سن 1992 اور یہی دسمبر کا مہینہ۔ جاپانی حکومت کی دعوت پر میں اور شاہین صہبائی ٹوکیو کے لئے روانہ ہو ئے۔ جاپانی سفیر نے ہمیں خصوصی ہدایت دی تھی کہ ہم جاپان میں کسی جگہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا ذکر نہ چھیڑیں کیونکہ جاپانی قوم اس مسئلے پر الرجک ہے اور امریکہ کے ہاتھوںزخم کھا چکی ہے۔ اس کے سامنے ایٹم بم کا نام بھی لے لیں تو جاپانی خوف سے لرز ٹھتے ہیں۔
ہمیں وزیر اعظم نواز شریف کے دورے سے قبل اپنے اپنے اخبار کے لئے ایک مطالعاتی رپورٹ تیار کرنا تھی۔
جاپان میں کسی سیاح کا وہی حال ہوتا ہے جو ترکی میں جا کر ہوتا ہے کہ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔جاپان والے اپنی زبان پر فخر کرتے ہیں اور بھولے سے بھی انگریزی نہیں بولتے۔ ہمہ وقت آپ کو ایک ترجمان کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
جاپان نے ہمیں بے انتہا عزت و تکریم سے نوا ز تھا۔ انتہائی طویل سفر اور فرسٹ کلاس کا گراںقدر ٹکٹ۔ راستے میں نصف شب کو بنکاک میں اسٹاپ اور پھر اگلی صبح منیلا کے ایئر پورٹ کا نظارا، یہاں باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی، ہمیں ٹوکیو کے ناریتا ایئر پورٹ پر اتارا گیا۔ دل میںخوف سا محسوس ہو رہا تھا کہ یہاں امیگریشن کے مراحل کیسے طے ہوں گے ۔ جاپانی تو کوئی رو رعائت برتنے کے لئے تیار نہیںہوتے۔جہاز سے ا تر کر اندازے سے باہر کا راستہ اختیار کیا۔ کچھ فاصلے پر امیگریشن کے لوگ سامان کھلوا کر چیکنگ میںمصروف تھے، ایک ایرانی کے سامان سے دالیں بر آمد ہوئیں ۔ جاپانیوں کو کچھ سمجھ نہ آئی کہ یہ کیا بلا ہے۔ وہ اسے شاید ہیروئن سمجھ رہے تھے۔ میںنے مداخلت کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی کہ ایرانی اپنے ساتھ مختلف دالیںلایا ہے تاکہ انہیں پکا کر کھا سکے۔ مگر امیگریشن والے بضد تھے کہ وہ لیبارٹری سے چیک کروائے بغیر ایرانی کی جان نہیں چھوڑیں گے۔ اس سے قبل کہ ہمارا سامان کھولنے کی باری آتی، ایک ادھیر عمر کے جاپانی نے ہمیں نام لے کر ہمیں پکارا۔ ہماری جان میں جان آئی، یہ صاحب ان کی وزارت خارجہ کے نمائندے تھے جو ہمیں بحافظت تمام ایئر پورٹ سے وصول کرنے آئے تھے۔ میں حیران ہوا کہ جاپان میں جہاں قانون کی حکومت ہے وہاں ایسی لا قانونیت بھی ہو سکتی ہے کہ آپ کسی چیکنگ کے بغیر ایئر پورٹ سے نکل سکیں۔ اب میںسوچتا ہوں کہ اگر کسی نے ایان علی کو بھی پروٹوکول دیا تو اوپر کے احکامات کے تحت ہی دیا ہو گا۔ یہی تجربہ مجھے امریکہ کے پہلے سفر پر ہوا۔ جہاں واشنگٹن ایئر پورٹ پرمیں ایک طویل قطار میںکھڑا تھا کہ ایک صاحب ہر ایک کو غور سے دیکھتے میرے پاس آ ئے اور مجھے اشارہ کیا کہ میں ان کے پیچھے چلاا ٓئوں،اگر پیا راضی ہو تو قاضی کی کیا مجال کہ آپ پر ہاتھ ڈال سکے۔
ناریتا ایئر پورٹ سے ہمارے ہوٹل تک کئی میل کا سفرتھا اور راستے میں ہمیں کوئی ایک درجن ٹول پلازوں سے گزرناپڑا جہاں ہر جگہ ہزاروں کا ٹول ادا کرنا پڑا۔ جاپان کی کامیاب معیشت کے بارے میں یہ میرا پہلا تاثر تھا کہ جاپانی کماتے بھی خوب ہیں اور ٹیکس بھی خوب دیتے ہیں۔ وہاں کے کاروباری اورصنعتکار طبقہ کے نخرے حکومت نہیں اٹھاتی ۔
ہمارا ہوٹل کوئی پانچ مرلے کے رقبے پر محیط تھا۔ اس کے کمرے کیا تھے، بس پنجرے سمجھ لیںاور اس کے واش روم جیسے جہاز میں ایک سکڑی سکڑائی جگہ ہوتی ہے، نہ آدمی ڈھنگ سے کھڑا ہو سکتا ہے اور نہ بیٹھ سکتا ہے اور یہ کمرے بید مجبوں کی طرح لرز رہے تھے۔ پتہ چلا کہ فائیبر سے بنے ہیں تاکہ زلزلے کی صورت میں تباہی سے بچ سکیں۔اس ہوٹل میں کھانے پینے کی حالت ملائیشیا کے تجربے سے بھی بد تر تھی۔ ایک بار ہمارے آرمی چیف جنرل موسیٰ ہفتہ بھر کے لئے جاپان ا ٓئے تو پرہیز کی خاطر صبح دوپہر شام ابلے انڈے کھاتے رہے۔ تیسرے دن تک ان کا پیٹ اس قدر خراب ہو گیا کہ انہیں گلو کوز کی ڈرپ لگانا پڑ گئی۔ میںنے ملائیشاکی طرح یہاںبھی دودھ اور چاول پر گزارا کیا۔
ہم نے فرمائش کی کہ ہمیں کوئی پوش مارکیٹ لے کر جائو تاکہ الیکٹرانک کا سامان خرید سکیں۔ہم جاپان کی گنزا مارکٹ میں گئے، سمجھ لیں ،یہ بازار ہمارے لاہور کی انارکلی کی طرح گاہکوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اب توہماراانارکلی بازار تیزی سے پھیلتے ہوئے لاہور میں واقعی دیواروں میں چن دیا ہے ، اس بے چاری انار کلی کی طرف کوئی بھولے سے بھی رخ نہیںکرتا۔
گنزا میں ایک عجب تماشہ ہوا کہ اچانک ہوٹر گونجنے لگے۔ لوگوںنے فوری طور پر دکانوں کے شٹر گر الئے۔ ہم سمجھے کہ کوئی وی وی آئی پی گزرنے والا ہے مگر پتہ چلا کہ یہ ٹوکیو کا مافیا چیف ہے ۔ اگر پولیس کسی ملزم کا سراغ نہ لگا سکے تو پھر مسئلہ اس مافیا چیف کو ریفر کیا جاتا ہے۔ واہ جی ! دنیا کا انتہائی ترقی یافتہ ملک بھی مافیا کے شکنجے سے آزاد نہیں تو ہمیں کراچی پر ترس آ گیا جہاں چھوٹے موٹے پتھاریدار مال پانی بنانے میں بدنام ہیں۔ کراچی میں رینجرز والوں کو ٹوکیو کے مافیا چیف سے سبق سیکھناچاہئے ۔
اور ہاں ٹوکیو میں آپ کسی کے گھر جائیں تو خبردار اپنے جوتے باہر گلی میں اتاریں۔ میری طرح غلطی نہ کریں کہ ہمیں فارن آفس کے اعلی عہدیدار نے رات کی ضیافت پر مدعو کیا تو میں جوتوں کے تسمے کھولنے کے لئے دروازے سے باہر پائیدان پر بوٹ رکھ بیٹھا ، میزبان نے مجھے خشمگیں نظروں سے دیکھا۔ مجھے غلطی کاا حساس ہو گیاا ور میں نے جوتا واپس سڑک پر رکھ کر اس کے تسمے کھولے۔