اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے آج پنجابی فلموں کے سدابہار پنڈی وال ہیرو سلطان راہیؔ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ انہوں نے بڑھک لگائی ہے کہ ’’وکلاء تحریک سے نپٹ لوں گا‘‘۔ بدقسمتی یہ ہے کہ لوگ نعرے اور بڑھکیں لگاتے ہیں مگر جب ہاتھوں میں ہاتھ ڈلتے ہیں تو ’’بیے‘‘ کر جاتے ہیں۔ خلق خدا شیر ہے ڈکٹیٹر میمنہ۔
ایسے میں دیکھا گیا ہے بڑے بڑے طورم خان فرار کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ کسی بھی بڑھک‘ للکار لگاتے وقت ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ جناب آصف علی زرداری نے لڑنے کا جو وقت چنا ہے غیرمناسب ہے۔ افغانستان کے حامد کرزئی کے بیانات جو سامنے آ رہے ہیں اس سے محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا ہے۔
اپنے میدانوں اور پہاڑوں کی جنگ کو انہوں نے ہماری طرف دھکیل دیا ہے اور اب وہ ’’اصلی تے نسلی‘‘ طالبان کے ساتھ امن و آشتی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ افغانستان میں انڈیا کے 38 قونصل خانے جو مصنوعات تیار کر رہے ہیں اور جنہیں امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ یہ لوگ ہمارے سکول تباہ کر رہے ہیں‘ یہی مہاشے شیعہ سنی لڑائی کرانے کی کوشش کر رہے ہیں ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ طالبان جنہوں نے اسلامی ریاست کے قائم ہوتے ہی پورے افغانستان کو امن کا گہوارہ بنا دیا تھا ان کے دور میں پوست کا ایک پودا بھی کاشت نہیں ہوا تھا۔ سکول و کالج کھل گئے تھے‘ انصاف موجود تھا‘ عمران خان جیسا ماڈرن لیڈر آج بھی طالبان کی اس حکومت کی خوبیاں گنواتا ہے۔ قبائلی نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہاں انصاف سستا بغیر کوئی خرچ کئے مل جاتا ہے۔ امریکنوں اور یورپی دنیا کو علم ہے کہ اگر انصاف کی اس طرح فراہمی کو حمایت حاصل ہونا شروع ہوئی تو ان کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔
عمران خان نے ایک الگ شناخت بنا لی ہے اور وہ معاشرے کے اس طبقے کا لیڈر بن چکا ہے جو حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں۔ قبائلی علاقوں‘ وانا‘ وزیرستان‘ بلوچستان‘ سوات کی وہ ایسے بات کرتا ہے جیسے اس کے گھر کا مسئلہ ہو۔ عمران خان کو نظرانداز نہ حکومت کر سکتی ہے اور نہ میاں برادران۔ آنے والے بڑے ملاکھڑے میں اپوزیشن کو نئی صف بندی کرنا ہو گی۔ اے پی ڈی ایم میں نئی پارٹیاں شامل ہوں گی اور کچھ پارٹیاں نکلیں گی۔ اس مشکل وقت میں اے پی ڈی ایم کو فعال کرنا بہت ضروری ہے اس لئے کہ محمود خان اچکزئی‘ غالب بلوچ بلوچستان سے اور رسول بخش پلیجو‘ قادر مگسی سندھ سے پاکستان دوست قوتوں کی شکل میں فعال ہونگے۔ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ پیپلز پارٹی ’’اقتدار گروپ‘‘ نے اگر عوامی خواہشات کے برعکس امریکی خواہشات کی تابع فرمانی کی تو پاکستان شدید مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔
مارچ میں لگنے والے میدان کو خدارا آپس کی لڑائی کا فائنل دنگل نہ بنائیں۔ ہماری فوج بہت اچھی فوج ہے مگر اس میں خرابی یہ ہے کہ چند سال گزرتے ہی ان کی ہتھیلی میں اقتدار حاصل کرنے کی کھرک شروع ہو جاتی ہے اور ہماری قوم وہ قوم ہے جو سیاست دانوں کی پہلی غلطی پر نشان لگاتی ہے اور فوج پر مثبت کا نشان لگاتی ہے۔ اِس کی کنڈ میں خارج شروع ہو جاتی ہے کہ وردی والا آ بیٹھے۔
زرداری صاحب! سلطان راہیؔ نہ بنیں۔ انہیں سب سے پہلے طاقت اپنی پارٹی کے وزیراعظم کو منتقل کر دینی چاہئے۔ کیا وہ اس عورت سے سبق حاصل نہ کریں گے جو 26 جنوری کو ہندوستانی افواج سے سلامی لے رہی تھی… کیا وہ چاہتے ہیں کہ پھر کوئی طالع آزما آئے اور ہمارے لیڈران کو کان پکڑوا دے۔
خدارا! خدارا ایسا نہ ہونے دیں۔ ہمارے سسٹم اتنے کمزور پڑ گئے ہیں کہ ہم آرمی چیف سے اپیل ہی کر سکتے ہیں کہ وہ مارشل لاء نہ لگائے۔ ہمیں اسلم بیگ کو ہلال قائداعظم دینا چاہئے کہ انہوں نے مارشل لاء نہیں لگایا اور پیشگی ہلال قائداعظم جنرل کیانی کو کہ اگر وہ مارشل لاء نہ لگانے پر قائم رہے تو ان کا… ورنہ واپس!
