انیسویں اور بیسویں صدی کے معروف سیاسی مفکرین نے سیاسی پارٹی کی جو تعریف کی ہے اسکے مطابق لوگوں کی ایسی جماعت جو جائز طریقے سے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرے وہ سیاسی پارٹی کہلاتی ہے جبکہ مسلم لیگ واحد سیاسی جماعت تھی جس کا مقصد برصغیر کے مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کرنا تھانہ کہ اقتدار اسکی منزل تھی ۔آخر برصغیر کے مسلمانوں کو مسلم لیگ کی صورت میں سیاسی جماعت بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟اسکے پس ِ منظر میں درج ذیل اہم وجوہات تھیں۔ دو قومی نظریہ، رام کا راج منصوبہ، ہندو ذہنیت، مسلم مفادات کا تحفظ، اردو ہندی تنازعہ، انڈین نیشنل کانگریس کا قیام ، تقسیم بنگال اور جداگانہ انتخابات شامل تھے۔ 30 دسمبر1906ء کو ڈھاکہ میں نواب سلیم اللہ خان کی طرف سے بلائے گئے مسلم ایجوکیشن کانفرنس کے اجلاس میں ہند کے تمام اہم مسلم اکابرین جمع ہوئے ۔ اجلاس کی صدارت نواب وقار الملک نے کی۔قرار داد نواب سلیم اللہ خان نے پیش کی ۔ تائید حکیم اجمل خان ، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان نے کی ۔ اجلاس میں جسٹس شاہ دین، سید نواب علی ، محسن الملک، نواب سمیع اللہ خان، سید وزیر حسن اور مظہر الحق بھی شامل تھے۔اجلاس میں پیش کی گئی قراد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا پہلا باضابطہ اجلاس 29 اور 30 دسمبر 1907 ء کو کراچی میں منعقد ہوا۔اس اجلاس میں مسلم لیگ کا آئین منظور کیا گیانیز مسلم لیگ کے اغراض و مقاصد کا از سر نو تعین کیا گیا۔مسلم لیگ نے اپنے قیام کے ابتدائی سالوں میں بہت سی کامیابیاں حاصل کیں۔ معاہدہ لکھنؤکے تحت مسلم لیگ کو پہلی دفعہ برصغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تسلیم کیا گیا۔ 10 اکتوبر1913ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے باقاعدہ آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیارکی۔ اگرچہ اگست 1910ء سے ہی وہ مسلم لیگ کے معاملات میں دلچسپی لے رہے تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی شمولیت سے مسلم لیگ کو ایک نئی طاقت اور قوت ملی۔4 مئی 1934 ء کو لیگ کی مشترکہ کونسل کا اجلاس دہلی میں ہوا۔جس میں قائد اعظم محمد علی جناح کو آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر اور حافظ ہدایت حسین کو سیکرٹری منتخب کیا گیا ۔اسکے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے دھواں دار دورے کیے۔اور مسلمانوں کو منظم کیا نیز آل انڈیا مسلم لیگ نے ایک علیٰحدہ ملک کیلئے اپنی جدوجہد تیز کر دی ۔ 1937 ء میں کلکتہ آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام ممکن ہوا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے ان کوششوں کو بہت سراہا اور ان کی حوصلہ افزائی کیلئے خود کلکتہ کے اجلاس کی صدارت کیلئے تشریف لے گئے۔ بنگال میں فیڈریشن کی تشکیل اور کارکردگی بڑی جاندار رہی اس کا سہرا جن مسلم طلبہ کے سر رہاان میں اے ٹی ایم مصطفیٰ، فضل القادر چوہدری، شیخ ظہور الدین، محمود علی، شاہ عزیز الرحمان، حمود الرحمان، عبدالصبور خان، اجمل علی چوہدری اور پیر محسن الدین کے نام قابل ذکر ہیں۔پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو بنانے میں حمید نظامی کی قیادت میں سینکڑوں طالب علموں نے حصہ لیا جن میںمولانا عبدالستار نیازی، سید خلیل الرحمان، سید بہاؤالدین گیلانی اورسید عظمت علی واسطی نمایاں ہیں ۔ لہٰذا جب 1937 ء میں پنجاب مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن قائم ہوئی تو حمید نظامی کو موزوں ترین امیدوار سمجھ کر صدارت کی ذمہ داریاں ان کو سونپی گئیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو نوجوانوں کا بھرپور تعاون ملا اور مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے آپکے مشن کو خوب آگے بڑھایا یہ تنظیم سندھ میں بڑی مؤثر اور فعال رہی جن مسلم طلبہ نے سندھ میں فیڈریشن کیلئے نمایاں جدوجہد کی ان میں پیرزادہ عبدالستار، یوسف ہارون، محمود ہارون، جی الانہ، قاضی فضل اللہ ، آغا غلام نبی پٹھان اور قاضی اکبر کا نام قابل ذکر ہے۔