افتخار گیلانی تین دہائیوں سے ہندوستان میں صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان کے کالم پاکستانی اخبارات میں بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ پچھلے ہی دنوں ان کے کالموں کا مجموعہ’’اکیسویں صدی کا بھارت اور مسلمان‘‘کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوا ہے۔ افتخار گیلانی کے نزدیک کسی کالم کے تین اجزاء اہم ہیں۔ پہلا تجسس، دوسرا حیرانی اور تیسرا معلومات۔ اگر ان میں سے کوئی ایک جزو بھی کم ہوگا تو کالم بے اثر ہوگا۔ تجسس ایسا ہونا چاہئے جو قاری کو آخر تک باندھ کر رکھے۔ پھر کالم کا موضوع، سمت اور تجزیہ اسے حیران کر دے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی معلومات میں بھی اضافہ ہونا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ افتخار گیلانی کے کالم ان کی بتائی گئی کسوٹی پر پورے اترتے ہی ہیں۔
ان دنوں پاکستان میں یہ سوال ہر جگہ زیر بحث ہے کہ ڈی چوک اسلام آباد میں کتنے بندے سرکار کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ مختلف زبانوں پر مختلف تعداد ہے۔ کچھ لوگ ناقابل یقین مبالغہ سے کام لے رہے ہیں۔ ادھر حکومتی حلقے سرے سے فائرنگ کی تردید کر رہے ہیں۔ کیا فائرنگ نہیں ہوئی؟ سچی بات تو یہ ہے کہ ریاست اور اس کی سیاست بڑی خونخوار ہوتی ہے۔ یہ اپنے نظم و ضبط اور انتظام میں انسانی جانوں کو بے معنی سمجھتی ہے۔ ’ریاست ہوگی ماں کے جیسی، اعتزاز احسن کا خواب اور اس کی ایک نظم کا مصرعہ ضرور ہے مگر یہ محض خواب ہی ہے۔ ریاست اپنے وجود کیلئے ہر انسانی قربانی روا سمجھتی ہے۔ سیاست بڑی ظالم شے ہے۔ شاعر نے یہی رونا رویا ہے:۔
بہت دنوں سے ہے یہ مشغلہ سیاست کا
کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں
ریاست اور اس کی سیاست ایک ہی رنگ ڈھنگ کی ہے چاہے وہ ہندوستانی ہو یا پاکستانی۔ یورپی ریاستوں کے طور اطوار اور وطیرے قدرے مختلف ہیں لیکن ان کی ساری شائستگی صرف اپنے شہریوں تک محدود ہے۔ اغیار کیلئے وہ بھی ہماری ریاستوں جیسے ہی ہیں۔ افتخار گیلانی نے اپنے ایک کالم ’’نعشوں کی سوداگری‘‘میں سیاسی بربریت کے کئی واقعات لکھے ہیں۔ ان واقعات کی روشنی میں آپ ڈی چوک کے واقعے کا تجزیہ اور مقتولین کی تعداد کا اندازہ لگا سکتے ہیں کیونکہ دونوں ملکوں میں ایک سی سیاست اور ایک سا انداز حکمرانی ہے۔
افتخار گیلانی نے لکھا: ’’پچھلی دو دہائیوں کے دوران بھارت اور پاکستان تقریباً تین بار جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے تھے جن میں 2001ء میں بھارتی پارلیمان پر حملہ۔ 2008میں بمبئی کے دو فائیوسٹار ہوٹلوں پر دہشت گردانہ کاروائی اور
2019ء میں کشمیر کے ضلع پلوامہ میں بھارتی نیم فوجی کانوائے پر خود کش حملہ شامل ہے۔ مگر جو تار ان تینوں واقعات کو جوڑتے ہیں، وہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کو انکے بارے پیشگی جانکاری (علم) تھی۔ آخر ان واقعات کو روکنے کے لئے انہوں نے کاروائی کیوں نہیں کی؟ یہ بڑا سوال ہنوز جواب کا منتظر ہے۔
بھارت کے معروف جریدے ’’فرنٹ لائن‘‘نے انکشاف کیا کہ 2جنوری 2019ء سے 13فروری 2019تک یعنی حملہ سے ایک دن قبل تک حکام کو ایسی خفیہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں جن میں واضح طور پر اس حملہ کی پیشین گوئی تھی۔ خفیہ اطلاعات اتنی واضح تھیں کہ ان پر ایکشن نہ لینا مجرمانہ زمرے میں آسکتا تھا۔ پولیس سربراہ دلباغ سنگھ اور انسپکٹر جنرل آپریشنز کی میز پر 13فروری کو جو رپورٹ پہنچی، اس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ قومی شاہراہ پر آئی ای ڈی بلاسٹ کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ایک دوسرے خفیہ پیغام میں ضلع پلوامہ کی اونتی پورہ تحصیل کے نزدیک قومی شاہراہ پرلکھی پورہ کراسنگ کو ہائی رسک علاقہ بنایا گیا تھا۔ یہ وہی کراسنگ ہے جہاں اگلے روز 14فروری کو دوپہر سوا تین بجے ایک خود کش بمبار نے نیم فوجی دستوں کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا۔ جس کے نتیجے میں چالیس اہلکار موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ تقریباً اڑھائی ہزار فوجی دستوں پر مشتمل 78 گاڑیوں کا قافلہ جموں سے سری نگر آرہا تھا۔ اس اطلاع میں پولیس کو ہدایت دی گئی تھی کہ قومی شاہراہ کے اس حصے کی سیکورٹی کا خاطر خواہ انتظام کیا جائے۔ معروف صحافی اور تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے ایک ممبر ستیش مشراکے بقول ’’چالیس سیکورٹی اہلکاروں کی ہلاکت مودی کیلئے بھگوان کا وردان ثابت ہوئی۔ اس نے بھارتی جنتا پارٹی (BJP)کے سیاسی غبارے میں ہوا بھر دی جو زمین کی طرف آرہا تھا‘‘۔
افتخار گیلانی نے ’’تشدد بطور ہتھیار‘‘کے عنوان سے اپنے ایک کالم میں لکھا: ’’برطانوی صحافی ایڈریان نیوی اور کیتھی اسکارٹ کلارک نے اپنی کتاب Meadow" "The میں بتایا ہے کہ جولائی 1995ء میں جنوبی کشمیر میں ایک غیر معروف عسکری تنظیم ’الفاران‘کے ذریعے اغواء کئے گئے پانچ مغربی سیاحوں کوبچایا جا سکتا تھا۔ کیونکہ را اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں کے اہلکار اغواء کے پورے واقعہ کے دوران نہ صرف سیاحوں اور اغوا کاروں پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے تھے بلکہ ان کی تصاویر بھی لیتے رہے۔ دونوں برطانوی صحافیوں نے شواہد کی بناء پر لکھا ہے کہ سرکاری اداروں نے چاروں سیاحوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا تاکہ پاکستان کے خلاف ایک بڑی سرد جنگ جیتی جا سکے‘‘۔
ایسے ہی بہت سے واقعات اس کتاب میں پڑھے جا سکتے ہیں جن سے پاکستان اور ہندوستان کے حکمرانوں کے انداز حکمرانی سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
کالم نگار افتخار گیلانی ہندو انداز حکمرانی بتاتے ہیں
Dec 30, 2024