آرہی ہے قریب تر خالد..... وقت کے ساتھ صوتِ جرس
کریں کس سے پتہ کہ باقی ہیں...... کتنے دن‘ کتنے ماہ‘ کتنے برس
انکی ایک آخری نظم ”آزاد صدی دو روزہ عالمی سیمینار“ کے موقع پر شائع ہونیوالے تعارفی کتابچے میں ”کھلا خط بندہ آزاد کے نام“ سے شائع ہوئی ہے جبکہ وہ بیماری کے سبب کانفرنس میں شرکت نہ کرسکے تھے۔ انکے دیگر قابل ذکر مجموعوں میں فارقلیط‘ منحمنا‘ ماذ ماذ‘ طاب طاب‘ عہد نامہ‘ حدیث خواب‘ ورق ناخواندہ‘ چراغِ لالہ‘ غزل الغزلات‘ کان شیشہ‘ برگِ خزاں‘ کلک موج‘ سراب ساحل‘ کف دریا اور زنجیر دم آہو قابل ذکر ہیں۔ انہیں قرآن پاک کا منظوم ترجمہ کرنے کا اعزاز بھی حاصل رہا جبکہ انہوں نے حضرت علیؓ کی شان میں 313 اشعار پر مشتمل منقبت بھی لکھی۔ انکا تعلیمی کیرئیر بہت شاندار تھا اور انہوں نے 1944ءمیں میٹرک کے امتحان میں پنجاب بھر میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ انہیں حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کے ہاتھوں بہت سے گولڈ میڈل لینے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ 1946ءمیں گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے حبیبہ ہال میں قائداعظم محمد علی جناحؒ تشریف لائے اور جب بار بار یکے بعد دیگرے سٹیج پر انہیں چھ مرتبہ گولڈ میڈلز لینے کیلئے بلایا گیا تو حضرت قائداعظمؒ انہیں دیکھ کر مسکرانے لگے اور فرمایا ”نوجوان کچھ میڈلز دوسروں کیلئے بھی چھوڑ دو“۔ بعدازاں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس‘ نقوش ایوارڈ‘ آدم جی ادبی ایوارڈ‘ گلڈ ایوارڈ بھی ملے۔ چند روز قبل وہ گھر میں اچانک گر پڑے تھے اور انکی ریڑھ کی ہڈی بھی میں چوٹ آئی تھی۔ وہ تقریباً دس بارہ سال سے گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے تھے اور کسی ادبی تقریب یا جلسہ میں بھی شرکت نہیں کرتے تھے۔ وہ آج کل کے ادیبوں اور شعراءکے روئیے سے شاکی تھے جو انکے مقام و مرتبہ سے ناواقف تھے۔ کراچی کے معروف شاعر اور ادیب انور افسر شعور نے انکے بارے میں ”اردو ادب کے والد‘ عبدالعزیز خالد“ کا نعرہ لگایا تھا جو بہت مشہور ہوا تھا۔ انکے تعلیمی کیرئیر کو سنوارنے میں قابل فخر اساتذہ پروفیسر علیم الدین سالک‘ پروفیسر حمید اللہ خاں‘ ڈاکٹر برہان احمد فاروقی اور پروفیسر رفیق خاور کا بھی ہاتھ تھا۔ معروف انشائیہ نگار اور دانشور ڈاکٹر وزیر آغا نے عبدالعزیز خالد کی وفات پر اظہارِ غم کرتے ہوئے کہا کہ عبدالعزیز خالد کی رحلت نے مجھے دکھی کردیا ہے۔ وہ درویش صفت انسان ہونے کے علاوہ ایک جید عالم اور عالمی سطح کے ایک اہم تخلیق کار بھی تھے۔ عربی زبان اور ادب سے انہیں گہرا لگاﺅ تھا۔ دوسری زبانوں پر بھی انہیں عبور حاصل تھا۔ جس معاشرہ میں میں انہوں نے اپنی تخلیقی کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہ ابھی انکی تخلیقات کے تناظر سے پوری طرح آگاہ نہیں تھا اسی لئے وہ شاعری کے میدان میں ہردلعزیزی کے مقام کو چھو نہ سکے لیکن انکے کلام میں ایک بڑی تعداد ایسے اشعار کی بھی تھی جنہیں اگر الگ طور سے شائع کیا جاتا تو انکے ہاں بڑی شاعری کے شواہد ایک عام قاری کو بھی نظر آجاتے۔ میں نے انہیں کئی بار کہا کہ وہ اپنے لطیف اشعار کا ایک الگ انتخاب پیش کریں اور پھر دیکھیں کہ وہ کس مقام پر ہیں مگر وہ شعر صرف اس لئے کہتے تھے کہ اپنے اعماق کے تخلیقی سلسلوں سے ہم آہنگ رہ سکیں۔ شہرت کا حصول انکا مطمع نظر ہرگز نہیں تھا مگر اب اس جہان سے رخصت ہوچکے ہیں۔ ہمارے علمی اور ادبی اداروں کا یہ فرض ہے کہ وہ نہ صرف انکے وسیع علمی تناظر کے حوالے سے تحقیقی کام انجام دیں بلکہ انکے لطیف‘ سادہ اور دل کو چھو لینے والے اشعار کے انتخاب بھی شائع کریں۔ عبدالعزیز خالد جیسے بڑے انسان اور تخلیق کار کو یاد رکھنے کی یہی ایک احسن صورت ہوسکتی ہے۔ معروف دانشور اور نقاد ڈاکٹر انور سدید نے عبدالعزیز خالد کی وفات کو ایک بہت بڑا ادبی سانحہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام سے انہیں عشق تھا‘ انہوں نے نظموں کے علاوہ قرآنی رباعیات بھی لکھیں۔ وہ سادہ مزاج اور انکسار پسند تھے۔ وہ بیشتر اوقات پیدل چلتے جبکہ کار انکے ساتھ رواں ہوتی۔ بطور کمشنر ریٹائر ہوئے۔ انکی دیانتداری کی مثال نہیں دی جاسکتی۔ معروف ادیب محمد بدر منیر نے کہا کہ عبدالعزیز خالد کی کمی کو تادیر محسوس کیا جائیگا۔ ایسے سرکردہ شاعر کی موت معمولی سانحہ نہیں۔ معروف دانشور اور صدر شعبہ اردو اورئینٹل کالج ڈاکٹر تحسین فراقی نے کہا کہ عبدالعزیز خالد کی موت اردو ادب کیلئے بڑا سانحہ ہے۔ انکا لہجہ بہت منفرد تھا اور وہ عربی الفاظ و تراکیب کا استعمال انکی خصوصیت اور انفرادیت تھی۔ نعت گوئی میں انہیں ملکہ حاصل تھا۔ انہوں نے ”فارقلیط“ کے نام سے پہلی طویل نظم لکھی۔ انکی کمی ہمیشہ محسوس کی جائیگی۔ ادبی ماہنامے ”الحمرائ“ کے ایڈیٹر شاہد علی خان نے کہا کہ وہ عرصہ دراز سے ”الحمرائ“ کیلئے مسلسل لکھ رہے تھے۔ انکی پچاس سے زائد کتب میں سے بیشتر اسلامی موضوعات پر ہیں۔ شاہد علی خان نے بتایا کہ میری ان سے پرسوں فون پر بات ہوئی تھی۔ وہ اپنی ناسازی طبع کا بتا رہے تھے۔ انکے جنازے پر کسمپرسی کا عالم تھا اور کوئی قابل ذکر ادیب‘ شاعر نظر نہ آیا۔ اب عبدالعزیز خالد جیسا لکھنے والا بھلا کہاں پیدا ہوگا؟