نہ خداہی ملا نہ وصالِ صنم
17 جنوری کو مال روڈ پر متحدہ اپوزیشن کے عظیم الشان جلسہ عام سے پہلے یہ بات چند اہل قلم دوستوں نے اشاروں کنایوں میں بتا دی تھی کہ ڈاکٹر طاہر القادری جو ’’کبھی سیاست نہیں ریاست بچاؤ‘‘ تو کبھی ’’انتخابی اصلاحات اور سب سے پہلے احتساب‘‘ جیسے دلفریب نعروں سے دھرنوں کیلئے بہت مقبول ہیں ۔ پہلے انہوں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 14 شہداء کے خون کا بدلہ لینے کیلئے دھرنا دیا۔جسٹس باقر نجفی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد تو جیسے ان کیلئے تمام نادیدہ ہاتھ سامنے آ گئے۔ اب کے بار مال روڈ پر جلسۂ عام کی تاریخ کا اعلان ہوا تو زرداری کی ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقاتیں اورعمران خان کے رابطے بالخصوص شیخ رشید کے ذریعے پیغام رسانی اور مسلسل ملاقاتوں سے ایسی فضاء پیدا ہوئی کہ شاید اب یہ آخری معرکہ ہو گا اور پھر بچی کھچی مسلم لیگ اورحکومت تنکوں کی طرح بکھر جائے گی۔
آصف زرداری، ڈاکٹر طاہر القادری کو ’’بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان ‘‘کے ہم پلہ قرار دیتے رہے اور کہا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی شکل میں نوابزادہ نصراللہ مل گئے ہیں۔ طاہر القادری اسی سرور میں رہے کہ وہ اپوزیشن کے متفقہ رہنما کے طور پر اُبھرے ہیں اور اپنے سٹیج پر دائیں بائیں وہ رہنما بٹھا کر دکھا دیں گے جو ایک دوسرے سے ہاتھ ملانا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ 14 شہداء ماڈل ٹاؤن کے قصاص سے زیادہ اہم وہ سیاسی کردار جو بابائے جمہوریت کے روپ میں وہ دیکھ رہے تھے اور اب وہ مستند اور متفقہ سیاسی رہنما کے طور پر خود کو دیکھ رہے تھے۔ زرداری نے اپنی سیاسی بصیرت سے دوسرا یہ خواب بھی دیکھا کہ اس متفقہ اور متحدہ اپوزیشن کے طور پر ہونے والے مال روڈ کے جلسہ عام میں پاکستان کے مقبول رہنما عمران خان کے قریب ہونے کا موقع بھی ملے گا اور پھر متوقع عام انتخابات میں ایک اچھے ماحول میں کہیں‘ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات بھی آگے چل نکلے گی۔ عمران خان کی سیاسی بصیرت کو داد دینی چاہئے جو انہوں نے ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر یکجہتی کا اظہار بھی کیا اور زردای کی ان کے قریب تر ہونے کی خواہش اور امید کو اس طرح رد کر دیا کہ سترہ جنوری کے جلسہ عام میں دو سیشن منعقد ہوئے۔ ایک حصہ زرداری کیلئے مختص ہوا اور دوسرا عمران خان کے لئے مخصوص ہو گیا۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز نے اس متحدہ اپوزیشن کے جلسہ کو ناکام قرار دیا اور اس ناکامی کی ذمہ داری میزبان جلسہ ڈاکٹر طاہر القادری پر ڈال دی۔اپوزیشن کی مؤثر جماعتوں نے بھی جلسہ کی ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کی۔ متذکرہ جلسہ عام کا دراصل سیاسی نقصان طاہر القادری کو ہوا کیونکہ وہ اپنے جلسہ میں شہدائے ماڈل ٹاؤن کی مؤثر بات نہ کر سکے۔ بابائے جمہوریت بھی نہ بن سکے‘ دائیں بائیں زرداری اور عمران خان کو بھی نہ بٹھا سکے۔ اسی طرح جلسہ میں آئندہ کے لائحہ عمل کا غیر واضح اعلان کر کے تمام خواب چکنا چور ہو گئے۔
