تو بھی پاکستان ہے میں بھی پاکستان ہوں
پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا۔اس کے حصول کے لیئے مسلمانان بر صغیر نے بے شمار قربانیاں دیں۔لاکھوں انسان موت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس وقت آزادی کی تڑپ نے دلوں میں ایک لگن اور جوت جگا دی کہ پاکستان بننے کے بعد ہم آزاد ماحول میں تعلیمات اسلامی کے مطابق زندگی بسر کریں گے۔لیکن 70سال گزرنے کے باوجود ہم حق و سچ اور عدل و انصاف کا نظام رائج نہ کر سکے ۔مقتدر حلقوں نے لوٹ مار کا ماحول پیدا کیا ملکی وسائل پر غاصبانہ قبضہ کیا اور غریب عوام غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہوتے چلے گئے ۔شاعر نے سچ کہا ہے کہ تو بھی پاکستان ہے ۔تیرا جتنا بس چلتا ہے ۔پاکستان کی دولت کو لوٹ کر آف شور کمپنیوں میں لگا رہا ہے اور میں بھی پاکستان ہوں جویونیورسٹیوں سے ڈگریاں حاصل کر کے تلاش معاش میں سرگرداں ہوں کہیں میرٹ کا نام و نشان نہیں۔ہر کلیدی پوسٹ پر سرکار کا وفادار بیٹھا ہوا ہے جو جمہوریت کے چمپئین کاغم خوار ہے۔تو بھی پاکستان ہے کہ سرے محل اور لندن فلیٹس تیری راہ تک رہے ہیں کہ تو نے جمہوریت کے ذریعے عوام پاکستان کی بڑی خدمت کی ہے۔ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دی ہیں۔لوگوں کی بنیادی ضرورتیں پوری کردی ہیں ۔تو بھی پاکستان ہے کہ اسمبلیوںمیں ہمیشہ سچ بولتاہے،عوام کے مفادات کے لیئے قوانین بناتاہے ۔ہمیشہ جمہوریت کی خاطر قومی خزانے سے حاصل شدہ گرانٹیں خرچ کرتا ہے۔تیری امارت،املاک،انداززندگی توتیرے کمال اور ہنرمندی کی غماز ہے لیکن میں تو آئے روز صاف پانی کے لیئے ترس رہا ہوں تھر میں میرے بچے بیماریوں کا شکارہیں۔میری مایئں ،بہنیں اور بیٹیاں ہسپتالوں کی سیڑھیوں پر بچوںکو جنم دے رہی ہیں تو بھی پاکستان ہے کہ تیری تجوریاں مال وزر سے بھری ہوئی ہیں اور لوٹی ہوئی رقم تجھے علاج کے لیئے لندن اور امریکہ کے ہسپتالوں کی طرف محو پرواز کرتی ہیں۔جس پر تو مزے اڑا رہاہے ۔
تو بھی پاکستان ہے کہ تیرے انداز حکمرانی سے قصور کی سرزمیں270بچوں کے ساتھ نا زیبا حرکات کی گواہ ہے اور ایک سال میں11بچیوں کی عصمت دری اور قتل کی شہادت پیش کررہی ہے۔میں بھی پاکستان ہوں کہ ہمیشہ تجھے ہی ووٹ دیتا ہوں اور کئی عشروں سے تجھے حق حکمرانی عطا کر رہا ہوں ۔کیا انداز حکمرانی ہے کہ زینب کے قتل پر آرمی چیف اور چیف جسٹس والدین کو انصاف کی تسلیاں دیتے نظر آتے ہیں۔
مجھے تو بانی پاکستان حضرت قائد اعظم ؒ کے 11اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی سے خطاب کے یہ الفاظ یاد ہیں ’’ اگر ہم اس عظیم ملک پاکستان میں مسرت اور خوشحالی کا دور دورہ دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں عوام ، خصوصا غریبوں کی بہبود کو اپنی توجہ کا مرکز بنانا ہے ۔آپ میں سے ہر فرد رنگ ،نسل ،مذہب کی تفریق سے بالا تر ہو کر اول و آخر اس ملک کا شہری ہے اور تمام لوگوں کے حقوق و فرائض برابر ہیں۔
