کسی بھی معاشرے کی خارجہ پالیسی اور اس کے رہنما اصول اس معاشرے کے عروج و زوال کا منہ بولثا ثبوت ہیں۔ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضورؐ نے خارجہ پالیسی کے جو اصول وضع کئے اور جس پر ملت اسلامیہ کو مستحکم کیا جاتا رہا وہ اخلاقی حدود کی پاسداری، لوٹ کھسوٹ اور فصلوں کو برباد کرنے پر پابندی اور کسی دشمن کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا اور بلاوجہ کسی دشمن کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ آپؐ نے تو دشمن کے ساتھ بدعہدی کو بھی منع قرار دیا۔ مسلمانوں کی حکومتوں کا یہی خاصہ رہا جبکہ اس کے برعکس کفر و شرک پر قائم حکومتوں میں یہ عناصر ہمیشہ موجود رہے۔ اگر قدیم ویدوں کی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے تو مخالف کے ساتھ ظالمانہ سلوک، ان کے حسن سلوک کے جواب میں الزامات کی بھرمار جیسے عوامل شامل رہے۔ ایک حقیقت تو یہ بھی واضح ہے کہ چانکیہ کو قدیم ہندوستان میں جو حیثیت حاصل رہی وہی حیثیت میکاولی کو اٹلی میں حاصل رہی۔ دونوں کے نظریات میں کافی حد تک مماثلت رہی جن میں حیلہ سازی، دشمن کی کمزوریوںپر نظر رکھنا، پیٹھ پیچھے وار اور زہریلا پروپیگنڈا شامل ہے۔ گزشتہ دنوں کلبھوشن یادیو کی والدہ اور اہلیہ سے ملاقات کے بعد بھی بھارتی میڈیا نے پاکستان پر الزامات کا طومار باندھ دیا اور پاکستان کے اس حسن سلوک کو اس قدر منفی انداز میں پیش کیا کہ پاکستان کے خلاف سرجیکل سٹرائیکس کا بھی ذکر کر دیا۔ اگر ہم تھوڑا سا پس منظر میں جائیں تو بھارت کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہی مسلمان دشمنی پر مبنی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس سلسلہ میں بھارت نے اتنی رعونت کا مظاہرہ کیا کہ ہمیشہ پاکستان کی طرف سے بڑھایا جانے والا دوستی کا ہاتھ جھٹک دیا۔ دوسری طرف اس نے اقوام عالم میں یہ تاثر دیا کہ پاکستان اپنی بے تدبیری اور نااہلی کی وجہ سے کشمیر اور اس سے ملحقہ ہر مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہی طریقہ کار کلبھوشن یادیو کے سلسلہ میں اپنایا گیا لیکن چونکہ پاکستان نے کلبھوشن یادیو کو اپنی زمین سے پکڑا لہٰذا پاکستان کیلئے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ اقوام عالم پر بھارت کا اصل چہرہ واضح کرے کہ بھارت کس حد تک پاکستان کی ترقی اور سالمیت کا مخالف ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت سی پیک معاہدہ بھی ہے جو بھارت کے لئے دردسر بنا ہوا ہے۔ کلبھوشن یادیو کی اسکی اہلیہ اور والدہ سے ملاقات کے بعد بجائے اس کے کہ بھارت شکرگزار ہوتا ایل او سی پر فائرنگ اور تین جوانوں کی شہادت بھارت کے جارحانہ عزائم کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔ درحقیقت ہمارے قبضے میں موجود کلبھوشن یادیو کا شمار ان جاسوسوں میں ہوتا ہے جو پاکستان کی سالمیت کے خلاف ہیں اور بھارت کے ریاستی اداروں کے اہلکار ہیں۔ بھارت اگر کلبھوشن یادیو کو واپس نہیں لیتا تو اس کے تمام خفیہ ایجنٹوں کیلئے یہ بات خوف کا باعث ہے جبکہ کلبھوشن کی گرفتاری اور سزا پاکستان کی سالمیت کا معاملہ ہے۔ ہم نے دشمنوں پر یہ واضح کرنا ہو گا کہ ہماری ملٹری اور سول قیادت پاکستان کی طرف اٹھنے والی ہر میلی نظر کا قلع قمع باآسانی کر سکتی ہے۔ ہمارا موقف اس لئے بھی مضبوط ہے کہ کلبھوشن یادیو نے خود بھارتی جاسوس ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ بنظر غائر دیکھا جائے تو ’’را‘‘ کو اپنی سرگرمیاں پاکستان میں تیز کرنے میں کوئی مشکل نہیں، اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں ہماری بھارت سے دوستی کی خواہش اور قومی مفاد کی بجائے سیاسی پارٹی کے مفادات کو ترجیح دینا شامل ہے۔ ہمیں ایک طرف تو خارجہ پالیسی میں نئے زاویئے اور نئے انداز کی ضرورت ہے دوسری طرف سیاسی پارٹیوں کے مفادات کی بجائے قومی مفاد کو اہمیت ہمارا اولین مقصد اور ترجیح ہونی چاہئے۔ بھارت کلبھوشن یادیو کے معاملہ پر بھی اسی حیلہ سازی اور زہریلے پروپیگنڈے پر تلا ہوا ہے کہ ملاقات کے دوران کلبھوشن اور اس کی والدہ اور اہلیہ کے درمیان شیشے کی دیوار حائل رہی۔ دوسری طرف کلبھوشن یادیو کے چہرے سے ریمنڈ ڈیوس جیسا تاثر بھی ملتا ہے کہ اس کو کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ درحقیقت بھارت نے پاکستان کے درست اور ٹھوس موقف کے سامنے بھی اتنی دیواریں حائل کیں کہ اب ہمیں دشمنوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ بھارت جتنا بھی شور مچا لے اسے یہ ماننا ہی پڑے گا کہ کلبھوشن اس کی طرف سے بھیجا ہوا جاسوس ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کروا رہا تھا۔ بھارت کا کلبھوشن کی ملکیت کو ماننا درحقیقت پاکستان کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ یہی وہ موقع ہے کہ ہم دنیا پر یہ واضح کر سکتے ہیں کہ بھارت پاکستان میں کافی عرصہ سے دہشت گردی کروا رہا ہے۔ اس موقع پر واضح حکمت عملی کی ضرورت ہے اور بھارت کی لمحہ لمحہ مکارانہ چالوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ حالات اور وقت نے یہ ہی ثابت کیا ہے کہ پاکستان کی طرف سے خیرسگالی کے جذبات کو بھی بھارت نے منفی تاثر سے زائل کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ بھارت کے لئے اس حقیقت سے آگاہ ہونا ضروری ہے کہ خود بھارت کے استحکام کیلئے اسے مستحکم پاکستان کی ضرورت ہے۔ ضرور ت اس امر کی ہے کہ ہم بھرپور طریقے سے اس مسئلہ کو حل کریں کہ پاکستان کی سالمیت اور وقار مضبوط ہو اور یہ تاثر ابھرے کہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ کو برداشت نہیں کیا جائیگا اور پاکستان ہر معاملہ کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024