جمعۃ المبارک‘ 9؍ ربیع الثانی‘ 1436ھ‘ 30 ؍ جنوری 2015ء
وزیر اعظم نے شہباز، نثار اور اسحاق ڈار پر مشتمل کچن کیبنٹ بحال کر دی
اب اس کچن کیبنٹ کی بحالی پر جو 6 رکنی سے سمٹ کر اب سہ حرفی ہو گئی ہے‘ہم قوم کو مبارکباد دیں، وزیر اعظم کو دیں یا شہباز شریف، اسحاق ڈار اور چودھری نثار کو ۔ اگر نثارکو نکال دیا جائے تو یہ کچن کی بجائے خالصتاً خاندانی کیبنٹ بن جاتی ہے۔ جس میں موجود چہرے دیکھ کر…؎
پھولوں میں چاند میں تاروں میں
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تم ہی تم ہو
والا معاملہ نظر آتا ہے۔ یہ ہمارے وزیر اعظم کا حسن نظر ہے یا ان تینوں شخصیات کا کمال کہ ہر کام کے لئے کام کاروبار کے لئے ہر عہدے کے لئے ان سے میاں صاحب کی نظر ہٹتی ہی نہیں۔
ان حالات کو دیکھ کر مخالفین شور نہیں مچائیں گے تو راگ درباری الاپیں گے؟ جو پہلے ہی تمام وزراء کے ہونٹوں پر ہے۔ عوام پریشان ہیں کہ کیسے حکمران ہیں جو سارے اختیارات، محکمے اور وزارتیں اپنے ہاتھ میں رکھنے پر بضد ہیں۔ اگر انہیں کسی اور پر اعتماد نہیں تو پھر یہ باقی وزیر مشیر کس کام کے۔ جب ہر مسئلہ کا حل شہباز، نثار اور اسحاق کے ہاتھ میں ہے تو پھر ان کے علاوہ جو خزانے پر بوجھ بنے وزیر مشیر ہیں انہیں کیوں پلو سے باندھا ہوا ہے۔ انہیں فارغ کر دیجئیے اور اس ’’ سہ رکنی‘‘ کابینہ سے کام چلائیے کم از کم اس طرح خزانے پر تو بوجھ کم ہو گا۔ عوام نے کون سا احتجاج کرنا ہے۔ اپوزیشن کچھ دیر منہ بسورے گی پھر وہی ’’موجاں ای موجاں‘‘ اگر بالفرض محال مان لیا جائے کہ عوام اور اپوزیشن آسمان پر اٹھا لیں گے تو کون سا حکمرانوں نے ان کے واویلے پر اپنی اصلاح کرلینی ہے۔ ان کا تو مطمع نظر ہی تمام اختیارات اپنی مٹھی میں رکھنا ہے‘ اپنوں کو نوازنا ہے۔ انجام چاہے کچھ بھی ہو۔
٭…٭…٭…٭
پاکستان کی 42 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔
اب ذرا کوئی اس کی خبر دینے والے سے پوچھے کہ جناب کیا باقی 58 فیصد لوگ رج کے پیٹ بھر کے کھانا کھاتے ہیں۔ اگر حقیقت حال بیان کی گئی تو اس پر خود بھی شرمسار ہو مجھ کو بھی شرمسار کر نے والی بات ہوگی۔ جس ملک کے 60 فیصد سے زیادہ لوگ خط غربت سے نیچے کی زندگی بسر کر رہے ہوں وہاں صرف مراعات یافتہ طبقہ یا اشرافیہ ہی پیٹ بھر کے کھانا کھاتے ہیں بلکہ یوں سمجھ لیں جگالی کرتے ہیں سارا دن ادھر ادھر یہاں وہاں آتے جاتے۔ ہزاروں روپے ایک وقت کے کھانے پر اڑاتے ہیں۔ صرف یہی اشرف المخلوقات ہیں۔ جنہیں پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہوتا ہے۔ بلکہ یہ کھانا من و سلویٰ بن کر ان کے دستر خوانوں پر خود بخود آتا ہے۔ اور باقی رہی سہی مخلوق خدا صرف زندہ رہنے کے لئے تھوڑا بہت کھا مر لیتی ہے۔ جسے وہ کھانا پینا کہتے ہیں۔
