دسمبر کا رومان پرور مہینہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ 2014ءنے بھی الوداع کیلئے ہاتھ اٹھا لیا۔ 2014ءمجموعی طورپر ایک اچھا سال نہیں گزرا۔ ہر نئے دن میں نیا خم‘ نئی اذیت‘ نئی تکلیف‘ نئی پریشانی اور ہر گھنٹے بعد خبروں کے نام پر بڑی خبروں کے انبار.... سارا اخبار لڑائی جھگڑوں‘ قتل و غارت‘ بم دھماکوں‘ مظاہروں‘ احتجاجوں‘ دھرنوں اور الزام تراشیوں والی خبروں کا پلندہ بنا رہا۔ زیادہ سے زیادہ ہمارے اخبارات نے انٹرٹینمنٹ کے نام پر میرا کی واہیات‘ بے ڈھنگی اور بدمزہ باتوں کو خبریں بنا کر پیش کرنا شروع کر رکھا ہے جس سے کسی تانگے ریڑھے یا ویگن ڈرائیور کی تو تفریح طبع ہو سکتی ہے مگر عام لوگوں کو میرا‘ وینا ملک‘ یا شاہدہ منی جیسی عورتوں سے نہ دلچسپی ہے نہ ہی ایسی فنکاراﺅں کا کوئی معیار ہے۔ نہ ان کی کوئی پرفارمنس ہے نہ ملک میں فلم انڈسٹری چل رہی کہ ان کا کام چلے۔ پرفارمنس کے نام پر تو اس سال بلاول بھٹو اور مریم نوازشریف نے بچوں کی طرح ایسے ٹوئٹ ٹوئٹ کھیلا ہے جیسے بچے پہلے کبھی ویڈیو گیم کھیلا کرتے تھے۔ یہ ان کی سیاسی کارکردگی ہے اور یہ ان کا سیاسی کردار ہے۔ بلاول بھٹو کو تو نوبل پرائز ملنا چاہئے کہ اپنی عظیم ماں‘ دختر مشرق اور دنیائے اسلامی کی پہلی خاتون وزیراعظم کا بیٹا اپنی ماں کی ساتویں برسی پر لندن سے لاڑکانہ نہیں آسکا۔ ٹوئٹر پر ڈیڑھ جملہ لکھ کر بلاول بھٹو نے اپنی سیاسی بصیرت اور ماں سے عقیدت کا ثبوت دیدیا ہے۔ اس میں ایک جملہ تو اپنے ابا جان اور اپنے متعلق ہے کہ ”میں تیر ہوں اور زرداری کمان ہیں۔ “ آدھا جملہ بینظیر بھٹو کے متعلق ہے کہ ”زندہ ہے بی بی۔“ آہ بینظیربھٹو شہید! ایک اتنی بڑی اور عظیم عورت کا ایسا بیٹا .... نوجوان بےٹا شوہر کے ہوتے ہوئے اتنی بڑی لیڈر کے قاتل نہیں پکڑے گئے۔ بیٹے کو ماں کی برسی پر آنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ شرجیل میمن نے کافی دلچسپ بہانہ گھڑا ہے۔ شرجیل میمن نے بلاول کے نہ آنے پر عذر پیش کیا ہے کہ ”ڈاکٹروں نے بلاول کو سفر سے منع کیا ہے“ بلاول نہ ہی کوئی عمر رسیدہ ضعیف بزرگ ہے کہ اس کے گٹے گوڈوں میں درد ہے‘ نہ اس کے نظام تنفس میں کوئی پرابلم ہے۔ہارٹ پرابلم.... پھر ڈاکٹروں نے بلاول کو سفر سے بھلا کیوں منع کا ہے جبکہ ابھی دو دن پہلے 25 دسمبر کو بلاول اور بختاور کرسمس مناتے ہوئے خوب ہلہ گلہ کر رہے تھے مگر برسی پر صرف آصفہ بھٹو اپنی ماں کی قبر پر دوپٹہ اوڑھے پھول چڑھا رہی تھی۔ شیخ رشید کی پیشن گوئی درست ہے کہ بلاول ”بلو رانی“ ہے۔ بلاول اور بختاور میں سیاسی اہلیت کا فقدان ہے۔ بینظیر بھٹو کی اصل وارث آصفہ ہے۔ نوازشریف نے بھی اپنی سالگرہ کا دن 25 دسمبر رکھا ہے اور حیرت ہے وہ ابھی 65 سال کے ہی ہوئے ہیں۔ نوازشریف ساٹھ کے دائرے سے باہر ہی نہیں آتے۔ خیر میاں نوازشریف نے واجپائی کو ان کی سالگرہ پر گلدستے کا تحفہ بھیجا‘ تحائف دینے کے معاملے میں میاں نوازشریف بہت سخی ہیں۔ ویسے تو اسی دسمبر میں ہماری بھی سالگرہ گزری۔ بھارت نے دو سالہ دوراقتدار میں میاں نوازشریف کے تمام تحائف‘ خطوط‘ خیر سگالی پیغامات‘ مصافحے اور دورے کے باوجود سرد‘ سخت اور تند رویہ کیا ‘ کیا وارننگ نہیں.... امریکہ اور نیپال میں نریندر مودی کا ناروا انداز اور تضحیک آمیز رویہ کافی نہیں تھی۔ نریندر مودی بھی ٹوئٹ کے معاملے میں بلاول بھٹو کا تایا ہے۔ ذرا ٹوئٹ ملاحظہ فرمایئے کہ ”آپ کی اچھی صحت کیلئے دعاگو ہوں۔“ یہ تو سراسر لطیفہ ہے۔ نریندر مودی کو نہیں پتہ کہ اس کی دعا کے بغیر بھی میاں نوازشریف کی صحت اچھی رہے گی۔ یہ ایسا ہی لطیفہ ہے جیسے بلاول نے ٹوئٹ کیا کہ ”بی بی زندہ ہے۔“ پاکستان میں اس مرتبہ جس طرح قائداعظم کی سالگرہ منائی گئی اور جس طرح اردو کے ساتھ سوتیلوں سے بدتر سلوک کیا جا رہا ہے اس کے بعد کسی تبصرے یا ماتم کی ضرورت تو نہیں‘ لیکن دھرنوں کے درمیان عمران خان کے پرستاروں نے جس طرح عمران خان اور قائداعظم میں مماثلت قائم کرنے کی کوشش میں استغفراللہ یہ بھی مذموم حرکت کر ڈالی کہ جمائما کو ”رتی جناح“ سے ملانے کی کوشش کی۔ واضح رہے کہ رتی جناح قائداعظم کے عقد میں تھیں۔ انہوں نے طلاق نہیں لی تھی۔ دوسری طرف میاں نوازشریف بھی خود کو قائداعظم ثانی ثابت کرنے کیلئے تاریخ پیدائش اور ایک آدھ مماثلت تلاش کرتے رہتے ہیں۔ قائداعظم جیسا بننے کیلئے ان کی طرح ایماندار‘ مخلص‘ محنتی‘ ذہین اور قربانیاں دین والا ہونا چاہئے۔ قائداعظم کی طرح اٹل‘ بے لوث اور ایثار پسند ہونا آسان نہیں۔ پہلے دونوں لیڈر یہ خوبیاں تو اپنائیں۔ ہر شخص قائداعظم نہیں بن سکتا۔ شکر ہے کہ آصف زرداری نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا۔ آصف زرداری کو پہلے کبوتروں‘ مرغوں‘ گھوڑوں سے شغف تھا۔ اب کچھ عرصے سے وہ بلوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں۔ آصف زرداری کو فوبیا ہو گیا ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ بلا کبھی دودھ پی جاتا ہے اور کبھی بلا سازشیں کرنے لگتا ہے۔ مصلحتوں کی پُو پھوٹے گی تو نئی صبح روشن ہوگی۔ دھرنے ختم ہوئے‘ اس کے بدلے کافی لین دین طے ہوا۔ دنوں فریق آدھے ہارے ہیں تو آدھے جیتے ہیں۔ یہی ہماری سیاست کا چلن ہے۔ جو مفادات کے گرد گھومتا ہے۔ کارکن ناحق احمق بنتے‘ وقت ضائع کرتے‘ ماریں کھاتے اور مرتے جاتے ہیں۔ اس سال کا بدترین سانحہ پشاور ہے جس نے معصوم بچوں سمیت ڈیڑھ سو افراد کو شہید کر دیا۔ یہ سال خوشیوں کیلئے ترستے گزر گیا۔ اس سال کی اتنی چھوٹی چھوٹی ‘ کڑوی کڑوی باتیں ہیں جن کی یادیں دیو اور جنوں کی طرح بڑی بڑی ہیں۔ ہم ہر سال کی ابتدا امیدوں کی انگلی پکڑ کر کرتے ہیں‘ خدا کرے.... اس سال تو ہماری امیدیں بر آئیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024