جاپان کی کئی یادیں ہیں مگر یہاں چند ایک کا ذکر کر سکتا ہوں۔، ہمیں ہیرو شیما ہوائی جہاز سے لے جایا گیا مگر جب واپسی کے لئے ایئر پورٹ پہنچے تو پتہ چلا کہ موسم اس قدر خراب ہے کہ وہ جہاز آیا ہی نہیں جس نے واپس ٹوکیو جانا تھامیں حیرت زدہ تھا کہ اس قدر ٹیکنالوجی کی ترقی مگرآل ویدر ایئر پورٹس یہاں بھی نہیں ہیں۔جاپان جیساملک بھی موسم کے ہاتھوں بے بس ہو سکتا ہے۔ میں ا سکی توقع تک نہیں کر سکتا تھا۔ ہمارے گائیڈ نے کہا انتظار کر لیتے ہیں مگر ہم دونوں بضد ہو گئے کہ جہاز پر تو قدم بھی نہیں رکھیں گے، ہمیں بلٹ ٹرین سے لے کر جائیں۔ گائیڈ صاحب نے چند فون کئے اور انہیں ٹرین کے ٹکٹ خریدنے کی اجازت مل گئی اور یوں ہم نے بلٹ ٹرین کا مزہ لیا جس نے ہیرو شیما سے ٹوکیو تک کا سفر ٹھیک پانچ گھنٹے میں مکمل کرا دیا۔ راستے میں یہ بہت کم مقامات پر رکی۔، اس کے اندرنہ جانے کونسا کمپیوٹر نصب تھا کہ یہ ہر اسٹیشن پر مقررہ وقت پر پہنچتی ، چند ثانیوںکے لئے رکتی اور پھر یہ جا وہ جا۔ یہ مزے کا سفر ہے جو کبھی نہیں بھولتا۔
ہم نے نگویاا ور کیوٹو کے تاریخی، خوبصورت اور سرسبز شہروں کا بھی سفر کیاا ور میں اگر آپ کو یہ بتائوں کہ یہ سفربائی روڈ کئے گئے اورچونکہ مسافت زیادہ تھی۔ اس لئے ہمارے لئے سب سے بڑی مرسیڈیز کرائے پر حاصل کی گئی ۔ میں اتفاق سے اگلی سیٹ پر بیٹھتا تھا، ا س لئے میٹر پر نگاہ پڑتی تو کرایہ لاکھوںسے تجاوز کر جاتا تو میری چیخ نکلتے نکلتے رہ جاتی مگر میں جاپانی حکومت کا بے حد شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھ جیسے بے مایہ صحافی کی حد سے بڑھ کر عزت و تکریم کی۔خدا ایسے میزبان ہر ایک کو دے۔
جاپان سے میں روزانہ کالم بھیجتا تھا جو جاپان ڈائری کے لوگو سے چھپتا تھا۔ ا سلئے اب میںنے خلاصے پر اکتفا کیا ہے مگر کسی وقت نوائے وقت کی پرانی فائلوں سے تلاش کر کے ایک آرٹیکل ضرور، ری پرنٹ کروں گا جس پر مجھے جنرل ضیا کے ملٹری سیکرٹری جنرل رفاقت کا فون آیا تھا کہ انہوںنے اردو میں معاشی اور مالیاتی موضوع پر ا سقدر سہل اور عام فہم زبان میں کبھی کوئی آرٹیکل اس سے پہلے نہیں پڑھا۔ میں ان کے خراج عقیدت کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
دسمبر کے مہینے میں نجانے بھارت پر کیوں جنون طاری ہوجاتا ہے۔ اب بھی دسمبر میںمسلمانوں پر آفت نازل کر دی گئی ہے اور تب بھی دسمبر میں بابری مسجد کو مسمار کیا تھا۔ ایل کے ایڈوانی جیسا بوڑھا بھی ہتھوڑے لے کر اس کے گنبد کے پرخچے اڑا رہا تھا۔یہ مناظر میں نے اپنے ہوٹل کے کمرے میں سی این این کی سکرین پر دیکھے اور جاپان کے سفر کی ساری خوشیاںکافور ہو گئیں۔
٭٭٭٭٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38