ستر سالہ دور حکمرانی میں جمہوریت کے علمبر داروں نے غریبوں کی بہبود کے لیئے کتنا کام کیا ۔کراچی میں واٹر مافیا کے کرتا دھرتا نے کروڑوں کا بھتہ وصول کیا اور کرپشن کو بام عروج تک پہنچایا ۔ڈاکٹر عاصم اور عزیر بلوچ کی خدمات تاریخ کا اثاثہ ہے ۔ہم نے کبھی وزیراعظم کے منہ سے کرپشن کی برائی نہیں سنی البتہ نیب کے اہل کار کو ڈانٹتے ہوئے دیکھا تاکہ وہ ڈر سہم جایئں اور کرپٹ حکمرانوں کے لشکر جرار پر حملہ آور نہ ہوں۔
؎دوستو! قافلہ درد کا اب کیا ہوگا
اب کوئی اور کرے پرورش گلشن غم
دوستو ختم ہوئی دیدہ تر کی شبنم
تھم گیا شور جنوں ختم ہوئی بارش سنگ
خاک رہ آج لیئے ہے لب دلدار کا رنگ
کوئے جاناں میں کھلا میرے لہو کا پرچم
میرے حکمران تیری ادائوں پر میں قربان کہ تیرے بچے بھی اربوں اور کھربوں کی دولت کے مالک ہیں اور تو ان کے لیئے چھتری بن کر سایہ بہم پہنچارہا ہے ۔میرا بچہ توسرکاری سکول میں داخلے کو ترس رہا ہے ۔وہ کیسے انگلش میڈیم سکولوں کے طالب علموں کا مقابلہ کرے گا لیکن بیکن اور سٹی سکول اس کے تصور سے ماورا ء ہیں ۔اور پھر لاکھوں بچے جو مسجد اور مکتب کی فضا میں علم حاصل کر رہے ہیں ۔سی ایس ایس اور پی سی ایس ان کے خیالوں سے بلند شوق ہے تو بھی پاکستان ہے کہ بڑے بڑے علمائے سیاست کو پجارو نشین بنا دیا ہے۔ان کی ہمدردیاں اور ووٹ کی خاطر انہیں زر کثیر دے کر مال دار طبقے میں شامل کر دیا ہے ۔بڑی مکاری سے تو نے ان کے ایمان پر حملہ کیا ہے ۔
؎ کیا ہے تو نے متاع غرور کا سودا فریب سود و زیاں لا الہ الااللہ
مال حرام کی ہر طرف فراوانی سے اسلامی قدروں کا جنازہ نکل چکا ہے ۔ہر آدمی مال و زر کا پرستار دکھائی دیتا ہے۔تو نے ہر فرد کے دل میں مال وزر کی طلب پیدا کی ہے ۔مسلمان تو رزق حلال کا متلاشی ہوتا تھا ا س کے سامنے تو نبی بر حق ؐ کا فرمان تھا الفقر فخری کہ میرے لیئے فقر باعث فخر ہے ۔آپؐ کی حیات مطہرہ فا قوں اور بھوک سے عبارت تھی اور آپؐ کے صحابہ کرام ؓ کا بھی یہی انداز زندگی تھا۔خلفائے راشدین ؓ نے ہمیشہ تعلیمات اسلامی اور سنت رسول ؐ کو مدنظر رکھا ۔اور کبھی بیت المال کو اپنے اوپر یا اولاد پرخرچ نہیں کیا۔مگر تو کیسا حکمران ہے کہ کرپشن کا بازار گرم کر کے کرپٹ طبقہ پروان چڑھا رہاہے ۔اور پھر صدایئں بلند کرتا ہے ’’ مجھے کیوں نکالا‘‘اللہ کی نافرمانی اور احکام خدا وندی سے روگردانی غضب خدا وندی کا باعث بنی اور تجھے یہ دن دیکھنے پڑے ۔میرے لیئے تو
؎ہر منزل غربت پہ گماں ہوتا ہے گھر کا
بہلایا ہے ہر گام بہت در بدری نے