مکرمی! ملک کا بچہ بچہ اس ملک کا اس بات پر حیران و پریشان ہے اگر ساری انسانیت کا دکھ درد کھمبی کی طرح اگنے والی سول سوسائٹی، مذہبی طبقے، دینی طبقے اور دینی سیکولر طبقے کی بنائی گئی این جی اوز، کا کام ہی فلاح انسانیت ہے تو پھر لڑائی جھگڑے ، فسادات، فرقہ ورانہ دہشت گردی قتل و غارت لوٹ، کھسوٹ، کرپشن کا بازار کیوں گرم ہے؟ معیشت کیوں آخری سسکیاں لے رہی ہے؟ غربت کی لکیر کی اونچ نیچ ’’سٹیٹس کو‘‘ وی، آئی پی پروٹو کول، بلٹ پروف سکیورٹی کی کس کو ضرورت ہے؟ کیوں سب کو اپنی اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ مہنگائی کے سمندر میں عوام کیوں ڈوبے جا رہے ہیں؟ فلاح انسانیت کے نام پر قومی اور بین الاقوامی این جی جی اوز، تحفظ حقوق نسواں بل، انسداد دہشت کی عدالتوں کے ہوتے ہوئے دن دیہاڑے، معصوم بچے اور بچیوں سے لے کر بزرگ خواتین تک کی آبروریزی کر کے ان کو کس کے نام پر قربان کر دیا جاتا ہے۔ کیا ان نام نہاد جی اوز کو تمام این جی اوز ایجنٹ اور مخبری کا کردار ادا کر رہے ہیں، عوام کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے شرم تک نہیں آتی۔ آج ملک جس دوراہے پر ہے‘ کیااس کی ذمہ دار یہی قومی اور بین الاقوامی این جی اوز نہیں ہی ہیں۔ (ڈاکٹر محمد ارشد فانی 148 جی علی ویو گارڈن جی/ آر لاہور کینٹ )
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024