شر کبھی بھی منبع خیر نہیں بن سکتا۔ البتہ شر سے خیر کا پہلو ضرور نکل سکتا ہے۔سولہ دسمبر کو دہشتگردوں کی درندگی کے بعد یہ تو ہوا کہ تمام سیاسی ومذہبی جماعتیںاپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر دہشتگردوں کے خاتمے کی جنگ میں متحد ہوگئیں۔یہ جنگ فوج لڑ رہی تھی، حکومت رسماً اس کا ساتھ نبھا رہی تھی۔سولہ دسمبر کو جس بربریت سے پبلک ملٹری سکول پشاورمیں سینکڑوں بچوں کو خون میں نہلایا گیا اسکے بعد پاکستان میں ایک طاقتور آرمی کے ہوتے ہوئے حکومت کے پاس اس کے شانہ بشانہ ہونے کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں تھا۔ جب حکومت دہشتگردوں کے خاتمے کے عزم کے ساتھ پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہو گئی تو قوم بھی پیچھے نہ رہی۔ ملٹری سکول پر بربریت کے بعد تحریک انصاف نے دھرنا ختم اور شہروں کو بند کرنے کا پروگرام منسوخ کردیا۔عمران خان وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی طرح طالبان کیلئے نرم گوشہ رکھتے تھے،ملٹری سکول کی بربریت پر وہ بھی آزردہ ہوئے۔اب وہ بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بجائے ان کےخلاف اپریشن پر قائل ہوچکے ہیں۔اب تک تو دہشتگردوں کی حمایت میںکوئی قابل ذکر آواز بلند نہیں ہوئی البتہ مولانا عبدالعزیز نے اس سفاکیت کی مذمت کرنے سے انکار کیا تھاجس کی کوئی اہمیت تو نہیں ہے تاہم یہ شر کو شہہ دینے کے مترادف ضرور ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔حکومتی سطح پر ان کامحاسبہ ہورہا ہے۔حکومت کی طرف سے دہشتگردوں کیساتھ ساتھ انکے سہولت کاروں اور حامیوں کیخلاف بھی کارروائی کا فیصلہ کیاگیا۔مولوی صاحب اسی ضمن میں دھر لئے جائینگے جو کئی کیلئے عبرت کا نشان ہونگے۔جس سرعت کیساتھ حکومت کی طرف سے دہشتگردی اور دہشتگردوں کے خاتمے کا عزم ظاہر کیا گیا تھا اس میں ہر گزرتے دن کیساتھ کمزوری آتی محسوس کی جارہی ہے۔دوچار روز میں تو دہشتگردوں کو پھانسی دینے کا عمل بڑے عزم اور ادارے کیساتھ جاری رہا، اب اس پر بھی اوس پڑتی نظر آتی ہے۔کچھ دہشتگردوں کو لاہور میں پھانسی لگانے کی تیاریاں ہونے کا تاثردیا گیا،جو شیڈول سامنے آیا اس پر بھی دوتین روز کا وقفہ ڈالا گیا۔ اس دوران لواحقین لاہور ہائی کورٹ چلے گئے جہاں سے سٹے آرڈر جاری ہوگیا۔اس پر میاں نواز شریف تلملائے اور اسکے خاتمے کیلئے اسی عدالت سے رجوع کرکے سٹے آرڈر ختم کرایا۔اس عمل کو بھی دوہفتے ہونے کو ہیں مگر کسی کو بھی اس سزا سے ہمکنار نہیں کیا گیا جس کے تمام تقاضے مکمل ہوچکے ہیں۔دہشتگردوں ان کے سہولت کاروں اور حامیوں کیخلاف بھی کارروائی کا عزم ظاہر کرنے والے حکمران جائزہ لیں کی انکی صفوں میں بھی دہشتگردوں کے سہولت کار تو موجود نہیں ہیں۔
دہشتگردوں کے خاتمے کا مشن حکومت نے فوج کو سونپ رکھا ہے۔اب فوجی عدالتیں بھی بنائی جارہی ہیں۔ جمہوری دور میں فوجی عدالتوں کا قیام جمہوری حکومت کی طرف سے عدلیہ پر عدم اعتماد ہے اور فوج کا سول میں عمل دخل بڑھانے کے مترادف ہے۔ کل کلاں یہ خود حکومت کے گلے کا پھندہ بھی بن سکتا ہے۔افسوس تو سیاسی ایلیٹ کے فوجی عدالتوں کے قیام کے اتفاق رائے پر ہے۔تمام جماعتوں نے فوجی عدالتوں کے قیام پر آمادگی ظاہر کی اب کچھ لیڈر کہتے ہیںکہ اصولی طور پر فوجی عدالتوں کے حق میں نہیں ہیں۔