ملکی مفاد دیکھنا بہت ضروری ہے‘ حکومت اپنے مفاد میں گریڈ 21 میں تقرریاں نہیں کر سکتی : چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + مانیٹرنگ ڈیسک + ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے اعلیٰ بیوروکریٹس کی ترقیوں کے مقدمہ میں فیصلہ محفوظ کر لیا ہے‘ ترقی پانے والے 53 افسروں سے کہا ہے کہ وہ اگر چاہیں تو سات روز میں اپنا موقف پیش کرسکتے ہیں۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ تجربہ کار اور اہل افسروں کی ٹیم ضرور بنائی جائے مگر یہ ٹیم وزیراعظم کیلئے نہیں بلکہ ملک و قوم کیلئے ہونی چاہئے۔ اعلیٰ بیوروکریٹس نے ملک چلانا ہوتا ہے۔ ترقی اہلیت اور قواعد کے تابع ہونی چاہئے۔ پسند ناپسند کی بنیاد پر دی جائیگی تو خرابیاں پیدا ہونگی۔ حکومت 5 سال کے لئے ہوتی ہے‘ ملکی مفاد دیکھنا ضروری ہے‘ حکومت اپنے مفاد میں گریڈ 21 میں تقرریاں نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری‘ جسٹس چودھری اعجاز اور جسٹس غلام ربانی پر مشتمل تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے اپنے دلائل میں موقف اپنایا کہ گریڈ 20 میں ترقی کیلئے سفارش سینٹرل سلیکشن بورڈ کرتا ہے تاہم اس سے اوپر ترقیاں وزیراعظم کی صوابدید ہے۔ انہوں نے ہی حتمی فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ گریڈ 22 میں ترقی کیلئے سنیارٹی کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔ پروموشن اور ٹرانسفر رولز میں سنیارٹی کا کہیں ذکر نہیں۔ جسٹس چودھری اعجاز نے کہا کہ 1973ءکے رولز آف بزنس موجود تھے‘ ان میں ترمیم کرلی جائے مگر ترقی کیلئے رولز تو ہونے چاہئیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اتنے اعلیٰ سطح کے افسروں کا معاملہ ہے۔ یہ لوگ ملکی امور چلانے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی ترقیاں و تعیناتیاں پسند ناپسند پر تو نہیں ہوسکتیں۔ قواعد بنائے جانے چاہئیں اور ان پر عمل بھی ہونا چاہئے۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے کہا کہ کیا ترقی پانیوالے افسروں کو بھی نوٹس ہوئے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ہمیں صرف متاثرہ فریقین کو نوٹس کا حکم دیا گیا تھا۔ اب ترقی پانے والے افسروں کو بھی نوٹس کردینگے۔ عدالت نے کہا کہ اگرچہ مقدمہ کی کارروائی میڈیا میں بھرپور طور پر رپورٹ ہوئی ہے اور ترقی پانیوالے کسی افسر نے اپنا موقف عدالت میں پیش نہیں کیا تاہم اب بھی وہ موقف پیش کرنا چاہیں تو سات روز کے اندر عدالت کو موقف سے آگاہ کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے ریمارکس میں کہا کہ افسروں کی ترقی کے معاملے میں وزیر اعظم کو حاصل صوابدید کا یہ مطلب نہیں کہ میرٹ سے ہٹ کر کسی افسر کی ترقی کردی جائے۔ جس پر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو حکومتی مفاد میں نہیں بلکہ عوامی مفاد کا خیال رکھنا چاہئے۔ اس موقع پر متاثرہ افسر کے وکیل اکرام چودھری کا کہنا تھا کہ مہذب معاشرے میں قانون بادشاہ ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے بادشاہ قانون ہے جبکہ وزیراعظم کے فیصلے سے بھی یہی تاثر ملتا ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے فیصلے سے کسی شخص کا استحقاق مجروح نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی قانون و آئین کی حکمرانی متاثر ہونی چاہئے۔ جن افسروں کی ترقی نہیں ہوئی اس کی وجہ بتائی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم رولز آف بزنس کے پابند ہیں تمام معاملات میں انصاف ہونا چاہئے‘ ان عہدوں پر ان لوگوں کو تعینات کیا جانا چاہئے جو حکومت کے حق میں ہوں‘ ملک کے مفاد میں لوگوں کو منتخب کیا جائے‘ اگر اس طرح حکومت کے مفاد میں لوگوں کو تعینات کیا جائے گا تو یہ لوگ حکومت کے ساتھ ہی چلے جائیں گے۔ بیوروکریٹس ریاستی ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں‘ ان لوگوں نے ملک کو چلانا ہوتا ہے‘ چیف جسٹس نے کہا کہ ان ترقی پانے والے افراد میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کو پانچ ماہ قبل بیسویں گریڈ سے ترقی دے کر 21ویں گریڈ میں لایا گیا اور پھر انہیں بائیسویں گریڈ میں ترقی دی گئی‘ اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت گریڈ بائیس میں ترقی کے لئے روایات پر کام کر رہی ہے‘ کوئی باقاعدہ رولز نہیں ہیں۔ دریں اثناءچیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ عدالتی نظام میں انقلاب کے لئے وکلا تمام توانائیاں بروئے کار لائیں‘ شکایات کے ازالے کے لئے وکلا زیادہ توجہ سے مقدمات کی پیروی کریں‘ انصاف کے خواب کوحقیقت کا رنگ دینے کے لئے وکلا دلچسپی لیں۔