اس جلسۂ عام میں عمران خان کی پوزیشن واضح رہی اور سٹیج پر ہاتھ بلند کرنے پر انہوں نے طاہر القادری کا ہاتھ جھٹکتے رہے اور واضح پیغام دیتے رہے کہ وہ نہ تو انہیں بابائے جمہوریت بنانے کیلئے تیار ہیں اور نہ ہی زرداری کی مردہ سیاست کو کندھا دینے کے حامی ہیں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ دائیں بائیں بیٹھنے سے عمران خان کی سیاست کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ عمران خان پوری چال کو سمجھ چکے تھے خصوصاً زرداری کی سیاست کو۔ لہٰذا اپنے ورکرز کو بھی مثبت پیغام دیا۔ اپنے کالم کے ابتدایہ میں جو بات قارئین کرام کو بتانا چاہتا تھا کہ اس جلسہ کی آڑ میں زرداری جو کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہے تھے وہ کامیاب رہے۔ جب زرداری ڈاکٹر طاہر القادری کو بابائے جمہوریت کا خطاب دے کر عمران خان سے مستقبل کی سیاست میں کچھ حاصل کرنے کی اُمید لگائے بیٹھے تھے اس میں انہیں ناکامی نظر آئی اور جب سٹیج پر دائیں بائیں بیٹھنے کا پروگرام بھی ناکام ہوتے ہوئے نظر آیا تو یہ خطروں کا کھلاڑی اپنی سیاست کبھی بھی ایک نکتے پر مرکوز نہیں کرتا کیونکہ در پردہ آصف علی زرداری کے مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی رابطے تھے اور ہیں۔ سیاسی کھلاڑی بھی وہی ہوتا ہے جو ’’لو اور دو ‘‘کی پالیسی پر اپنے دروازے بند نہیں کرتا اور بیک ڈور چینل ڈپلومیسی سے معاملات چلتے رہتے ہیں۔
بلوچستان کی اسمبلی پر کاری وارکر کے سینیٹ کے انتخابات میں اپنی سیاسی پوزیشن تومضبوط بنا لی ہے۔ اب سینیٹ کے الیکشن ہو بھی جائیں تو سینیٹ کا چیئرمین پیپلز پارٹی کا ہی ہو گا۔ قوی امید ہے کہ اس بار سینیٹ کی چیئرپرسن فریال تالپور ہو سکتی ہیں جس پر مسلم لیگ ن نے آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ ن وزارت عظمیٰ کیلئے بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے اُمیدوارکیلئے گرین سگنل دے چکی ہے۔ ایسی کامیاب کی صورت میں زرداری کو چند آئینی ترامیم جس میں عدلیہ‘ پاک فوج کے حوالے سے اہم معاملات میں ساتھ دینا ہو گا۔ وہ ترامیم پر ساتھ دیں گے یا نہیں یہ بعد میں دیکھا جائے گا۔
17 جنوری کی سیاسی صورتحال کے بعد سب سے زیادہ نقصان ڈاکٹر طاہر القادری کو پہنچا ہے۔ ناکام جلسے‘ شہدائے ماڈل ٹاؤن کی بجائے بابائے جمہوریت بننے کا خواب بھی چکنا چور ہو گیا۔ دو بڑے رہنماؤں کو ساتھ بٹھانے کا وعدہ بھی پورا نہ کر سکے۔ جلسہ عام کے بعد مکمل سکوت اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری بھی سیاسی سکتے میں ہیں۔ زرداری اپنی سیاسی بساط پر ٹھیک چال چلے ہیں‘ عمران خان بھی اپنا دامن داغدارہونے سے بچا گئے۔ ن لیگ تو ویسے ہی مشکلات سے دوچار ہے اور ان کی مشکلات کم ہوتی نظر نہیں آ رہیں ۔لیکن ڈاکٹر طاہر القادری کے بارے میںسیاسی بصیرت رکھنے والوں کا کہنا ہے
؎ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے