وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس عزم کا اعادہ کیاہے کہ مادر وطن کا تحفظ ہرصورت یقینی بنایا جائیگا ۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ملاقات میں ملک کے داخلی امور سمیت افواج پاکستان کی پیش ورانہ سرگرمیوں اور سرحدوں کی سکیورٹی کے حوالے سے امور کاجائزہ لیا گیا۔ وزیرا عظم اور آرمی چیف نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے نتیجے میں انسانی حقوق کی مسلسل پامالی پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ بھارت کی کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائیگا ۔اس موقع پر قومی تشخص کو اجاگر کرنے اور قومی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے پر بھی تبادلہ خیال ہوا ۔
پاکستان کی سلامتی کے خلاف بھارتی سازشوں کا تو قیام پاکستان کے وقت سے ہی آغاز ہو گیا تھا جس نے شروع دن سے ہی پاکستان کے آزاد اور خودمختار وجود کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا کیونکہ بھارتی لیڈر قیام پاکستان کو اپنے اکھنڈ بھارت کے ایجنڈا کے منافی سمجھتے تھے۔ اسی پس منظر میں بھارت نے پاکستان کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے کی نیت سے جغرافیائی اعتبار سے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا تاکہ بھارت کشمیر سے پاکستان آنیوالے دریاؤں کے پانی کو کنٹرول کر کے پاکستان کو کمزور اور بے بس کرسکے۔ اس بھارتی سازش نے ہی دونوں ممالک میں سرحدی کشیدگی کی بنیاد رکھی جب کہ بھارت نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو تسلیم نہ کرکے اور بعدازاں بھارتی آئین میں ترمیم کرکے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے کر اپنی ہٹ دھرمی کا ثبوت دیا۔اس وقت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بھارت نے ختم کردی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں تاریخ کا طویل ترین لاک ڈاؤن جاری ہے۔یہ بھارتی جارحیت درحقیقت عالمی ضمیر پر ایک سوالیہ نشان بھی ہے۔ بھارت نے 1971 ء میں مکتی باہنی کی سازش کے تحت پاکستان کو دولخت کیا اور پھر باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی پر بھی اوچھے وار کرنے کیلئے خود کو ایٹمی قوت بنالیا چنانچہ پاکستان کے پاس بھی اپنی سلامتی کے تحفظ اور مکار دشمن کے سازشی ذہن کے توڑ کیلئے خود کو ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔اس سلسلہ میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے اہم پیش رفت کی اور یہ ذمہ داری ڈاکٹر اے کیو خان کو سونپی۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان ایٹمی قوت نہ بنا ہوتا تو بھارت اپنے جنونی عزائم اور رتوسیع پسندانہ ایجنڈا کے تحت پاکستان کو کب کا ہڑپ کرچکا ہوتا۔ اب بھی پاکستان کی سلامتی کے خلاف بھارتی کارروائیاں جاری ہیں جن کا بھرپور دفاع کیاجارہاہے تاہم بھارت جارحانہ عزائم سے باز نہیں آرہا اوربلوچستان میں بدستور تخریبی کارروائیاں کررہاہے۔ اور اب ’’را‘‘ نے اپنا دائرہ وسیع کردیا ہے۔ ایسے سب اقدامات پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں انہی خطرات کے پیش نظر پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادتیںآئے روز مشاورت کا سلسلہ جاری رکھتی ہیں ۔ یہ بھی کھلی حقیقت ہے کہ بھارت مسئلہ کشمیر سے عالمی توجہ ہٹانے کیلئے پاکستان کیخلاف مسلسل سازشیں کررہا ہے۔ بھارت یہ کارروائیاں افغانستان میں بیٹھ کر بھی کررہاہے اس حوالے سے افغانستان کے عوام کو بھارتی چالوں سے ہوشیار رہنا چاہیے اور اپنے محسن پاکستان کے ساتھ بھائی چارہ اور اچھے روابط کو فروغ دینا چاہیے۔بھارت نے پاکستان پر دہشت گردی کا لیبل لگوانے کیلئے ایک سازشی تھیوری تیار کی ہے جس کے تحت بھارت پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ممبئی حملوں سے اوڑی حملے تک بھارت پاکستان ہی کو ذمہ دار قرار دے رہاہے تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ اب کشمیری نوجوانوں نے بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی جدوجہد آزادی میں نیا رنگ بھر کر قربانیوں کی نئی مثالیں قائم کرکے پوری دنیا کو بھارتی مظالم کی جانب متوجہ کردیا ہے۔