سیاسی جماعتوں کی چپقلش اس حد تک نہ پہنچے جیسے 1977ء میں پہنچ گئی تھی اور لوگ فوج کو گالیاں دے رہے تھے کہ کہ اقتدار کیوں نہیں سنبھالتی۔ جناب آصف علی زرداری آپ سے گزارش ہے کہ اپنی تازہ بڑھک واپس لیں وگرنہ علی احمد کرد آپ کو چاروں شانے چت گرا دے گا۔
یہ اعتزاز احسن نہیں ہیں جو نیچے آ جائیں تو مزاحمت کار‘ چھاتی پر بیٹھ جائیں تو پی پی پی کا ورکر بن کر آپ کو معاف کر دے گا۔ وکلاء ثابت کر چکے ہیں کہ وہ مشرف جیسے صدر سے نبٹنا جانتے ہیں جو GHQ کا تناور درخت تھے۔ آپ تو جناب صدر نواب شاہ کے کھیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ یاد رکھیں اب وکلاء ایک دوسرے فیز میں داخل ہو چکے ہیں۔ اسلام آباد جہاں میدان لگنا ہے وہاں وکلاء کی قیادت نیازاللہ نیازی کے پاس ہے جو تحریک انصاف کے رکن ہیں۔ اس بار قافلے کربلا میں آئیں گے مگر حسینیت ہمیشہ کی طرح فتح یاب ہو گی۔
کیا زرداری صاحب اس فائنل دنگل سے بچ سکتیہیں ؟ میرا خیال ہے سترہویں ترمیم کا خاتمہ اگر ہو جائے تو جناب زرداری نہ صرف خود کو بلکہ اپنی پارٹی اور پورے سسٹم کو بچا سکتے ہیں ورنہ ایک اور رات آ جائے گی بغیر کسی سویرے کے ایک اور رات… جناب زرداری صاحب! اگر یہ رات آئی تو آپ کی وجہ سے آئے گی!
شب آمد صبح نہ آمد شب آمد …لیکن بسبب تو آمد
ایسے میں دیکھا گیا ہے بڑے بڑے طورم خان فرار کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ کسی بھی بڑھک‘ للکار لگاتے وقت ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ جناب آصف علی زرداری نے لڑنے کا جو وقت چنا ہے غیرمناسب ہے۔ افغانستان کے حامد کرزئی کے بیانات جو سامنے آ رہے ہیں اس سے محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا ہے۔
اپنے میدانوں اور پہاڑوں کی جنگ کو انہوں نے ہماری طرف دھکیل دیا ہے اور اب وہ ’’اصلی تے نسلی‘‘ طالبان کے ساتھ امن و آشتی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔ افغانستان میں انڈیا کے 38 قونصل خانے جو مصنوعات تیار کر رہے ہیں اور جنہیں امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ یہ لوگ ہمارے سکول تباہ کر رہے ہیں‘ یہی مہاشے شیعہ سنی لڑائی کرانے کی کوشش کر رہے ہیں ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ طالبان جنہوں نے اسلامی ریاست کے قائم ہوتے ہی پورے افغانستان کو امن کا گہوارہ بنا دیا تھا ان کے دور میں پوست کا ایک پودا بھی کاشت نہیں ہوا تھا۔ سکول و کالج کھل گئے تھے‘ انصاف موجود تھا‘ عمران خان جیسا ماڈرن لیڈر آج بھی طالبان کی اس حکومت کی خوبیاں گنواتا ہے۔ قبائلی نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہاں انصاف سستا بغیر کوئی خرچ کئے مل جاتا ہے۔ امریکنوں اور یورپی دنیا کو علم ہے کہ اگر انصاف کی اس طرح فراہمی کو حمایت حاصل ہونا شروع ہوئی تو ان کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔
