پشاور میں 150 جانوں کے نقصان کے بعد نازک حالات کے پیش نظر عمران خاں نے وسیع تر قومی مفاد میں درست وقت پر دلیرانہ فیصلہ کیا اور اپنی احتجاجی تحریک‘ دھرنا‘ ملک بند کرنے کا پروگرام ختم کر دیا۔ اس طرح کپتان نے سخت ترین موقف کو قومی ہم آہنگی میں تبدیل کرکے وزیراعظم میاں نواز شریف سے ”دوستی“ کا شیک ہینڈ کر لیا۔ ملکی فضا ماتم زدہ تھی۔ دھرنا‘ انتشار‘ آگ‘ مار دھاڑ کا احتجاجی پروگرام ختم کرنا وقت کا تقاضا تھا۔ بلند وبانگ دعوﺅں اور دھمکیوں میں عمران خان کا کوئی ثانی نہیں! انتہا پر پہنچنے کے بعد انکے پاس واپسی کا دروازہ باقی بچتا ہی نہیں! شدت پسندی‘ سخت گیری‘ نیم آمرانہ حاکمانہ فیصلے عمران خان کو بند گلی میں پہنچا دیتے ہیں پھر ”مناسب موقع“ قسمت سے ہی ملتا ہے! انہیں اپنے غلط فیصلوں‘ اندازوں‘ تجربوں کے بعد اب پختہ سیاستدانوں والے حکمت و بصیرت‘ عملی زمینی حقائق پر مبنی فیصلوں کی عادت اپنانا ہو گی۔ اب 63 سال کی عمر میں جوان خون والے 30 سال کی عمر کے ناتجربہ کار جیسی جلد بازی والی سیاسی حکمت عملی تبدیل کر دینا چاہئے۔ 126 دن یا زائد کے دھرنے‘ احتجاج‘ جلسے‘ جلوسوں نے واقعی قوم کو ”جگا“ دیا۔ سیاسی شعور‘ حقائق‘ کرپٹ سیاستدانوں کی اقربا پروری‘ خاندانی بادشاہت‘ غلط پالیسیوں‘ آئینی معاملات کا بہتر ادراک‘ اپنے ووٹوں کے تقدس کا بے پناہ شعور‘ ریاستی اداروں کے نقائص‘ قانونی و آئینی موشگافیاں اور مستقبل کے منصوبے عمران نے 50 مرتبہ دہرا کر ازبر کرا دئیے۔ یہ شاید انتخابی مہم میں بھی ممکن نہ ہوتا نہ اتنے جلسے جلوس ہو سکتے۔ اربوں روپے سے بھی ایسی تشہیری مہم چینلوں پر نہ چلائی جا سکتی۔ عمران خان نے تحریک انصاف کا پروگرام ایک ایک کچے گھر‘ کوٹھڑی تک پہنچا دیا ہے لیکن اب آگے چلنا ہے۔ مظاہروں‘ ہڑتالوں‘ احتجاجی پرتشدد مظاہروں‘ گولی لاٹھی کے پروگراموں سے بہت آگے!! کم از کم دو سے تین ماہ آئینی‘ قانونی‘ صحافتی پروپیگنڈہ ”جنگ“ لڑنا ہو گی نہ افواج پاکستان کو ملک بند کروا کر بڑے امتحان میں ڈالنے کی ضرورت ہے نہ پچاس جوانوں کا ملک بھر میں بے گناہ خون خرابہ کی ضرورت! ملک بند کر دینا کوئی معمولی بات نہیں! ایم کیو ایم ایک سال میں 12 مرتبہ صرف کراچی بند کرتی ہے تو 10 ارب سے زائد کا نقصان ہو جاتا ہے۔ سالانہ بے پناہ نقصان! ملک بند کرنے کا مقصد جمہوریت کو خطرات میں ڈالنا ہے یہ تباہی کا راستہ ہے! اگر ”پریشر تکنیک“ کے طور پر بھی ہو تو بھی سکیورٹی فورسز کی تعیناتی‘ نظم و ضبط‘ انتظامات پر اربوں روپے خرچ ہو جائینگے۔ یہ بڑا قومی نقصان ہوتا ہے! کپتان کو نئی سیاسی پالیسی کی جانب آنا چاہئے۔ قومی اسمبلی کے 36 حلقوں میں انتخابی عذرداریاں پی ٹی آئی نے جمع کرائی تھیں زیادہ سے زیادہ یہ انتخابی عدالتی ٹربیونل میں گنتی‘ تحقیقات کے عمل میں شامل کر لیں۔ آغاز خواجہ آصف‘ جہانگیر ترین‘ خواجہ سعید رفیق اور ایاز صادق کے حلقوں سے فوراً کیا جائے۔ طریق کار جلد طے ہو جائے گا۔ عمران خان خط لکھ کر سپریم کورٹ ٹربیونل کو دیں کہ جو بھی فیصلے آئینگے وہ مجھے قبول ہونگے! نہ تضحیک آمیز زبان اور رویہ اپناﺅں گا نہ ہی ججوں کی ”درگت“ بناﺅں گا ہر فیصلہ غیر مشروط قبول ہو گا“ 45 دن کے اندر 12 قومی حلقوں کا فیصلہ بہرحال آنا چاہئے اگر 15 یا 20 حلقوں میں چند ہزار کی بے ضابطگی‘ جعلسازی ثابت ہو تو وہاں قومی اسمبلی کے دوبارہ انتخابات کروا دئیے جائیں۔ کپتان کا 242 قومی حلقوں میں دھاندلی کا الزام بچگانہ اور بالکل ناجائز ہے۔ الیکشن کمیشن میں اگر آپ کے امیدواروں نے اعتراضات کی اپیلیں وغیرہ نہیں کی تھیں تو اب 40 کے بجائے 242 قومی حلقوں کا دھاندلی زدہ ہونا سخت ناانصافی کا معاملہ ہے!کپتان کو کم از کم 90 دن مذاکرات‘ کچھ لو کچھ دو‘ سیاسی استحکام‘ دہشت گردی کی جنگ کیلئے پرامن قومی ماحول پر صبر اور حکمت سے چلنا چاہئے۔ وہ اپنا کیس عوامی، عدالتی اور فوجی حلقوں تک بہ خوبی پہنچا چکے ہیں۔ اب ”ٹیبل ٹاک“ پر جم کر رہیں اور اپنے مطالبات قائداعظم محمد علی جناح کے رول ماڈل کی طرز پر آئینی و قانونی جدوجہد سے منوائیں! حکومت عملی تعاون اور عملدرآمد پر آمادہ ہے۔ کپتان نے دھرنا شرائط کیساتھ ختم کرکے بال حکومت کے کورٹ میں پھینک دی۔ اب حکمران اپنا اور ملک کا مزید بیڑہ غرق کرانے کیلئے حیلے بہانے‘ چونکہ‘ اگر مگر‘ جانچنے والے نکات اٹھا اٹھا کر مذاکرات کو ڈیڈ لاک تک نہ پہنچائیں تمام قومی حلقے حکومت کو ہی تاخیری حربوں کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔ خواہ پی ٹی آئی کے بعض تحقیقاتی طریقہ کار کے مطالبات ناجائز ہی ہوں۔ دہشت گردی نے تمام قوم کو ترجیحات تبدیل کرنے یر یکسو کر دیا۔ اب نہ دوبارہ چار سے چھ ماہ جلاﺅ گھیراﺅ‘ پکڑ دھکڑ‘ قید‘ آنسو گیس‘ شیلنگ‘ دھرنے‘ ریلیوں‘ گولیوں کی گنجائش ہے نہ ہی دہشت گردی سے نجات میں کوئی رکاوٹ کسی قومی حلقے کو قبول ہو گی۔ یہ زمینی حقائق ہیں۔ اب کپتان کو ایک بڑا فیصلہ جلد کرنا لازم ہے۔ وہ یہ کہ حکومت سے اپنے جائز مطالبات منوائیں اور انتخابی اصلاحات کیلئے قومی اسمبلی میں ترامیم کروا کر ہمیشہ کیلئے دھاندلی کا راستہ بند کروانے کیلئے استعفے واپس لے لیں یہ ملکی مفاد اور نظام مملکت کیلئے بہت ضروری ہے۔ حکومت عمران خان کے مطالبات مان لے مزید 7 دن بھی ضائع نہ کئے جائیں جب 15 دن میں عمران ”فاتح“ بن جائیں تو وہ قوم سے خطاب یا پریس کانفرنس کرکے اپنے تمام استعفے واپس لینے کا اعلان کریں اور مارچ میں سینٹ میں اپنے اصلی انقلابی تبدیلی کے نمائندہ جوانوں کو سنیٹر بنوائیں نہ کہ ارب‘ کروڑ پتی‘ جاگیرداروں یا مشرف کے بوٹ پالش کرنے والوں کو! ورنہ ان کی ”تبدیلی“ پہلے ہی تماشا بن چکی ہے۔ مشرف کا ایک بھی ساتھی آئندہ پی ٹی آئی کا نمائندہ سنیٹر نہ بنے ورنہ تمام پاکستان کپتان کا مذاق میڈیا پر اڑتا ضرور دیکھیں گے! میاں محمد نواز شریف اینڈ کمپنی ملکی استحکام کیلئے کپتان کے ”عملی تعاون“ اور نرم پالیسی کی قدر کرے ورنہ دوبارہ ”میدان سجا“ تو کپتان کو روکنے والا کوئی نہیں ہو گا!
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024