کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں !
حکومت پنجاب پی ایس ٹی کو نویں سے چودھویںگریڈ‘ ای ایس ٹی کو بارہ سے چودہ‘ چودہ والے کو پندرہ اور پندرہ والے کو گریڈ سولہ اور گریڈ سولہ کے ای ایس ٹی کو دو سالانہ اضافی ترقیاں اور تمام ایس ایس ٹی کو بھی دو سالانہ اضافی ترقیاں دے رہی ہے۔ حکومت پنجاب کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے جسے سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ ایس ایس ٹی اساتذہ کی تین کیٹیگری میں پندرہ فیصد اساتذہ اپ ورڈ موبلٹی کے تحت گریڈ اٹھارہ‘ پنتیس فیصد اساتذہ گریڈ سترہ میں اور پچاس فیصد اساتذہ اپنے بنیادی گریڈ سولہ میں ہی فرائض انجام دے رہے ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ سکولوں کے ہیڈ ماسٹرز اور سینئر ہیڈ ماسٹرز علی الترتیب گریڈ سترہ اور گریڈ اٹھارہ میں ہیں علاوہ ازیں ایس ایس اور ٹرپل ایس ایس جو کہ ہائر سیکنڈری‘ سکولوں اور ایلیمنٹری کالجز میں پڑھا رہے ہیں ان کے گریڈ بھی سترہ‘ اٹھارہ اور انیس ہیں۔ 27 سال یا 28 سال ایس ایس ٹی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد اعلیٰ کریکٹر رول اور پرفارمنس رکھنے پر گریڈ سترہ میں ہیڈ ماسٹر پھر ہیڈ ماسٹر سے پھر سینئر ہیڈ ماسٹر بنتا ہے جو کہ متذکرہ ایس ایس ٹیز کا گریڈ سترہ یا اٹھارہ ہے ان سے سینئر ہوتا ہے لیکن ارباب اختیار کی آنکھوں پر شاید کالی پٹی بندھی ہوئی ہے کہ انہوں نے ہرگز خیال نہیں کیا کہ ان ہیڈ ماسٹرز اور سینئر ہیڈ ماسٹرز ‘ ہیڈ مسٹریسز اور سینئر ہیڈ مسٹریسز کو بھی دو سالانہ اضافی ترقیاں دے دی جاتیں۔ کیا ہیڈ ماسٹرز اور ہیڈ مسٹریسیز سڑکوں پر احتجاج کریں یا اپنی حکومت کیخلاف عدالت عالیہ سے رجوع کریں۔ یہ بہت بڑی ناانصافی برتی گئی ہے۔ گریڈ سترہ اور اٹھارہ کے ہیڈ ماسٹرز‘ سینئر ہیڈ ماسٹرز‘ ہیڈ مسٹریسز‘ سینئر ہیڈ مسٹریسز اوراساتذہ کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے حقوق کیلئے آج سے اپنی جدوجہد شروع کردیں پرامن احتجاج کریں اور حکومت وقت کو احساس دلائیں کہ واقعی سینئر اساتذہ پیکج ایوارڈ کرتے ہوئے نظر انداز کئے گئے ہیں۔ ہیڈ مسٹریز‘ سینئر ہیڈ ماسٹرز اور ماہر مضامین اساتذہ کی تنظیم سینئر سٹاف سکولز موجود ہے لیکن کلیدی عہدوں پر گریڈ انیس اور بیس کے اساتذہ مسلط کر رکھے ہیں جنہیں گریڈ سترہ اور اٹھارہ کے اساتذہ سے کی جانے والی زیادتی کا احساس نہیں۔ گریڈ اٹھارہ کے نمائندے گریڈ انیس میں پروموٹ ہو رہے ہیں۔
گریڈ سترہ اوراٹھارہ کے ہیڈ ماسٹرز اور سینئر ہیڈ ماسٹرز و دیگر اساتذہ جن کو مراعات نہ ملی ہیں حصول کیلئے جدوجہد کرنے کیلئے حقوق سے محروم اساتذہ کو میدان عمل میں لا کر اپنی دبی ہوئی آواز کو بلند کرنا ہو گا ورنہ سربراہان سکولز کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا جا رہا ہے وہ کسی بھی سربراہ سکول سے پوشیدہ بات نہ ہے۔ سربراہان سکولز ایک سال سے اپ گریڈ کئے گئے سکولوں میں تعینات‘ اساتذہ کو تنخواہیں خود دے رہے ہیں۔ حکومت پنجاب ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے کسی قسم کے فنڈز نہ دئیے ہر روز نیا حکم نامہ مل جاتا ہے کہ نمایاں جگہ پر دیوار پر پینٹر سے لکھائی کرا دیں اور مختلف تحریریں پینٹرز سے لکھوائی جا چکی ہیں۔ ان کے اخراجات بھی خود سے کرنے پڑتے ہیں۔ کلسٹر ہیڈز کو پنجم و ہشتم امتحان کے کنڈکٹ کرنے کے تمام اخراجات اٹھانا پڑتے ہیں۔ سکیورٹی کیلئے اب رنگ دار اور خاردار تار لگوانے کا حکم آچکا ہے لیکن فنڈ نہیں۔ واک تھرو گیٹ‘ آگ بجھانے والے سلنڈر‘ سکول گارڈ کی تعداد میں اضافہ کرنے جیسے احکامات بھی مل چکے ہیں لیکن فنڈ ندارد‘ سکولوں میں صابن اور تولیے بچوں کو دینے کا کہا گیا ہے کہ وہ لیٹرینوں میں رکھے جائیں بڑے سکول میں دس تولئے ناکافی ہیں اور ایک روز میں تولیے گندے ہو جاتے ہیں تولیے اٹھا کر لے جاتے ہیں‘ صابن ‘ لٹرینوں کے گٹر میں ڈال دیتے ہیں۔ سکولوں میں صفائی کیلئے خاکروب نہ ہیں جہاں پر ایک خاکروب ہے وہ نشئی یا بیمار ہے۔ بڑے سکول میں خاکروب رات کو بارہ بجے سے کام کرنا شروع کرے تب بھی صفائی نہیں ہو سکتی کسی شہر کے پوش علاقے کی سڑکوں کی گندگی دیکھی ہے کتنی ہوتی ہے۔ شہر کی ناممکن صفائی کیلئے راقم کی گلی اور سکولوں کو جانے والی سڑک کو دیکھ لیاجائے تو تعفن پھیلا ہوا ہے۔ سکولوں میں مائیکرو منی بورڈ کیلئے ٹینڈر دلوا دئیے گئے ہیں لیکن پیسے نہیں دئیے گئے۔ بڑے سکولوں کے سربراہان نے یوٹیلٹی بلز بھی اپنی جیبوں سے ادا کر رکھے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سکولوں کا انفراسٹرکچر پہلے سے کہیں بہتر ہوا ہے لیکن یہ سب کچھ سربراہان سکولز کی انتھک کوششوں سے ہوا ہے۔ ہائی سکولز کی پروموشن میں اس قدر رکاوٹیں ڈال رکھی ہیں کہ بڑے بڑے سکول بغیر سربراہ کے چل رہے ہیں۔ سربراہان سکولز اپنے سکولوں کا نظام چلانے کیلئے مخیّر حضرات کی مدد سے طلباء کی ضروریات پوری کر رہے ہیں۔یہاں تک کہ بچوںکو یونیفارم‘ بستے و کاپیاں مخیّر حضرات سے لیکر دی جارہی ہیں۔
افسوس اس بات پر ہے کہ بعض ارکان اسمبلی نے اپنے اقتدار کی دو یا تین مدتیں مکمل کر لی ہیں لیکن سرکاری سکولوں پر ایک ٹکا خرچ نہیں کیا۔ مزید برآںملتان سے شجاع آباد اور جلال پور پیروالا کیلئے سینکڑوں اساتذہ و دیگر محکمہ جات کے ملازمین ڈیوٹی کیلئے ملتان سے جاتے ہیں لیکن روڈ بننے کی وجہ سے بسیں نہیں چل رہیں اور ویگنیں بھی کم ہیں۔ شجاع آباد سے پہلے تک کے سفر کیلئے اے پی وی میں جانا پڑتا ہے اور جلال پور پیروالہ کا کرایہ دو سو بیس روپے یکطرفہ دینا پڑتا ہے۔ ملتان شہر میں تین ماہ سے سپیڈو بسیں چل رہی ہیں اور خالی چل رہی ہیں کیا شجاع آباد اور جلال پور پیروالا کیلئے کیا یہ بسیں نہیں چلائی جا سکتیں۔ارکان اسمبلی کبھی بھی ترقیاتی کام نہیں کرواتے۔ بیورو کریسی کے تشکیل دئیے گئے منصوبوں پر اپنی چھاپ لگا کر عوام الناس کو بے وقوف بنا رہے ہیں سرکاری ملازمین کے ہارٹ برننگ مسائل کا کبھی بھی کسی رکن اسمبلی نے اسمبلی سیشن میں ذکر نہیں کیا۔
٭٭٭٭٭٭