پارلیمانی کمشن نے مسلم لیگ (ن) کے بائیکاٹ کے باوجود نئے صوبے کے حوالے سے سفارشات تیار کر لی ہیں جن کے مطابق نئے صوبے کا نام ”بہاولپور جنوبی پنجاب“ ہو گا۔ اس میں بہاولپور، ڈی جی خان، ملتان کے تین ڈویژن، بھکر اور میانوالی شامل ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ صرف پنجاب ہی کی تقسیم کیوں؟ یہ معاملہ صرف ”بہاولپور جنوبی پنجاب“ کے صوبے تک محدود نہیں رہے گا۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کا بیان شائع ہوا کہ ہزارہ صوبہ بھی جلد بنائیں گے۔وزیر قانون پنجاب رانا ثنااللہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا بہاولپور جنوبی پنجاب صوبے کی تشکیل کا شوشہ محض الیکشن سٹنٹ ہے جس کی ن لیگ کسی طور پر بھی حمایت اور اجازت نہیں دے گی۔سرائیکی صوبے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ پھر سوات اور چترال کا صوبہ بھی بن سکتا ہے۔ اگر ایک صوبے کی تقسیم سے حالات بہتر ہوئے تو دوسرے صوبوں والے بھی مطالبہ کریں گے کہ ہمارے صوبوں کے بھی مزید صوبے بنائے جائیں۔
پچھلے 65برسوں میں پنجاب وہ نہیں رہا۔ آمریت کے دور میں مرکز کو مضبوط کرتے کرتے ہم نے پاکستان کو کمزور کیا۔ عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے اس قسم کے ایشو چھوڑ دیے جاتے ہیں جو بنیادی مسائل ہیں، ان سے توجہ ہٹا دی جاتی ہے۔ کیا بیروزگاری، تعلیم، مہنگائی، بجلی، گیس وغیرہ کے مسائل حل کر لئے ہیں۔ ان مسائل سے نظر ہٹانے کےلئے یہ ایک سازش ہے۔ یہ سازشیں اس وقت سر اٹھاتی ہیں جب الیکشن قریب ہوں۔ آپ کیوں صوبے بنانا چاہتے ہیں۔ بجٹ پر نظر ڈالیں، تعلیمی بجٹ بہت کم ہے، اللے تللوں پر زیادہ خرچ ہو رہا ہے۔ لوگ پہلے ہی بے چین ہیں۔ جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر منصورہ میں بہاولپور صوبہ بحالی کور کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں گورنر پنجاب نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں جماعت اسلامی کے ڈاکٹر وسیم اختر نے ہزارہ صوبہ بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔ ڈاکٹر صاحب کور کمیٹی کے سیکرٹری ہیں۔ جماعت اسلامی پنجاب کے جنرل سیکرٹری نذیر احمد جنجوعہ نے ایک مرتبہ مجھے کہا تھا کہ پاکستان کے چاروں صوبوں کو انتظامی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہئے۔ اس حوالے سے جنرل ضیاالحق کے دور میں کام شروع ہوا تھا۔ انصاری کمشن بنا مگر ضیاالحق کا جہاز کریش ہونے کے باعث دنیا سے رخصت ہو جانے کی وجہ سے کام لٹک گیا۔ اس وقت بھی یہ تجویز چل رہی تھی کہ پاکستان کے انتظامی یونٹس میں اضافہ کیا جائے۔ جب ہم صوبوں کی تقسیم کی بات کرتے ہیں تو دیکھنا چاہئے کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے اس طرح کے ایشوز بنائے جاتے ہیں۔ اقتدار کے استحکام کے لئے ون یونٹ بنایا گیا۔ اقتدار کے لئے ون یونٹ کو توڑا گیا۔ نتیجہ کیا نکلا۔ عوام میں محرومی پیدا ہوئی۔ احساس محرومی بڑھتا گیا۔ آدھا بازو کٹا بیٹھے ہیں۔ اقتدار کو دوام دینے کےلئے دوسرے صوبوں کے وسائل انپے علاقے میں استعمال کرتے ہیں۔ جب کبھی حمایت لینی ہو تو صوبہ سرحد کا نام بدل کر خیبر پختونخواہ رکھ دیتے ہیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم قومی مفاد کے لئے کوئی کام نہیں کرتے۔ اگر لسانی بنیادوں پر صوبے بنانا شروع کر دیئے تو اس کا کوئی اختتام نہیں ہو گا۔ سیاست دان اپنے مفاد کےلئے تو اکھٹے ہو جاتے ہیں لیکن قومی مفاد کےلئے اکھٹے نہیں ہوتے۔ صرف صوبوں کی تقسیم کا مسئلہ نہیں۔ کراچی میں امن و امان کی صورتحال کا مسئلہ ہے۔ یہاں مہنگائی، بیروزگاری کا ایشو ہے۔ یہاں بیرونی مداخلت ہے۔ آج پاکستان کی سلامتی متاثر ہو رہی ہے۔
معروف دانشور، ادیب اور کالم نگار شفقت تنویر مرزا (مرحوم) کہا کرتے تھے اس وقت پنجاب کی تقسیم کا مسئلہ کیوں اٹھایا گیا۔ اس کا مقصد کیا ہے؟ یہ بدنیتی کی بنا پر مسئلہ اٹھایا گیا ہے۔ کیا بات ہے کہ ہم ہر بار اکثریت سے ڈرتے ہیں۔ آپ کرپشن کو صوبوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ پنجاب کا جغرافیہ ہے، اگر اس کا جغرافیہ بدل جائے اور اس کے ٹکڑے ہو جائیں تو پھر کونسا پنجاب اور کون پنجابی؟ ہم اس اکائی کو صوفی شاعروں کی سانجھ سے مضبوط کر سکتے ہیں۔سکالر اور رائٹر رانا احتشام ربانی کا موقف ہے کہ اگر انسان کو خوراک، صاف پانی، انصاف بروقت مہیا ہو جائے، بچوں کو تعلیم اور بیماری کی صورت میں مناسب علاج اور برابری کا احساس ہو تو مزید صوبوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024