پشاورسانحہ نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سول اور ملٹری قیادت پوری تندہی کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے سرجوڑ کر بیٹھی ہوئی ہے۔ 16 دسمبر کے فوری بعد آل پارٹیزکانفرنس ہوئی جس میں تمام قائدین نے شرکت کی جبکہ عمران خان نے نہ صرف دہشتگردی کیخلاف جنگ میں حکومت کی مکمل حمایت کافیصلہ کیا بلکہ 126 دنوں سے جاری دھرنا بھی ختم کرنے کا اعلان کیا۔ ان فیصلوں کے بعد24 دسمبر اور 26 دسمبر کو وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس ہوئے جس میں دورس نتائج کے حامل فیصلے کئے گئے۔
24 دسمبرکو وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں قومی پارلیمانی کانفرنس منعقد ہوئی اور رات گئے انہوں نے قوم سے خطاب کیا۔ وزیراعظم کے نیشنل ایکشن پلان (NAP) کے مطابق پھانسی پر عملدرآمد، فوجی افسران کی سربراہی میںخصوصی ٹرائل کورٹس، مسلح تنظیموں پر پابندی، ٹیکنا کو فعال بنانا، گردنیں کاٹنے والوں کے لٹریچر کے خلاف کارروائی، دہشتگردوں کی فنڈنگ اور وسائل ختم کرنا، کالعدم تنظیموں کوکام کرنے سے روکنا، اقلیتوں کا تحفظ، عسکریت پسندی کی مخالفت، دہشت گردی کی تشہیر پر پابندی، دینی مدارس کی رجسٹریشن، آئی ڈی پیزکی فوری واپس، دہشت گردوں کے معاشرتی نیٹ ورکس کاخاتمہ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر دہشتگردوں کی روک تھام، انتہا پسندی کے خلاف اقدامات، وسیع تر سیاسی مفاہمت کیلئے تمام سٹیک ہولڈرز کی طرف سے حکومت بلوچستان کومکمل اختیار،فرقہ واریت پھیلانے والوں کیخلاف کارروائی، افغان مہاجرین کی رجسٹریشن اور صوبائی خفیہ اداروں کو دہشتگردوں کے مواصلاتی رابطے تک رسائی دینے اور انسداد دہشتگردی کے اداروں کو مزید مضبوط بنانے کیلئے فوجداری عدالتی نظام میں بنیادی اصلاحات شامل ہیں۔اس اعلان کے بعد ایکشن پر عملدرآمد کیلئے کمیٹیاں قائم کر دی گئی ہیں اور پھانسی لگانے کے فیصلے پر عملدرآمد بھی ہو گیا ہے۔ ان تمام نکات میں سب سے اہم فیصلہ فوجی عدالتوں کا قیام ہے جس کیلئے آئین میں ترمیم کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ وزیراعظم کے اعلان کردہ نکات میں فوجی عدالتوں کے قیام پر بحث مباحثہ ہو رہا ہے۔ دیگر نکات پر کسی کو کوئی خاص اعتراض نہیں۔ باقی صرف ان پر عملدرآمد کیلئے Will to do ہونا چاہئے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان نکات پر پہلے کوئی پابندی تھی۔ سول حکومتوں کی کمزوری کی بدولت ان نکات پر ماضی میں عملدرآمد نہیں ہوا کیونکہ کوئی سول معاشرہ اس طرح کے اقدامات کی اجازت نہیں دیتا۔ سول حکومت کو دینی مدارس کا پہلے کیوں نہیں خیال آیا۔ سول حکومتوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ وہ اپنے اراکین کو خوش کرنے کے منصوبے بناتی رہتی ہیں لیکن قوم کے مستقبل پر توجہ نہیں دی جاتی۔ شکر ہے کہ ایکشن پلان میں دینی مدارس کا نکتہ بھی شامل ہے جو کہ بغیر کسی قانون قاعدے کے کام کر رہے ہیں۔ اس کیلئے قانون سازی ہونی چاہئے اور یہ کام وقتی طور پر نہیں ہونا چاہئے۔ جنرل ضیاءالحق نے دینی مدارس اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے استعمال کیا تھا جو کہ آج ملک کیلئے نقصان دہ محسوس ہو رہے ہیں لیکن تمام مدارس غلط نہیں ہو سکتے اس لئے اکثریت کو قانون سازی کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ دینی مدارس کی تعلیم کو پبلک اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہئے اور ایک ایسا تعلیمی نظام نافذ کرنا چاہئے جو کہ چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی نافذ ہو۔فوجی عدالتوں کا قیام کسی طرح بھی خوش آئند نہیں۔ ان کے قیام کے فیصلے کو قبول کر کے سیاستدانوں نے سول اور فوجی قیادت کے اشتراک کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان کے آئین اور جمہوریت میں فوجی عدالتوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ بہت بڑی بدقسمتی ہو گی اگر ہم نے آئین میں ترمیم کر کے فوجی عدالتیں بنا دیں۔ دوسری طرف یہ فیصلہ کر کے ہم سول عدالتوں پر بھی عدم اعتمادکا اظہارکریں گے۔ سوال یہ ہے کہ سول عدالتیں کیوں فوری انصاف فراہم نہیں کر سکیں۔ سول کورٹس، دہشت گردی کی عدالتیں، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے کیا مسائل ہیں کہ وہ پاکستان کے ایمرجنسی حالات میں جلد انصاف کی طرف نہیں بڑھ سکیں؟مجھے یاد ہے کہ جنرل جہانگیرکرامت نے فوج اور سول اشتراک کی بات کی تھی جس پر انہیں گھر بھیج دیا گیا لیکن فوج نے اس فیصلے کو کبھی قبول نہیں کیا اور آخرکار 1999ءکو جنرل مشرف نے اقتدار سنبھال لیا۔ آج بھی میاں نواز شریف کے اس اقدام کو انکے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے سچ یہ ہے کہ آج جنرل جہانگیرکرامت کے فارمولے پر عملدرآمد شرو ع ہو چکا ہے۔ (جاری)
امریکہ کا مسئلہ ہو یا افغانستان سے تعلقات مدنظر ہوں یا بھارت کے ساتھ دوستی کا آغاز تو کوئی فیصلہ فوجی قیادت کی رضا مندی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ میاں نواز شریف کی حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد ان معاملات پر آزادانہ فیصلے کرنے کی کوشش کی تھی لیکن بالآخر پسپائی اختیارکرنی پڑی۔ خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق نے بڑے تند و تیز بیانات بھی دئیے۔ جس پر شدید ردعمل کا اظہار ہوا۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ اور سارک کانفرنس میں بھارت اور کشمیرکے مسئلے پر اپنی آزادانہ سوچ کوختم کر کے فوجی اورقومی مو¿قف اپنایا جس کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ حکومت ختم کرنے کی کوشش کرنے والے اور ایمپائرکو آواز دینے والے ناکام ہو گئے۔خارجہ پالیسی کے بعد دفاعی امور پہلے ہی فوج کی مرضی کے بغیر نہیں چلتے تھے ان پر آج بھی کسی کی مرضی نہیں چل سکتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے کے بعد صحیح معنوں میں سول اور فوجی اشتراک کی حکومت شروع ہو جائے گی۔ فوجی عدالتوں سے جتنا مرضی انصاف ہو اسکو کوئی تسلیم نہیں کرتا۔ جمہوری معاشرہ میں جتنا مرضی ظلم ہو ریاست کبھی بھی انصاف کا دامن نہیں چھوڑتی۔ آئین میں آرٹیکل 8 کے تحت بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ اس میں ترمیم کر کے آپ کیا پیغام دینگے۔ اس طرح آئین کے آرٹیکل 10 میں حق دیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ
"For the determination of Civil rights and obligations or in any criminal charges against him a person shall be entitled in a fair trial and due process"
ان حالات میں اسکے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہو گا کہ پارلیمنٹ کو آرٹیکل8,10 اور 212 میں ترمیم کرنی پڑیگی۔ اس طرح یہ ترامیم کر کے آپ لوگوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم کرینگے۔
آصف زرداری نے بھی اپنے تحفظ کا اظہارکیا ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کو جیل بھی یاد آ رہی ہے لیکن وہ میاں نواز شریف کو بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں تاکہ دوستی پکی ہو جائے۔ جیل کی سیاست کا باب بند رہنا چاہئے۔ ملک کو آگے کی طرف لے جانا ہی پاکستان کیلئے ضروری ہے ۔
فوجی عدالتیں اور فوجی نظام میںکس کا تحفظ ہو گا اور کس کا نہیں۔ اس کا فیصلہ سویلین نہیں کر پائیں گے۔
کون دہشت گردی کے زمرے میں آئے گا اورکون نہیں اس کا فیصلہ بھی پھر فوجی ہی کریں گے۔