اگر اصولی طور پر انکے حق میں نہیں ہیں تو بے اصولی پر آمادگی کیوں ظاہر کی۔اسے منافقت کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے۔دراصل تمام جماعتیں فوج سے خائف ہیں۔خوف کی وجہ اس کی فوجی عدالتیں بنانے کی تجویز مان لی اور اب اصولی اور بے اصولی کی بحث میں پڑے ہوئے ہیں۔متحدہ کو اپنی ناﺅ ڈوبتی نظر آتی ہے اور آصف علی زرداری کو اپنے گردشکنجہ کستا محسوس ہورہا ہے۔انکو بے نظیر بھٹو کی برسی پر بھی فوجی عدالتوں کا قیام بے چین کئے رہا۔وہ کہتے ہیں کہ ” فوجی عدالتوں کا غلط استعمال نہیں ہونے دینگے۔ دہشت گردوں کے ٹرائل کیلئے خصوصی عدالتوں کی حمایت صرف اس شرط پر کی ہے کہ ان کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا جائیگا۔ کہیں ایسا نہ ہو ہم پر اسی قانون کے تحت مقدمہ چل رہا ہو میں، میاں نواز شریف اور سارے سیاستدان اسی قانون اور ان عدالتوں کی وجہ سے جیل چلے جائیں۔“ اگر اتنی جرات ہے کہ فوجی عدالتوں کی غلط استعمال نہیں ہونے دینگے تو اپنے جیل جانے کے خدشات کیوں؟ اگر ایسے کام ہی نہیں کئے کہ جیل جانا پڑے تو بھی ان عدالتوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ چونکہ اپنے اعمال اور کردار سے بخوبی واقف ہیں اس لئے مجوزہ فوجی عدالتیں ہوّا نظر آتی ہیں۔ممتاز بھٹو کہتے ہیں کہ کرپشن کیسز کو بھی فوجی عدالتوں میں چلایا جائے۔ ایسا ہوجائے تو ہماری جمہوریت کرپشن سے پاک ہوسکتی ہے۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام سے جمہوریت مضبوط ہوگی۔اگر عدلیہ اپنا کردار جرات سے ادا کرے تو فوجی عدالتوں کی ضرورت نہیں رہتی۔ایسا کردار عدلیہ ادا بھی کرتی رہی ہے گو یہ کردار محدود رہا ہے۔آج جیلوںمیں دہشتگردی میں ملوث پانچ سوکے قریب دہشتگردسزائے موت کے منتظر ہیں ان کو عدلیہ نے ہی سزائیں سنا رکھی ہیں۔آج بھی نڈر اور انصاف کے تقاضے پورے کرنیوالے جج موجود ہیں۔ ایسے جرات مند جج موجودہ خصوصی عدالتوں میں تعینات کردیئے جائیں تو فوجی عدالتیں بنانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔عمران خان نے دھرنا ختم کر کے دہشتگردوں کے خاتمے کیلئے حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا تو حکومت کیساتھ ساتھ عوام نے بھی سُکھ کا سانس لیا۔ایسا سکھ شاید حکومت کو گوارہ نہیں۔تحریک انصاف کو شکوہ ہے کہ حکومت جوڈیشل کمیشن کے قیام میں سنجیدہ نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی کور کمیٹی کااجلاس عمران خان کی زیر صدارت ہوا جس میں کہا گیا کہ تحریک انصاف دھاندلی سے متعلق تحقیقات کے مطالبے پر قائم ہے، تعاون کا مطلب دھاندلی کے موقف سے پیچھے ہٹنا نہیں۔ پی ٹی آئی مزید لچک نہیں دکھا سکتی۔ جوڈیشل کمیشن سے متعلق 3 نکات پر ڈیڈ لاک موجود ہے۔ حکومت نے تینوں نکات پہلے تسلیم کرلئے تھے، اب بھی احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ جوڈیشل کمشن نہ بنا تو احتجاج کرینگے ۔۔۔حکومت جوڈیشل کمیشن کے حوالے سے لیت ولعل سے کام نہ لے۔ عمران خان دوبارہ احتجاج کے راستے پر چل نکلے تودہشتگردوں کے خاتمے کی جنگ متاثر ہوگی جسے فوج کسی صورت قبول کرنے پر تیار نہیں ہوگی۔اس کا لامحالہ سب سے زیادہ نقصان حکمران پارٹی کو ہوگا، ہو سکتاہے جمہوریت ہی ڈی ریل ہوجائے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024