سابق صدر آصف علی زرداری تو مردِ حُر ہیں۔ طویل عرصے تک اسیری کو گلے لگائے رکھا۔ اب جبکہ ملک حالت جنگ میں ہے‘ دہشت گردی نے حصار باندھ رکھا ہے۔ اس ناسور کو ختم کرنے کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ ہو چکا ہے تو آصف زرداری کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ کہیں فوجی عدالتوں کا غلط استعمال ہو جائے اور میں اور میاں صاحب دونوں اندر ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں کا غلط استعمال نہیںہونے دینگے۔ زرداری صاحب کو اس خدشے کا شکار نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ جو کوئی بھی دہشت گردی کا مرتکب ہوگا‘ پھندا اسے اپنی لپیٹ میں ضرور لے گا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے فوجی عدالتوں کا قانون خواہ مخواہ سیاستدانوں اور صحافیوں کیخلاف استعمال ہو‘ تاہم قانون میں کوئی تخصیص نہیں ہوتی نہ ہی کوئی گائے مقدس ہوتی ہے۔ جنرل پرویزمشرف کیخلاف ایک درجن مقدمے اس بات کی شہادت نہیں دے رہے۔
فوجی عدالتوں کے قیام سے عام پُرامن شریف شہری کو کوئی تشویش نہیں ہے۔ فکرمندی میں وہ عناصر مبتلا ہیں جو طالبان دہشت گرد ہیں یا انکے نظریاتی ہم نوا ہیں۔ غم کے مارے وہ لوگ ہیں جن کے جرائم نے انسانیت کے سر جھکا دیئے ہیں۔ بات تو حد سے کب کی گزر چکی تھی۔ بس مصلحتیں آڑے آرہی تھیں۔ مصلحتوں کا دوسرا نام ڈر اور خوف ہے۔ دشمن سے ڈر ہی لگتا ہے‘ لیکن دشمن کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔
27 دسمبر 2007ء کو دہشت گردوں نے بینظیر کی جان لی تھی۔ محترمہ شہید کے شوہر آصف علی زرداری کی 5 سالہ صدارت بھی قاتل کا چہرہ بے نقاب نہ کر سکی۔ زرداری دور کی خرابیوں کا تسلسل آج بھی چل رہا ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ شہر آنے کے بعد بھی جاری ہے۔ بجلی کا شارٹ فال 7 ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکا ہے۔ نہروں کی بھل صفائی شروع ہونے پر لوڈشیڈنگ مزید بڑھ جائے گی۔ غریب ارکان پارلیمنٹ آج بھی ایک دھیلے کا ٹیکس نہیں دیتے۔ آئی ایم ایف نے تصدیق کر دی ہے کہ سیاسی اور سکیورٹی خدشات پاکستانی معیشت کیلئے سنگین خطرہ ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری فی الحال تو آرزو تک محدود ہے۔ سانحہ پشاور کے ذمہ دار طالبان دہشت گرد ہیں تو تھرپارکر میں 25 روز میں 100 پھولوں کو مسلے جانے کا ذمہ دار کن دہشت گردوں کو قرار دیا جائیگا؟ کیا ان ہلاکتوں کے ذمہ داروں کو فوجی عدالتوں میں لایا جائیگا اور کیا سانحہ ماڈل ٹائون کے ذمہ داروں کی ایف آئی آر بھی کسی فوجی عدالت کے سپرد کی جائیگی۔
