پوری قوم پولیس کے مظالم کا رونا رو رہی ہے‘ حکومت صحیح کام نہیں کر رہی: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں، پولیس کی مبینہ ملی بھگت سے ملک بھر کے تھانوں میں جعلی مقدمات کے اندراج اور ان میں پراسیکیوٹرز اور پولیس کی ناقص تفتیش سے متعلق کیس کی سماعت میں عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اٹارنی جنرل اور چاروں صوبائی ایڈووکیٹ جنرلزکو ہدایت کی ہے کہ شہریوںکی شکایات کے حوالے سے ٹھوس اور عملی اقدات کرتے ہوئے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹس مرتب کی جائیں جبکہ جامع پیش رفت رپورٹ 12فروری تک عدالت میں پیش کی جائے۔ جسٹس جواد نے ریمارکس دیئے کہ اگر ہم نے بطور زندہ قوم دنیا میں رہنا ہے تو ہمیں اس پولیس اور تھانہ کلچر کو بدلنا ہوگا، آئین کے آرٹیکل 190کے تحت ملک بھر کے تمام ادارے عدالت کی معاونت اور اس کے احکامات پر عملدرآمد کے پابند ہیں، بڑے سے بڑے جرم پر بھی70 سال میں کسی اعلیٰ پولیس افسرکے خلاف نہ کوئی ڈسپلنری ایکشن ہوا نہ سزا، ٹرانسفر اینڈ پوسٹنگ کوئی سزا نہیں، قربانی کا بکرا بنا کر چھوٹے پولیس اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی ہوتی رہتی ہے، اگر ایک تھانے دار کو بار بار جعلسازی اور غفلت پر نوکری سے فارغ کیا جاتا تو آج حالات یہ نہ ہوتے، کسی پولیس افسر کو جرات نہ ہوتی کہ وہ کوئی غلط کام کرے ،کیا خوف خدا صرف عام شہریوں کے لئے ہے؟ اگر پولیس آن لائن روز نامچہ تیار کرے جس تک ہر شہری کی رسائی ہو تو بہت سی قباحتیں دور ہو سکتی ہیں، لمحہ بہ لمحہ کا ریکارڈ مرتب ہوگا کسی شہری کو اپنے مقدمہ کے اندراج کے حوالے سے تھانہ جانے کی ضرورت نہیں مگر اس بات کا بھی امکان ہے وہ اس سسٹم کا بھی توڑ نکال لیں، پنجاب پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ نے پولیس کی ناقص تفتیش کے حوالہ سے آئی جی پنجاب کو 5 سو سے زائد شکایات بھجوائی ہیں لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ہے ہم سرکار سے ضرور پوچھیں گے اگرسب کام ٹھیک ہو رہا ہے تو پھر عدالتوں میں ججز کے چیمبرز میں پولیس کے خلاف روزانہ درجنوں شکایتی درخواستیںکیوں آرہی ہیں، پوری قوم ہی پولیس کے ظلم اور زیادتی کا رونا رو رہی ہے۔ پراسیکوٹر جنرل پنجاب نے رپورٹ پیش کی کہ پولیس کے نظام میں بنیادی تبدیلیوں کے حوالہ سے سفارشات تیار کرلی گئی ہیں اور اس حوالہ سے کچھ میٹنگز بھی ہوئی ہیں جس پر جسٹس جواد نے کہا کہ ہمیں میٹنگز کا نہ بتائیں یہ سب کاغذی کارروائیاں ہیں، اگر کسی چیز پر عملدرآمد ہوا ہے تو اس سے آگاہ کریں۔ عشرت رشید نامی خاتون نے اٹک کے وکیل کی شکایت کی۔ عدالت نے کہا کہ جن ارکان کو منتخب کیا ہے ان ایم پی ایز، ایم این ایز، وزراء اور وزیر اعلیٰ کے پاس جاکر انہیں بتائیں کہ آپ کے ساتھ یہ ظلم ہو رہا ہے، ان سے پوچھیں کہ آپ کی پولیس کیا کر رہی ہے، کیا آپ چاہتی ہیں پنجاب کے 850 تھانے بند کر دیئے جائیں اورہم وہاں جاکر تھانیدار لگ جائیں، ہم سرکار سے ضرور پوچھیں گے مجھے چیمبر میں روزانہ بیس، پچیس اسی نوعیت کے خطوط آتے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم ہی ان کے دکھوں کا مداوا کر سکتے ہیں۔ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ اس حوالے سے شکایات سیل، لیگل ونگ اورکمیٹیاں قائم ہیں جسٹس جواد نے کہا کہ وہ غیرفعال ہوں گی وگرنہ یہ حالات نہ ہوتے، جسٹس جواد نے ان سے پوچھا کہ پولیس کا یہ کلچر کیسے تبدیل ہو گا؟ ہر روز ہمارے پاس لوگ آتے ہیں اور ان کا رونا روتے ہیں، پولیس بڑے بڑوں کو رلا دیتی ہے، کسی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، اگر حکومت پنجاب ہینڈزاپ کر دیتی ہے تو ہم جاکر تفتیش شروع کر دیتے ہیں، سرکار اپنا کام احسن طریقہ سے نہیں کر رہی ہے، اس عدالت میں تو ہم دو ججز ہیں اگر سپریم کورٹ کے سارے ججز بھی بیٹھ جائیں تو یہ درستگی اور اصلاح ممکن نہیں ہے کیونکہ ہمارے پاس ایسی فیکٹری نہیں ہے جس میں پسلیاں، ریڑھ کی ہڈیاں، ضمیر یا درد دل تیار ہوتا ہو، آئین میں شہریوں کے بنیادی حقوق تو لکھے ہوئے ہیں لیکن عملاً کچھ اور ہی صورتحال ہے، ہمارے پاس نگرانی کا کوئی آپشن نہیں ہے، یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان؟