عمران خان نے ایک الگ شناخت بنا لی ہے اور وہ معاشرے کے اس طبقے کا لیڈر بن چکا ہے جو حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں۔ قبائلی علاقوں‘ وانا‘ وزیرستان‘ بلوچستان‘ سوات کی وہ ایسے بات کرتا ہے جیسے اس کے گھر کا مسئلہ ہو۔ عمران خان کو نظرانداز نہ حکومت کر سکتی ہے اور نہ میاں برادران۔ آنے والے بڑے ملاکھڑے میں اپوزیشن کو نئی صف بندی کرنا ہو گی۔ اے پی ڈی ایم میں نئی پارٹیاں شامل ہوں گی اور کچھ پارٹیاں نکلیں گی۔ اس مشکل وقت میں اے پی ڈی ایم کو فعال کرنا بہت ضروری ہے اس لئے کہ محمود خان اچکزئی‘ غالب بلوچ بلوچستان سے اور رسول بخش پلیجو‘ قادر مگسی سندھ سے پاکستان دوست قوتوں کی شکل میں فعال ہونگے۔ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ پیپلز پارٹی ’’اقتدار گروپ‘‘ نے اگر عوامی خواہشات کے برعکس امریکی خواہشات کی تابع فرمانی کی تو پاکستان شدید مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔
مارچ میں لگنے والے میدان کو خدارا آپس کی لڑائی کا فائنل دنگل نہ بنائیں۔ ہماری فوج بہت اچھی فوج ہے مگر اس میں خرابی یہ ہے کہ چند سال گزرتے ہی ان کی ہتھیلی میں اقتدار حاصل کرنے کی کھرک شروع ہو جاتی ہے اور ہماری قوم وہ قوم ہے جو سیاست دانوں کی پہلی غلطی پر نشان لگاتی ہے اور فوج پر مثبت کا نشان لگاتی ہے۔ اِس کی کنڈ میں خارج شروع ہو جاتی ہے کہ وردی والا آ بیٹھے۔
زرداری صاحب! سلطان راہیؔ نہ بنیں۔ انہیں سب سے پہلے طاقت اپنی پارٹی کے وزیراعظم کو منتقل کر دینی چاہئے۔ کیا وہ اس عورت سے سبق حاصل نہ کریں گے جو 26 جنوری کو ہندوستانی افواج سے سلامی لے رہی تھی… کیا وہ چاہتے ہیں کہ پھر کوئی طالع آزما آئے اور ہمارے لیڈران کو کان پکڑوا دے۔
خدارا! خدارا ایسا نہ ہونے دیں۔ ہمارے سسٹم اتنے کمزور پڑ گئے ہیں کہ ہم آرمی چیف سے اپیل ہی کر سکتے ہیں کہ وہ مارشل لاء نہ لگائے۔ ہمیں اسلم بیگ کو ہلال قائداعظم دینا چاہئے کہ انہوں نے مارشل لاء نہیں لگایا اور پیشگی ہلال قائداعظم جنرل کیانی کو کہ اگر وہ مارشل لاء نہ لگانے پر قائم رہے تو ان کا… ورنہ واپس!
سیاسی جماعتوں کی چپقلش اس حد تک نہ پہنچے جیسے 1977ء میں پہنچ گئی تھی اور لوگ فوج کو گالیاں دے رہے تھے کہ کہ اقتدار کیوں نہیں سنبھالتی۔ جناب آصف علی زرداری آپ سے گزارش ہے کہ اپنی تازہ بڑھک واپس لیں وگرنہ علی احمد کرد آپ کو چاروں شانے چت گرا دے گا۔
یہ اعتزاز احسن نہیں ہیں جو نیچے آ جائیں تو مزاحمت کار‘ چھاتی پر بیٹھ جائیں تو پی پی پی کا ورکر بن کر آپ کو معاف کر دے گا۔ وکلاء ثابت کر چکے ہیں کہ وہ مشرف جیسے صدر سے نبٹنا جانتے ہیں جو GHQ کا تناور درخت تھے۔ آپ تو جناب صدر نواب شاہ کے کھیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ یاد رکھیں اب وکلاء ایک دوسرے فیز میں داخل ہو چکے ہیں۔ اسلام آباد جہاں میدان لگنا ہے وہاں وکلاء کی قیادت نیازاللہ نیازی کے پاس ہے جو تحریک انصاف کے رکن ہیں۔ اس بار قافلے کربلا میں آئیں گے مگر حسینیت ہمیشہ کی طرح فتح یاب ہو گی۔
کیا زرداری صاحب اس فائنل دنگل سے بچ سکتیہیں ؟ میرا خیال ہے سترہویں ترمیم کا خاتمہ اگر ہو جائے تو جناب زرداری نہ صرف خود کو بلکہ اپنی پارٹی اور پورے سسٹم کو بچا سکتے ہیں ورنہ ایک اور رات آ جائے گی بغیر کسی سویرے کے ایک اور رات… جناب زرداری صاحب! اگر یہ رات آئی تو آپ کی وجہ سے آئے گی!
شب آمد صبح نہ آمد شب آمد …لیکن بسبب تو آمد