں کھربوں ڈالرز دائیں بائیں کر کے غیر ممالک میں بنکوں میں جمع کراتے ہیں۔ انکا طمع لالچ اور ذاتی مفادات کے تحفظ کا دائرہ کار رکنے کی بجائے پھیلتا ہی جاتا ہے۔بے بس عوام سماجی اور معاشی طور پر کمزورجاہل اور اجڈ بنا دئے گئے۔تعلیم سے دور کر دیا گئے۔ اور انکو موقع پرست بزدل بنا کردال روٹی اور پانی کی فکر ڈال دی گئی۔خود اپنے تخت و تاج و مفادات کو بچانے کے لئے غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں کٹھ پتلیاں بنے ہوئے ہیں۔ مسلم ممالک آپس کے عدم تعاون کے علاوہ عوام کو دستیاب وسائل سے فیضیاب بھی نہیں ہونے دے رہے۔ان حاکموں کے پاس دولت کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ اربوں کے کاروباری سودے ان ملکوں سے کئے جا رہے ہیں جو مسلمانوں کے وجود کے مٹانے کے در پے ہیں۔انکے ساتھ 25/25سال کے ڈیفنس پیکٹ کئے جا رہے ہیں۔ جو اسرائیل کے ساتھ مشترکہ دفاعی مشقیں کرتے ہیں۔ کیا وزیراعظم اسرائیل کا حالیہ دورہ بھارت مسلم ممالک کو خبردار کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ یہ مسلمان ممالک غریب برادر مْلکوں کے عوام کے لئے اپنے یہاں ملازمتوں کے مواقع مفقود کر کے غیروں کو یہ موقع دے کر ان کی معاشی ترقی اور دفاع مضبوطی کے عمل میں ممدود معاون بن رہیں ہیں۔یہ حکمران جس تنے پر بیٹھے ہیں اسکو کاٹ رہیں ہیں۔آج مسلمانوں میں ذمہ داری اور احساس کس حد تک ختم ہو گیا ہے۔ ذرا سنیئے گولڈا میئراسرائیل کی 74-1969 تک وزیر اعظم رہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ جب ہم نے مسجد اقصیٰ جلائی تو میں ساری رات نہ سو سکی اس خوف سے کہ صبح عربوں کی فوجیں اسرائیل پر حملہ آور نہ ہو جائیں۔لیکن اگلے دن مجھے بتایا گیا کہ ہم جو دل چاہے کر سکتے ہیں۔ہمارا مقابلہ ان لوگوں سے ہے جو سو رہے ہیں۔
ایک کروڑ ساٹھ لاکھ تو یہودیوں کا ملک عالمی دہشتگرد ہے۔جو دن رات مسلمانوں کا خون بہا رہا رے۔صابرہ اور شتیلہ میں اس نے حملہ کر کے مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگا اور تاریخ کا بد ترین سیاہ باب رقم کر ڈالا۔جبکہ مسلمان بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔
یاسر عرفات نے اسرائیل کی طرف سے مسلسل جبر قتل ،غارت اور مسلمانوں کی مقدس زمینوں اور عمارات پر قبضے کے بعد جو بیان دیا۔وہ مسلمہ امہ کی آج کی بے بسی کی عکاسی ہے۔انہوں نے کہا کہ کاش میرے باپ دادا آج زندہ ہوتے تومیں سے سوال کرتا۔کہ جب یہودی منصوبہ بندی کے تحت فلسطین میں ڈالروں سے بھرے سوٹ کیس لا کر منہ مانگے دام سے انکی اراضی اور جائدادیں خرید رہے تھے۔ تو انکے بزرگوں نے دانش مندی اور دور اندیشی کو پس پشت ڈال کر ان ڈالروں سے شادیاں رچائیں یا وقتی جاہ وجلال اور شان و شوکت دکھائی غور کریں آج بھی یہ حکم کے غلام امریکہ کے صدر ڈونل ٹرمپ کی خوشنودی کے حصول کی خاطر تو پچاس سر براہان سعودی عرب پہنچے۔ جبکہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دار خلافہ تسلیم کرنے کے امریکہ کے حالیہ بیان پر جب او آئی سی کا جلاس بلایا گیا تو سوائے معدودے چند حکمرانوں کے باقی نے اپنے ملکوں کی نمائندگی دوسرے درجے کی قیادت کو بھیج کر اسرائیل کو پیغام دیا کہ گولڈ امئیر کی سوچ اور اخذ شدہ نتیجہ ٹھیک ہی تھا۔ہمیں تو اسلامی دنیا کے ابھرتے ہوئے بیباک اور جراتِ رندانہ رکھنے والے ترکی کے صدر کی جان کی فکر ہے کیوں کہ وہDanger Zone میں آ چکے ہیں۔