کسی بھی معاملے میں میڈیا کبھی ایک پیج پر دکھائی نہیں دیا حالانکہ دہشت گردوں نے میڈیا کو بھی نہیں بخشا۔ گزشتہ 12 سال میں 100 سے زائد صحافی جاں بحق ہوئے۔ بعض مقدمات سالہاسال سے زیرالتوا ہیں۔ فوجی عدالتوں کے ناقدین یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ملکی عدالت نے ایک عرصے سے پھانسی کی سزائیں دے رکھی تھیں۔ ان کی رحم کی اپیلیں تک خارج ہو چکی تھیں۔ دہشتگردوں کی سزائوں پر عملدرآمد نہ ہونے سے انکے حوصلے بڑھنے لگے تھے اور حکومتی رٹ کمزور پڑتی جا رہی تھی۔ امریکہ نے 9/11 سے سبق سیکھا۔ کیا سانحہ پشاور 9/11 سے کم ہے جسکے بعد بھی ہم سوئے رہے۔ ہمارے ہاں دہشتگردی کے سانحات پر ضخیم کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ اقلیتوں کی بستیوں کی بستیاں جلا دی گئیں۔ بلوچستان میں زائرین کو بسوں میں جلا کر بھون دیا گیا۔ مساجد‘ امام بارگاہوں اور ماتمی جلوسوں کے شہداء کی صحیح تعداد کا تو اندازہ ہی نہیں۔ نہ جانے کونسا مذہب اور عقیدہ ہے ان درندوں کا جنہوں نے نہ چرچ چھوڑا نہ مساجد اور نہ مزارات ۔ مولانا عبدالعزیز کے ہم نوا مذہبی لبادے میں رہنمائوں کے ظلم کو جانتے ہوئے بھی ظالم نہ کہا۔ طویل دورانیے کے تین مارشل لاء برداشت ہی نہیں۔ ویل کم کئے‘ لیکن دو سال کیلئے فوجی عدالتیں ان کی نیندیں اڑارہی ہیں۔ سانحہ مشرقی پاکستان‘ بھٹو کی پھانسی‘ بینظیر بھٹو کی شہادت‘ دہشتگردی کے ایک سے بڑھ کر ایک سانحات کے بعد پُرسے دیئے گئے۔ سبق سکھانے کے اعلانات ہوئے‘ اعلیٰ سطحی اجلاس ہوئے‘ قوانین بدلنے کی باتیں ہوئیں حالانکہ قوانین کی بھرمار ہے کہ خود حکمرانوں کو ان کا علم نہیں۔ دہشتگردی کیخلاف فیصلہ کن جنگ اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچی۔ دہشت گردوں کا صفایا نہ کیا تو خدانخواستہ پاکستان نہیں رہے گا۔ اس وقت ہر پاکستان دشمن‘ سماج دشمن‘ اسلام دشمن کیخلاف بلا امتیاز ضرب عضب کی ضرورت ہے۔ اشیائے خوراک میں ملاوٹ کرنے والے‘ زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنیوالے‘ ناجائز کمائیاں کرنیوالوں کیخلاف بھی ضرب عضب سماج کو غسل دے سکتا ہے۔ دہشتگردی کے ساتھ ہر نوع کی کرپشن کا خاتمہ بھی پاک سرزمین کی سلامتی کیلئے ناگزیر ہے۔دہشتگردی کے شجر سے پتے جھاڑے جا رہے ہیں‘ لیکن تناور درخت کی جڑیں گہری ہیں۔ 13 سال میں 410 خودکش حملوں میں 558780 جانیں چلی گئیں۔ دہشتگردی کے درخت کو تناور بنانے میں پیسہ کہاں سے آتا رہا ہے۔ فنڈز کے بارے میں بھارت‘ ایران اور عرب ممالک کے نام لئے جاتے ہیں۔ اصل بات دہشت گردوں کی فنانسنگ کا پتہ لگانا ہے۔ یہ بات نیشنل ایکشن پلان کا اہم جزو ہونی چاہئے۔ سانحہ پشاور کے بعد تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے جس یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے‘ اس کا برقرار رہنا ضروری ہے۔ تحریک انصاف کے ساتھ دھاندلی کا معاملہ طے کرنا بھی ضروری ہے۔ اس پر دورائے نہیں ہونی چاہئے کہ جہاد کا حق اور اختیار صرف ریاست کے پاس ہے۔ افواج پاکستان کی موجودگی میں جہادی تنظیموں کی کیا ضرورت ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024