اسکے توڑ کیلئے بھارت پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔ اسی تناظر میں بھارت کی جانب سے یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر اوڑی حملے کا ڈرامہ رچا کر بلاتحقیق اس کا ملبہ پاکستان پر ڈالا گیا مگر حقائق و شواہد نے بھارت کے ناپاک عزائم کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا۔ تازہ ترین اطلاعات کیمطابق برطانیہ میں پاکستانیوں کیخلاف نفرت پھیلانے پر بھارتی ٹی وی چینل کو 20 ہزار پاؤنڈ جرمانہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ کیمطابق بھارتی چینل ری پبلک ٹی وی میں میزبان ارنب گوسوامی کے ایک پروگرام میں پاکستانیوں کو برے القابات سے پکارا گیا تھا۔ رپورٹ کیمطابق پروگرام کے دوران پاکستانیوں کیخلاف بھارتیوں کے جذبات کو ابھارا گیا۔ ایسے پروگرام پاکستانیوں کی جان کیلئے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔برطانوی ادارے کا مؤقف ہے کہ ارنب گوسوامی نے اپنے پروگرام میں صحافتی اقدار کی کھلی خلاف وزی کی ۔جرمانے کی سزا کے بعد بھارتی ٹی وی چینل نے برطانیہ کو یقینی دہانی کرائی کہ برطانیہ میں آئندہ ایسا پروگرام نشر نہیں ہوگا جو کہ مقامی قوانین سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔اس طرح پاکستان کو بدنام کرنے کی ایک اور بھارتی کوشش ناکام ہوگئی اور بھارت کی عالمگیر رسوائی کاایک اور باب کھل گیا اور اربوں ڈالر خرچ کرکے پاکستان کیخلاف پراپیگنڈے کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ گیا۔
چند روز قبل یورپی یونین کے اپنے تحقیقی ادارے ’ای یو بمقابلہ ڈس انفو‘ نے انکشاف کیا تھا کہ یورپی پارلیمان کے حوالے سے خبریں شائع کرنے والا ’ای پی ٹوڈے‘ نامی جریدہ، رشیا ٹوڈے اور وائس آف امریکہ کی خبریں شائع کر رہا ہے۔ جریدے کا انتظام انڈین سٹیک ہولڈروں کے ہاتھ میںہے جن کے تعلقات ’سری واستوا‘ نامی ایک بڑے نیٹ ورک کے تحت کام کرنے والی این جی او، تھنک ٹینکس اور ان سے منسلک لوگوں سے ہے۔ اس نیٹ ورک میں 250 سے زائد فیک ویب سائٹس سامنے آ چکی ہیں جو پُرانے اور غیر فعال یا جعلی ناموں والے اخبارات سے بھارتی بیانیے کی حمایت والی خبریں شائع کر رہے تھے۔بھارت کی منفی پروپیگنڈہ مہم دراصل کشمیر کی صورتحال سے عالمی توجہ ہٹانے کی سازش کا حصہ ہے۔بھارت مقبوضہ کشمیر پر اپنا تسلط قائم رکھنے کیلئے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، پاکستان نے ہر عالمی فورم پر کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیا اور ہمیشہ یہ اصولی موقف اختیارکیاہے کہ کشمیری عوام کو ہی اپنے مستقبل کے تعین کا حق حاصل ہے جس کیلئے اقوام متحدہ نے اپنی متعدد قراردادوں کے ذریعے ان کا حق خودارادیت تسلیم کیا ہوا ہے۔بھارت اپنے جارحانہ اقدامات سے عالمی برادری میں خود ہی اپنے آپ کو بے نقاب کررہا ہے۔ نتیجہ کے طورپر بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان نہ صرف یہ کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنے اصولی موقف پر قائم ہے بلکہ بھارتی جارحیت کا پردہ چاک کرنے کیلئے عالمی سطح پر سفارت کاری سے کام لے رہاہے ۔ بھارت چونکہ پاکستان کے ان اقدامات سے نالاں ہے اس لئے وہ اپنی خفت کو مٹانے کیلئے پاکستان کی سلامتی پر بار بار حملے کررہاہے ۔ افواج پاکستان بھارت کی ہر جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کررہی ہیں اس حوالے سے سیاسی وعسکری قیادت میں اتفاق رائے خوش آئند ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم وطن عزیز کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت پر مامور افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو مزید یہ کہ وطن عزیز میں امن وامان کی صورت حال بھی بہتر رہے اس مقصد کیلئے حکومت ، اپوزیشن اور عوام کو اپنی ذمے داریاں نبھانی چاہئیں تاکہ دشمن کو واضح پیغام جاسکے کہ پاکستان کے عوام مادر وطن کے دفاع کیلئے ایک پلیٹ فارم پر آگئے ہیں ۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024