اگر مگرکے ساتھ نظام نہیں چلتا صاف اور کھل کر بات کرنی چاہئے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سول عدالتوں کو مضبوط کیا جائے تاکہ وہ آزادانہ اور فوری فیصلے کر سکیں۔ یادرکھنا چاہئے کہ سول عدالتیں کبھی بھی جلد فیصلہ نہیں کر سکتیں جب تک پراسیکویشن اپنا مقدمہ جلد اور مضبوط نہیں بناتی یہ سول اداروں کی کمزوری ہے۔ اپنی اس کمزوری کو چھپانے کا یہ حل نہیں کہ عدالتوں کو بے وقعت کر دیا جائے۔ اس طرح عدالتوں کا تحفظ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر حکومت عدالتوں کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہے تو اس کا بھی ہرگز ہرگز مطلب یہ نہیں کہ فوجی عدالتیں قائم کر دی جائیں۔ سول عدالتوں کو تحفظ دینے کے کئی طریقے ہیں وکلاءاور ججوں کو سیکرٹ ناموں اور شیشے کے کیبن بنا کر بٹھایا جا سکتا ہے۔ اس طرح گواہوں کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے انکی شناخت کو مخفی رکھاجا سکتا ہے ان تمام مقاصدکیلئے قانون بنانا چاہئے۔
پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ خفیہ ادارے ملک کے خلاف غیر ملکی سازشوں کی طرف توجہ دینے کی بجائے سیاستدانوں کی نگرانی کرتے رہے۔ سیاسی پارٹیوں کو نقصان پہنچانے کی طرف توجہ رہی۔ اصولی طور پر چاہئے یہ تھا کہ خفیہ ادارے دہشت گردی اور غیر ملکی سازشوں کی طرف بھرپور توجہ دیتے۔ اپنے نیٹ ورک کو مضبو ط کرتے۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس اپنی ذمہ داری پوری کرے۔ پولیس نہ صرف دہشت گردوں کوگرفتارکرے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عدالتوں اورگواہوں کا بھی تحفظ یقینی بنائے۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے سول عدالتوں کو فیصلے کرنے میںکوئی دیر نہیں لگے گی۔ اگر آپ آئین میں ترمیم کرنا چاہتے ہیں تو ضرور کریں لیکن یہ ترمیم سول عدالتوں کے ذریعے فوری انصاف کی ہونی چاہئے۔ پاکستان کے آئین کو (چاہے وقتی طور پر) فوجی عدالتوں کے قیام سے محفوظ رکھیں۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ اس طرح فوج کی دہشتگردوں کے خلاف کارروائی سے کوئی فرق پڑے گا۔ سول حکومت بلاشبہ فوجی قیادت سے مشورہ کرے لیکن فوج اور سول اشتراک کی حکومت کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ وزیر اطلاعات نے کیا خوب کہا ہے کہ ”فوجی عدالتیں جمہوریت بچانے کیلئے ہیں۔“ شاید پولیٹیکل سائنس میں جمہوریت کو بچانے کی نئی تعریف آئی ہے کیونکہ ماضی میں پرویز رشیدکے ساتھ جنرل پرویزمشرف نے کیا سلوک کیا تھا انکو بھول گیا ہے لیکن لندن جلاوطنی تونہیں بھول سکتی۔ اس طرح دفاع نہ کریں۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی فوجی عدالتیں نہیں بنائی تھیں فوجی عدالتیں بلکہ NAB بنائی تھیں جس کو کینگرو کورٹ کہا گیا تھا لیکن ان عدالتوں کے سربراہ سویلین بنائے گئے تھے اور جمہوریت کو تو پارلیمنٹ نے بچایا تھا۔ قوم نے جمہوریت کے خلاف سازشوں کا مقابلہ کیا تھا وگرنہ آپ کی جمہوریت تو جا رہی تھی۔ مجھے بتا دیں کہ کون ایمپائر تھا جس نے انگلی کھڑی کرنی تھی؟ ایک بڑی زیادتی ہوئی ہے کہ پرویز رشید نے اپنے پرانے دوست کا خیال نہیں رکھا اس کا کچھ تو بھرم رکھنا چاہئے تھا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آل پارٹیزکانفرنس اور کمیٹیوں کے اجلاس شیخ رشید کے بغیر پھیکے پھیکے رہے۔ شیخ رشید کی خواہش پر تھرڈ ایمپائر نہ آیا۔ دسمبر ختم ہونے والا ہے حکومت ختم نہ ہوئی حکومت کو چاہئے تھا کہ پرانے تعلقات کے مدنظر شیخ رشید کو بھی اجلاس میں بُلا لیتے۔ اس طرح شیخ صاحب زندہ تو نظرآتے! سیاستدانوں کو حکومت ختم کرانے کے خواب دیکھنے کی بجائے جمہوریت کومضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024