حضرت سیدنا غوث الاعظم
رانا دلشاد قادری
واہ واہ میراں شا شہاندا سید دوہیں جہانی
غوث الاعظم پیر پیراں دا ہے محبوب سبحانی
حضرت عبد القادر جیلانی ؒ کی کنیت ابو محمد ہے۔ امور دین میں کارہائے نمایاں کے باعث آپ کو محی الدین، محبوب سبحانی، غوث الاعظم، قائد الفقراء اور سلطان اولیاء کے القاب اور مراتب عالیہ عطا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد حضرت ابو صالح سے گھر پر حاصل کی۔ ابھی آپ نے ہوش بھی نہ سنبھالا تھا کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔حضرت سید عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں کہ قصبہ جیلان میں سن صغر ہی تھا کہ عرفہ کے روز دیہات کی طرف نکلا اور کھیتی کے بیل کے پیچھے ہو لیا جہاں مجھے آواز سنائی دی ’’اے عبدالقادر! آپ اس لئے پیدا تو نہیں ہوئے ‘‘ اس پر آپ گھبرا کر گھر لوٹ آئے اور گھر کی چھت سے عرفات کے میدان میں کھڑے لوگوں کا منظر دیکھا۔ آپ اپنی والدہ ماجدہ کے پاس آئے اور ان سے عرض کیا کہ آپ مجھے خدا کی راہ میں وقف کر دیں اور مجھے علم حاصل کرنے کیلئے بغداد جانے کی اجازت دیں۔ والدہ آپ کی زبانی سارا واقعہ سن کر آبدیدہ ہوگئیں اور خدا کا شکر ادا کیا۔ 80 دینار جو والد ماجد نے چھوڑے تھے والدہ سے آپ نے ان میں سے 40 دینار لے لئے اور 40 اپنے بھائی کے لئے چھوڑ دیئے۔ والدہ صاحبہ نے آپ کو چالیس دینار گدڑی میں سی کر سفر کیلئے روانہ کیا اور تا کید کی خواہ کسی حال میں بھی ہو ہمیشہ سچ بولنا۔ حضرت عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں، میں روانہ ہوا اور والدہ مجھے دروازہ تک رخصت کرنے آئیں اور فرمایا اے بیٹا لو جائو اللہ کے لئے میں تمہیں اپنے سے جدا کرتی ہوں اور اب مجھے تمہارا منہ قیامت کو ہی دیکھنا نصیب ہوگا۔
الشیخ عبد القادر جیلانی نے اس کڑی آزمائش میں بھی حصول تعلیم کے لئے روانہ ہوتے وقت صداقت و صدق کا ثبوت دیا۔ دوران سفر جب ڈاکوؤں نے آپ کو لوٹنے کی کوشش کی تو اس دوران آپ کے سچ بول دینے اور والدہ کی جانب سے دی گئی ر قم کی نشاندہی پر 60 ڈاکوئوں نے آپ کے ہاتھ پر توبہ کر کے قبول اسلام کیا۔ عدل فاروقی کی مثال بنے رہے کہ جب تک اسلامی سلطنت کا ہر فرد کھانا نہیں کھاتا عمرؓ کچھ نہیں کھائے گا۔ آپ نڈھال ہو جاتے ہیں مگر اپنے فیصلوں میں استقامت نہیں چھوڑتے۔یہ بطل عظیم فاقوں کی صوبتیں اور گلی سڑی سبزیاں کھا کر وہ مدارج طے کرتا رہا جس کی نمو کے ساتھ شیطانی صفات غائب ہو جائیں۔ غنائے عثمانی کا ثبوت اس وقت دیا جب آپ کو خبر سنائی گئی کہ آپ کے 70 جہاز ڈوب گئے تو آپ نے کہا الحمد اللہ! جب سلامت پہنچنے کی خبر سنائی گئی تو آپ نے کہا الحمد اللہ! پوچھنے والوں سے توجیح اس طرح فرمائی کہ ڈوبنے اور تیرنے سے مجھے کوئی سروکار نہیں۔ مجھے یہ دیکھنا تھا کہ میرا دل تو اثر پذیر نہیں ہوا۔ شجاعت حیدری کا وہ پیکر اطراف عالم میں چھائے ہوئے دشمنوں سے تن تنہا نبرد آزما رہا ایک طرف حاکمان وقت تھے جو شخصی اقتدار کے لالچ میں انسانوں کے بے دریغ قتل کر رہے تھے۔ دوسری طرف مذہب کے نام پر نام نہاد مذہبی تنظیمیں تھیں جن کے ذمہ اہل حق کو تہ وتیغ کرانے کے لئے جواز مہیا کرنا تھا۔ اس عظیم انسان نے وہ روحانی اقدار جو مخصوص طبقوں تک محدود ہو گئی تھیں ہر کس و ناکس کے لئے عام کر دیں اور انہیں اس عروج تک پہنچایا جہاں پہنچنے تک انسانی ذہن پر قدغن لگا دی گئی تھی۔ حضور غوث الاعظمؒ نے ٹھونسے ہوئے نظام کی جگہ خانقائی نظام قائم کیا جس میں پاکیزگی و نفس، عدل شریعت انسان نوازی اور حالات سے حکمت عملی سے نمٹنے کے لئے سہل طریق کار رائج کیا گیا اس مکتب میں داخل ہونے والے کی ایسی تربیت کرنا تھی۔ جس سے وہ با عزت طور پر اپنے آپ کو معاشرے کا ایک فعال اور اعلیٰ فرد ثابت کر سکے۔ ہر معرکہ حق و باطل میں فتح ان کا نصیب رہی اور کشف و کرامت کا سلسلہ تو ایک وسیع ترین اور علیحدہ باب ہے۔
حضور غوث الاعظم الشیخ عبد القادر جیلانیؒ کے سالانہ سہ روز عرس مبارک کے موقع پر ملک بھر میں خانقاہی اور گھریلو سطح پر تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ آستان فضل 49۔ ٹیل سرگودھا میں بھی جناب قادری بڑے تزک و احتشام سے عرس مبارک کی تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں۔ جس بستی میں عرس مبارک کی تقریبات منعقد ہوتی ہیں وہاں عالیشان عظیم دروازہ، نادر زمانہ مسجد، عجوبہ روز گار گیا رہ دری، القادر فری ہسپتال، القادری ماڈل ہائی سکول، القادر طبیہ کالج، سید محمد فضل شاہ ہال ورلڈ موونگ گلوب جیسے رفاہی مراکز قائم ہیں۔ حضرت محی الدین عبد القادر جیلانی کے سالانہ عرس مبارک کی 31 جنوری سے 2 فروری تک ہونے والی تقریبات میں سیرت نبوی سیمینار، محفل سماع نعت خوانی اور قرآن کانفرنس کی نشست کا اہتمام ہو گا جس میںحضور غوث الاعظمؒ کے دنیا میں موجود عقیدت مند وار ادتمند بالواسطہ اور بلاواسطہ شرکت کر یں گے۔