جس ملک کو سونے کی چڑیا اناج کا گھر کہا جاتا ہے جہاں ہر طرح کی خوراک، اجناس اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔ وہاں بھوک اور افلاس کا برہنہ رقص ماروائے عقل ہے افریقی ممالک میں قحط اناج کی وجہ سمجھ میں آجاتی ہے۔ مگر اپنے پیارے وطن پاکستان میں جہاں قحط الرجال پہلے سے ہے اب یہ قحط اناج عقلوں سے بالاتر ہے۔ کون سی بلائیں ہیں جو گندم، چاول، گنا، دالیں، سبزیاں کھیتوں میں اگتے ہی ہڑپ کر جاتی ہیں۔ انہیں براہ راست عوام تک پہنچنے ہی نہیں دیتیں۔ حالانکہ کھیتوں اور کھلیانوں میں چار سو ہریالی ہی ہریالی ہے۔ ملیں، کارخانے دھڑا دھڑ چل رہے ہیں۔ پھر بھی عوام غذائی قلت کا شکار ہیں۔ کیا اسے عذاب الٰہی سمجھا جائے یا ملک میں لوٹ مار کا شاخسانہ، عذاب الٰہی ٹالنے کے لئے توبہ استغفار کا دروازہ کھلا ہے۔ اور ان لٹیروں سے نجات کے لئے کوئی تو آئے یوم حساب بن کر اور اس غذائی بحران کا خاتمہ کرے۔ عوام تو کب سے منتظر ہیں۔
٭…٭…٭…٭
حزب اللہ کا میزائل حملہ 4 اسرائیلی فوجی ہلاک
لیجئے بیروت کی تباہی یا لبنان پر اسرائیلی بمباری کے حوالے سے یہ خبر پیشگوئی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ابھی مسلم امہ خدا خدا کر کے غزہ کی تباہی کے ماتم سے فارغ ہوئی تھی کہ اب یہ نیا سیاپا ان کا منتظر ہے۔ کیونکہ اس بار حملہ لبنان کی طرف سے ہوا ہے۔ اس لئے لبنان کی شامت آنا یقینی ہے۔ بشرطیکہ امریکہ یا دیگر ممالک اسرائیل کو طیش میں آنے کے باوجود، برہم ہونے کے باوجود نرم رکھنے پر مجبور نہ کریں۔
لبنان اسرائیل تنازعہ بھی اپنے سابقہ پس منظر میں خاصی مار دھاڑ والی انگریزی فلموں جیسا ہے۔ بیروت سمیت فلسطینی مہاجروں کی اکثریت والے کئی شہر اور مہاجر کیمپ صابرہ اور شتیلا برسوں پہلے مقتل کا منظر پیش کرتے رہے۔ اور آج بھی وہاں اس نئے حملے کے بعد پھر خوف کے سائے لہرا رہے ہوں گے۔ ابھی تو خدا خدا کر کے لبنان کی حالت سنبھلی تھی کہ حزب اللہ نے نیا گل کھلایا اور رات گئے اس کے درجنوں حامی سڑکوں پر رقص کرتے نظر آئے۔ ہماری تو دعا ہے کہ حزب اللہ والے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کریں۔ کیونکہ جواب میں اگر اسرائیلی چاند ماری شروع ہو گئی تو وہ اپنے چار فوجیوں کے جواب میں بے گناہ 4 سو سے زیادہ مسلمانوں کی جانیں لئے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے اور پھر ہماری حالت…؎
گدا سمجھ کے وہ چپ تھا میری جوشامت آئی
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئے
والی ہو گی کیونکہ غزہ کی طرح یہاں بھی باقی سارے مسلمان ممالک زبانی احتجاج، عوامی مظاہروں اور بعد میں عالمی اداروں سے امداد کے لئے خیراتی رقوم بھجوانے کے سوا اور کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہونگے۔ ویسے بھی عراق اور شام میں اس وقت ایران داعش کیخلاف ان ممالک کی جنگی امداد میں مصروف ہے۔ کیا وہ اپنے فطری حلیف حزب اللہ کو اس مصیبت سے بچانے کی کوئی راہ نکالے گا۔