صوبہ خیبر پختونخواہ میں بھی مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کو فعال کرنے کیلئے قائد اعظم محمد علی جناح نے پشاور کے دورے بھی کیے۔ خیبر پختونخواہ میں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے قیام کیلئے جن طلبہ نے بھرپور شرکت کی ان میں فدا محمد خان، پیر مانکی شریف، محمد علی خان ہوتی ، محمد طماسپ، کبریا خان، مفتی محمد ادریس، سید مظہر گیلانی ، سعید احمد بخاری ، برہان الدین، دوست محمد کامل اور نور الہٰی کے نام نمایاں ہیں ۔اسی طرح بلوچستان میں بھی مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی جس کیلئے سردار خیر محمد خان ترین ، میر جعفر خان جمالی ، سردار تیمور شاہ، سردار محمد عثمان جوگیزئی اور قاضی محمد عیسیٰ نے بہت کام کیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے برطانیہ سے واپسی پر مسلم لیگ میں خواتین کو بھی منظم کرنے کا فیصلہ کیا اسکے ساتھ ہی انہوں نے مسلم خواتین کو آزادی کی جدوجہد میں شریک ہونے کی دعوت دی۔بیگم محمد علی جوہر کو انہوں نے خواتین کو منظم کرنے کا کام سونپا۔ بیگم صاحبہ نے 1947 ء میں لکھنوء کے مقام پر خواتین کا ایک بین الصوبائی اجلاس بلایا اور ان کی کوششوں سے خواتین مسلم لیگ کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔انہی کی کوششوں سے مسلم گرلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور مسلم وویمن نیشنل گارڈ معرض وجود میں آئیں۔ مسلم لیگ کے ہی 27 ویں اجلاس منعقدہ 23 مارچ 1940ء کولاہور میں قرار داد لاہور کی منظوری کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی تمام مصروفیات کو خیر آباد کہہ کر حصول پاکستان کیلئے جدوجہد تیز کر دی نیز مسلم لیگ کو مزید فعال بنانے کا کام بھی جاری رکھا۔ 14 اگست 1947 ء کو پاکستان صرف اور صرف مسلم لیگی مسلمانوں کی وجہ سے معر ض وجود میں آیا۔ واضح رہے کہ اکثر مصنفین نے اپنی تحریروں میں لکھا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں نے بنایا ہے جو کہ مسلم لیگیوں کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ تاریخ کو بھی مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 14دسمبر 1947ء کو خالق دینا ہال کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اہم اجلا س ہوا۔ اس اجلاس میں قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور صدر مسلم لیگ آخری دفعہ شرکت کی تھی کیونکہ تحریک پاکستان میں مسلسل جدوجہد اور انتھک محنت کی وجہ سے ان کی صحت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔اسکے باوجود انہوں نے اجلاس میں شرکت کی۔اور تقریباً ایک گھنٹہ تقریر کی لہٰذا فیصلہ ہوا کہ پاکستان مسلم لیگ کے کنوینر لیاقت علی خان ہوں گے جبکہ بھارت میں مسلم لیگ کے کنوینر محمد اسماعیل ہوں گے۔
آئین کی توثیق اور چیف آرگنائزر کے انتخاب کیلئے پاکستان مسلم لیگ کا اجلاس فروری 1948ء میں ہوا۔
چوہدری خلیق الزمان 13 اگست 1950ء تک پاکستان مسلم لیگ کے صدر رہے ۔انکے استعفیٰ کے بعد مسلم لیگ کے نئے صدر کے انتخاب کا فوری مسئلہ پیدا ہو گیا۔لہٰذا جماعت کے آئین میں ترمیم کرکے 9 اکتوبر 1950ء کو لیاقت علی خان کو اتفاق رائے سے مسلم لیگ کا صدر منتخب کر لیا گیا ۔لیاقت علی خان 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں شہید کر دئیے گئے ۔ کہا جاتا ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد پاکستان کی تعمیر میں لیاقت علی خان کا سب سے زیادہ حصہ تھا۔انکی شہادت سے نہ صرف پاکستان کو نقصان ہوا بلکہ مسلم لیگ کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024