فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) نے کالعدم تنظیموں کے افراد کو سزائیں دلوانے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان کو 150 سوالوں پر مشتمل نئے سوالنامہ میں مدارس سے متعلق کئے گئے اقدامات کی تفصیلات اور کالعدم تنظیموں کے خلاف درج مقدمات کی نقول طلب کی ہیں۔ دینی مدارس میں آج تک کبھی قتل و غارت گری کی نوبت نہیں آئی جبکہ جامعات میں طلبا کے گروپوں میں تصادم اور ہراسگی کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں وکلاء ڈاکٹرز تصادم نے کیا ثابت کیا ہے۔ مدارس کے پڑھے لوگوں میں انسانی قدروں کی پاسداری ، نظم و ضبط اور قوانین کااحترام دوسرے طبقات کے مقابلے میں کہیںزیادہ ہوتاہے۔ ماضی میں علامہ طاہر القادری اور ماضی قریب میں مولانا فضل الرحمن کے دھرنے میں ایک گملا ٹوٹنے کا واقعہ بھی پیش نہیں آیا۔ مدارس کے نصاب میں جدید علوم کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ تعلیمی اداروں کے نصاب میں تربیت کے حوالے سے کوئی مواد شامل نہیں۔ بدقسمتی سے سارا زور علماء کرام مولویوں، صوفیاء عظام اورمصلحین کی کردار کشی پر ہے۔ عام مساجد کے مولوی اورمؤذن لوگوں کے چندوں پر پلتے ہیں۔ محکمہ اوقاف کی مساجد کی طرح عام مساجدکے مؤذنوں اور امام و خطیب کے بھی گریڈ ہونے چاہئیں یہ دینی مدارس کے خلاف پراپیگنڈہ ہے کہ FATF نے مدارس سے متعلق وضاحتیں طلب کی ہیں۔ عمران خان نے نوید سنائی ہے کہ 2020 ء پاکستان کی ترقی کا سال ہو گا۔ پہلے قدم کے طور پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی لسٹ سے 8لاکھ 20 ہزار 165 نام خارج کر دئیے گئے ہیں۔ یہ مستحقین زیادہ پیپلز پارٹی کے جیالے جیالیاں تھیں مثبت و منفی معاشی اشاریے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ گیس نایاب ہو گئی ہے۔ موسم سرما میں گیس کا پریشر کم ہونے کی وجہ چوری کا بڑھ جانا اور پائپ لائنوں کی مینٹی ننس میں بے قاعدگی سے گیس کا لیک ہو جانا ہے۔ لوگ گیس کمپریسر لگا کر گھریلو صارفین کی حق تلفی کرتے ہیں۔ بجلی، گیس اور ٹیکس چوری کا سدِباب کسی دور حکومت میں نہ ہو سکا ۔ شدید سردی میں گیس کی طلب آٹھ ارب مکعب فٹ ہو جاتی ہے جبکہ یومیہ پیداوار 3.8 سے 4.2 رب مکعب فٹ ہوتی ہے۔ رسد کو طلب کے مطابق بڑھانے کی ذمہ داری گیس کمپنیوں کی ہے۔ صوبوں میں پانی کی تقسیم کا مسئلہ عرصہ سے حل طلب ہے۔ صوبوں کے لیے یکساں نصاب تعلیم کا فیصلہ ہوا ہے۔ صوبوں کے لیے توانائی کے منصوبوں کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ جعلی ادویات اور مشروبات کا دھندہ بے خوفی سے جاری ہے۔ دیہی علاقوں میں عطائیت کا راج ہے۔ ٹیسٹوں کی رپورٹیں بھی جعلی بنا کر دی جاتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں تیس تا چالیس فیصد ادویات جعلی ہوتی ہیں ۔ اتنے زیادہ مافیاز اکٹھے ہو گئے ہیں کے کس کس پر آہنی ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے۔ صحت اور تعلیم کے مسائل اور اہداف میںناکامیاں اظہر من الشمس ہیں۔ پنجاب کے سکولوں میں نئے داخلے ہدف سے 16 لاکھ کم ہے۔ سکول اساتذہ ہوں یاکالج ٹیچرز سب کی دلچسپی اورمفادات اکیڈمیوںسے وابستہ ہے۔ بورڈ اور یونیورسٹی دھاڑم دھاڑ پرچے چیک کرنا اور امتحانی مراکز میں ڈیوٹیاں لگوانا ان کے اہداف ملازمت ہیں جس طرح ٹریفک کنٹرول کرنے سے زیادہ ٹولیوں کی شکل میں لوگوں کو گھیر کر چالان کی کتابیں بھرنا وارڈنوں کے اہداف ملازمت ہیں۔ پہلے 100 دن کے بعد اب قوم کی امیدیں 2020 ء سے وابستہ ہو گئی ہیں۔ کوئی ایک وزیر اور سیکرٹری ایسا نہیں جس نے اپنے محکمے میں حیران کن اصلاحات کی ہوں ہر طرف نظام کلرکوں کے ہاتھ اور جوں کا توں ہے۔ جون 2020 ء تک بیرونی قرضہ 113 ارب ڈالر ہو جائے گا۔ آئندہ دو ماہ میں منی بجٹ آنے کی بھی خبریں ہیں۔ مارچ تک ملک بھر میں تعلیمی نصاب ایک ہو جائے گا۔ پاکستان کی بیرونی ذرائع سے مالی ضرورت کا تخمینہ 27 ارب ڈالرز ہے۔ 2019ء میں پٹرول کی قیمتوں میں 23 روپے 2 پیسے فی لیٹر اضافہ ہوا۔
احتسابی عمل پر سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں ۔ سندھ کے عوام مراد علی شاہ کی کارکردگی کے منتظر ہیں۔ خیبر پختو نخوا میں ’’بی آر ٹی سیاست عروج پر ہے۔ BRT پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے۔ نیب نے لاہور رنگ روڈ میں 62 ارب کی مبینہ کرپشن کا نوٹس لے لیا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ پنجاب کے بجٹ کا بڑا حصہ ڈیرہ غازی خان ڈویژن پر چرچ کیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے ڈیرہ غازیخان کو لاہور بنا دیا ہے۔ یہ ضمانتوں کا موسم ہے۔ ایک باہر آتا ہے تو دوسرا اندر جاتا ہے۔ حالات کی سنگینی اور حکومتی مزاج کا کسی کو اندازہ نہیں ہو رہا۔ وفاق میں 7 وزارتوں کے ماتحت 20 ادارے ختم، 5 یکجا کرکے 2 محکمے بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ پنجاب میں بھی وزارتوں کے ماتحت ادارے کمپنیاں اتھارٹیاں ختم اور یکجا کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم اور صحت میں اداروں کی بھرمار ہے۔ ڈی پی آئی، ڈائریکٹروں کے دفاتر کی کیا افادیت ہے؟ پاکستان بناتو قائداعظم نے کامن پن کی جگہ تنکوں سے کام چلایا تھا۔ محکموں کے انضمام سے پیسہ بچے گا۔ سکول کالج ہسپتال پرائیویٹ سیکٹر کی طرح خود مختار بنا دئیے جائیں۔ اپنے اخراجات کے مطابق آمدنی پیدا کریں ۔ پرائیویٹ نظام تعلیم میں دو گروپس کی بھرمار ہے۔ ایک ایک برانچ اتنی نفع بخش ثابت ہوئی کہ فرد واحد کے درجنوں سکول اور کالج وجود میں آ گئے۔ رانا ثناء اللہ کی طرح پرائیویٹ تعلیمی اور صحت کا نظام چلانے والوں کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟ ہر سرکاری ملازم کی ریٹائرمنٹ کے روزاس کے بقایا جات اور پنشن کا حکم نامہ اس کے ہاتھ تھمانے میں کیا امر مانع ہے؟ مرحوم سرکاری ملازموں کے لواحقین کی سرکاری دفاتر میں خوارگی دیدنی ہے۔ ریٹائرمنٹ کیسوں کا ریٹ مقرر ہے۔ بڑے بڑے پرنسپل کلرکوں کے ہاتھوں میں کھلونا ہیں۔ انکشاف ہوا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فیض یافتگان میں 140,000 ہزار سرکاری ملازم تھے۔ پروگرام میں کارڈ ختم ، بائیو میٹرک سسٹم چلے گا۔ ڈی جی خان میں 18 ارب کے منصوبوں کا افتتاح ہوا ہے لیکن لاہورکو کچرے سے پاک شہر بنانے کا صرف عزم سامنے آیا ہے۔ مراد علی شاہ نے عوامی مسائل کا حل وزراء کی کھلی کچہریاں لگانا بتایا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے قبائلی علاقوں میں پائی جانے والی معدنیات کو صوبے کی ملکیت قرار دینے کے بل کی منظوری کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ قبائلی اپنے حقوق کے منتظر ہیں۔ محکمہ سیاحت کے 400 افسروں اور ملازمین کی چھانٹی کا فیصلہ ہوا ہے۔ پنجاب کے 6500 دیہات بجلی سے محروم ہیں۔ پنجاب بھر میں سوا تین لاکھ گھروں کے لاکھوں افراد اس جدید دور میں بھی آنگن کے روشن ہونے کے منتظر ہیں۔ بہاولپور 1286 دیہات کے ساتھ سرفہرست ہے۔ بہاولنگر ، مظفر گڑھ اور لیہ کے بیشتر دیہات میں بجلی نہیں، دیہاتوں میں آوارہ کتوں کی بہتات، ہیروئن چرس اور افیون کی کھلے عام فروخت اور ذخیرہ اندوزی بڑی لعنتیں ہیں جب بنیادی حالات نے ٹھیک نہیں ہونا تو سطحی تبدیلیوں سے کیا فرق پڑتا ہے۔ تمام تغیر زمانہ کے باوجود ہماری مجبوریاں تو اپنی جگہ قائم ہیں۔ لاہورکچرا منڈی بن گیا ہے۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیروں کی وجہ سے شہر کوڑے دان میں بدل چکا ہے۔
ایل ڈبلیو ایم سی میٹروپولیٹن کارپوریشن ، محکمہ بلدیات، کمشنر، ڈپٹی کمشنر کسے گندگی کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ لاہور سمیت ملک بھر میں گیس کا بحران سنگین ہو گیا ہے۔ گیس کمپنیوں کو 2 ارب کیوبک فٹ گیس کے شارٹ فال کا سامنا ہے۔ بجٹ کے اہداف میں شارٹ فال زرعی پیداوار میں شارٹ فال، بجلی کا شارٹ فال غرضیکہ شارٹ فال ہی ہمارا نصیب بن گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی جائزہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کو آئندہ برسوں میں بھی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ شرح نمو متاثر اور خسارہ بڑھ سکتا ہے۔ صوبے بجٹ اہداف پورے نہیں کر سکے، اسٹرکچرل اصلاحات میں پیشرفت کی رفتار سست رہی، FATF کی ممکنہ بلیک لسٹنگ کے باعث سرمایہ کاری میں کمی آ سکتی ہے۔ پاکستان کا زرمبادلہ بڑھانے کے لیے 20 برآمدی سیکٹرز کو ٹیکس رعایت دینے پر غور ہو رہا ہے۔ نئی برآمدی پالیسی کا اعلان آئندہ ماہ کیا جائے گا۔ غذائی اجناس کی قیمتوں میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آئین کی روسے مشترکہ مفادات کونسل کے ایک سال میں چار اجلاسوں کا انعقاد ضروری ہے۔ حالیہ اجلاس میں صوبوں میں پانی کی تقسیم کا معاہدہ، قدرتی وسائل کی تقسیم ، توانائی پالیسی، مردم شماری کے موضوعات زیر بحث آئے۔ اجلاس باقاعدگی سے ہوتے رہیں تو صوبوں اور وفاق کے درمیان اختلافات بروقت دور کئے جا سکتے ہیں۔
٭…٭…٭
عاشقانِ عمران خاں کی مایوسی کے عکاس ضمنی انتخابات کے نتائج
Apr 23, 2024