جہاں جہاں مسلمان حاکموں نے عوام کی معاشی حالت بدلی جیسے لیبیا ، عراق اور دیگر مسلم ممالک وہاں کے عوام نے غیرں کے بہکاوے میں آ کر اپنے ہی حاکموں کوتہہ تیغ کیا۔ ملکوں کو تباہ کیا اور اب کف افسوس مل رہیں ہیں۔ اور اب اپنے معاشی طور پر مستحکم ملک تباہ کر کے یورپ کے در پر عاجزی اور بے بسی کی حالت میں نوکریوں اور شہریت کے لئے بھیک مانگ رہے ہیں اور غیر قانونی انتقال آبادی کرنے والے کبھی غرق سمندر اور کبھی گولیوں کا شکار ہو رہے ہیں اسلام دشمنوں نے اتنا اسلحہ مسلمان ممالک پر گرایا کہ شاید آج تک وہاں اتنا مینہ بھی نہ برسا ہو۔دنیا کا سب سے بڑا بم پڑنے کا تجربہ بھی انہیں کا نصیب بنا۔
حاکموں کو بزدل بنانے میں ایک سوچی سمجھی سازش بنائی گئی۔سلطان صلاح الدین نے جب یورپین مشترکہ افواج کے کمانڈر رچڑڈ کو یروشلم میں شکست د ی۔ تو اس نے ہاتھ بلند کر کے صلاح الدین سے کہا ہم اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں اور وارننگ دی کہ ہم تم سے یہ بدلہ ایک ہزار سال بعد لیں گے۔پھر کیا ہوا سامان حرب میں ترقی کی۔ معاشی ترقی کے لئے ایجادات کیں۔تعلیم و تربیت پر زور دیا ور مسلمانوں کو عربی اور عجمی، مصری، ہندی،ایرانی، عراقی میں بانٹا۔ یہاں ہمیں پنجابی سندھی بلوچ پختون بتایا ہمیں فرقہ پرستی کی طرف مائل کیا۔لسانیت کے اختلافات شروع کروائے اور یوں امت مسلماں کا شیرازہ ہی بکھیر دیا۔
مسلمانوں کی خلافت کو چلتا کیا، لیاقت علی خان ،شاہ فیصل، انور سادات،کرنل قذافی،صدام کو مارا، بھٹو کو راستے ہٹایا پاکستان کو دولخت کیا بے نظیر کا کام تمام کیا سو ئیکارنوکو فارغ کیا۔جمال ناصر کی فراغت یاسر عرفات کو زہرسے چلتا کیا۔ جنرل ضیاء کے طیارے کو گرایا۔طالبان کی تشکیل ہوئی ISIS کو منظم کیا گیا۔ہر طرف افرا تفری پھیلادی گئی۔اب نشانے پر ہے پاکستان ترکی انڈونیشیا اور سعودی عرب وہ ملک جو ابھی تک لوگوں کو دل و جان سے عزیز ہے۔ وہاں بھی مستقبل کے انتشار کی پنیر ی لگا دی گئی ہے۔درجنوں شہزادوں کی پکڑ دھکڑ کیا وہ اس توہین کو آسانی سے ہضم کر لیں گے۔ یمن کی جنگ میں لاکھوں مسلمان جان سے گئے۔اسی تسلسل میں قطر پر الزامات کی بوجھاڑ کی گئی۔ اب الجزیرہ T.V بند کرنے کا مطالبہ ہے۔ اس پر دہشت گردوں کو سپورٹ کرنے اور عرب اتحاد کے خلاف کام کرنے کا الزام عائد کر دیا گیا ہے۔قطر کی ہوائی اور سمندری ناکہ بندی کی گئی کئی ممالک نے سفارتی تعلقات ختم کر کے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ قطر امیر ترین ملک ہے جس کا اپنا سمندر ہے اس پر کھانے پینے کی ناکہ بندی ہوائی پابندیاں لگا کر اسکو دباؤ میں لانے کی کوشش کی ایسے میں ایران اور ترکی انکی مدد کو آئے اور اسکا جھکاؤان کی طرف ہو گیا۔ٹرمپ کا سعودی عرب کا دورہ در اصل اس کے یہودی داماد کی خواہش پر ہوا کیونکہ اسرائیل عرصہ دراز سے اس کوشش میں تھا۔اسکا دارالحکومت پروشلم بنے اسی لئے گلف میں افرا تفری مچائی گئی۔ابھی کل ہی امریکہ نائب صدر نے اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب میں سرزمین فلسطین پر اسرائیل کے قیام کو جائز قرار دیا کہا کہ یہ ڈھائی ہزار سے یہودیوں کا ملک ہے۔یہ اسلامی دنیا کا حال ہے۔