جرائم کی شرح میں خطرناک اضافہ
احسان شوکت
ملک بھر مےںسال 2014ءمیں دہشت گردی، امن و امان کی خراب صورتحال، قتل و غارت گری، اغوا برائے تاوان، خواتین و بچوں کے ساتھ زیادتی و اغوا، ڈکیتیوں و چوریوں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں اور دیگر سنگین جرائم میں خطرناک حد تک اضافے نے شہریوں کی زندگیاں اجیرن بنائے رکھےں۔ جس وجہ سے سال 2014ءلو گوں کے ذہنوں پُرامن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے حوالے سے انتہائی بھیانک اثرات چھوڑتے ہوئے کل رخصت ہو رہا ہے۔ دہشت گردی ، اغوا برائے تاوان، قتل، ڈکیتیوں اور چوریوں کی بڑھتی ہوئی وارداتوں، خواتین کے ساتھ زیادتی و اغوا اور دیگر سنگین جرائم نے شہریوںکو شدےد خوف و پرےشانی مےں مبتلا کر رکھا جبکہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے جرائم پر قابو پانے اور لوگوں کی زندگیوں اور جان و مال کی حفاظت کے لئے عملاً کوئی م¶ثر اقدامات نظر نہ آئے۔ سال 2014ءمیں سانحہ پشاور مےں دہشت گردوں کے ہاتھوں سکول مےں معصوم بچوں کی ہلاکت کے واقعہ نے پوری قوم کو کرب مےںمبتلا کر دےا ہے۔ لاہور میں ماڈل ٹاو¿ن منہاج القران سیکرٹریٹ پر پولیس فائرنگ سے14 ہلاکتوں کے علاوہ واہگہ بارڈر پر خودکش حملے کا سنگین سانحہ رونما ہوا جبکہ سانحہ ماڈل ٹاو¿ن کا وزیراعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ شہباز شریف، وفاقی وزراءاور پولیس افسران سمیت اہم شخصیات کے خلاف تھانہ فیصل ٹاو¿ن میں مقدمہ درج ہوا۔ سال 2014ءمیںپولےس کی رٹ مےں کمی دےکھنے مےں آئی جبکہ جرائم کی شرح میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ بڑھتے ہوئے جرائم کے برعکس پولیس پولیس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ اگر ہم سال4 201 ءمیں جرائم کے واقعات کا جائزہ لیں تو ملک دہشت گردوں کے نشانے پر رہا۔ پولیس اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے مشکوک افراد کو پکڑ کر دہشت گردوں اور ڈاکوو¿ں کو پکڑنے کا دعویٰ کرتی رہی جبکہ پولیس کی طرف سے پیش کئے گئے بیشتر فرضی مبینہ دہشت گرد، ڈاکو اور جرائم پےشہ افرادعدم ثبوت کی بنا پر عدالتوں سے رہا ہوتے رہے مگر پولیس اپنی روش سے ٹس سے مس نہ ہوئی۔ پولیس حکام آئے روزپریس کانفرنسوں اور میڈیا سے گفتگو میںدہشت گرد اور ڈاکو پکڑنے کے دعوے کرتے رہے مگر عملاً جرائم واقعات پر قابو نہ پایا جا سکا۔ سال 2014ءمےں صوبہ پنجاب کے تھانوں میں مختلف جرائم کے 4 لاکھ 2 ہزار 38 مقدمات درج کئے گئے۔ رواں سال پولیس افسران کی ہدایت پر صوبے بھر کی پولیس نے جرائم کا گراف کم کرنے اور جعلی کارکردگی دکھانے کے لئے کم مقدمات کا اندراج کیا۔ پنجاب پولیس نے 5 ہزار 5 سو 38 افراد کے قتل کے مقدمات درج کئے۔ جائیداد، زمین ہتھیانے، فراڈ، دھوکہ دہی، جعلسازی سمیت دیگر واقعات کے 90 ہزار،7 سو 78 مقدمات، متفرق جرائم کے 97 ہزار 86 مقدمات درج کئے گئے۔ جن میں 2 لاکھ 97 ہزار 6 سو 85 مقدمات کے چالان عدالتوں میں پیش کئے گئے۔ جن مےں 40 ہزار4 سو 67 مقدمات زیر تفتیش،24 ہزار،9 سو،77 ان ٹریس، 28 ہزار 7 سو، 5 مقدمات تفتیش کے بعد خارج کر دئےے گئے۔ 61 ہزار 9 سو 11 مجرمان کوعدالتوں سے ان کا جرم ثابت ہونے پر سزا ہوئی جبکہ 58 ہزار 8 سو 67 افراد کے خلاف درج ہونے والے مقدمات میں جرم ثابت نہ ہونے پر بری کر دےا گےا۔ صوبے بھر میں ڈکیتی کے قتل 2156 مقدمات درج کئے گئے جن مےں سے ایک ہزار 2 سو 35 مقدمات چالان ہوئے۔1 سو 55 مقدمات منسوخ ،319 ان ٹریس،4 سو 67 مقدمات زیر تفتیش، ہاﺅس رابری و راہزنی کے 18 ہزار 4 سو 57 مقدمات درج کئے گئے۔ جن مےں8 ہزار 85 مقدمات چالان ہوئے، 5 سو 96 منسوخ، 4 ہزار 7 سو 34 ان ٹریس، 5 ہزار 75 مقدمات زیر تفتیش، نقب زنی کے 13 ہزار 60 مقدمات درج ہوئے۔ جن مےں 5 ہزار 7 سو 78 مقدمات چالان، 1 ہزار 93 منسوخ، 3 ہزار 5 سو،47 ان ٹریس، چوری کے 1 ہزار 9 سو 89 مقدمات مےں سے 9 سو 89 چالان، 3 سو 9 منسوخ، 3 سو 66 ان ٹریس، 3 سو 89 زیر تفتیش، موٹر سائیکل و کار چوری کے 19 ہزار، 6 سو، 92 مقدمات درج کئے گئے، 5 ہزار، 7 سو 86 چالان، 6 سو 78 منسوخ، 7 ہزار 7 سو 67 ان ٹریس، 5 ہزار 8 سو 77 زیر تفتیش، کار و موٹر سائیکل چھیننے کے 5 ہزار، 9 سو، 96 مقدمات درج کئے گئے جن مےں2 ہزار 9 سو 66 چالان، 201 منسوخ، ایک ہزار 2 سو 22 ان ٹریس ،1 ہزار، 7 سو 79 زیر تفتیش، مویشی چوری کے 6 ہزار 4 سو 55 مقدمات درج کئے گئے۔ جن مےں 4 ہزار 6 سو 65 چالان، 7 سو 67 منسوخ، 3 سو 78 ان ٹریس، 6 سو 56 زیر تفتیش، منشیات فروشی، قمار بازی، جوئے، شراب فروشی، شراب نوشی، قحبہ خانے سمیت دیگر متفرق جرائم کے 23 ہزار 5 سو 67 مقدمات درج کئے گئے ، 11 ہزار 9 سو 92 چالان، 4 ہزار 4 سو54 منسوخ ،3 ہزار 8 سو 67 ان ٹریس اور 2 ہزار 9 سو 67 زیر تفتیش ہیں۔ لوکل اور سپیشل لاءکے تحت 1 لاکھ 43 ہزار 5 سو 46 مقدمات درج کئے گئے، 1 لاکھ،21 ہزار 5 سو 56 چالان ، 3 سو 89 منسوخ، 48 ان ٹریس، 2 ہزار 8 سو 87 زیر تفتیش، متفرق جرائم کے 97 ہزار57 مقدمات درج کئے گئے جن مےں 88 ہزار 4 سو67 چالان،4 سو 98 منسوخ ،64 ان ٹریس جبکہ 6 ہزار،9 سو 67 زیر تفتیش مقدمات صوبے بھر میں ہیں۔یہ واقعات ہےں جن کے مقدمات درج ہوئے جبکہ پولےس کے جانب سے مقدمات درج نہ کرنے کی شکاےات مےں بھی بہت اضافہ ہو ا ہے۔ سال 2014ءمیں درج ہونے والے مقدمات سے پولیس کی کارکردگی اور بلند و بانگ دعوو¿ں کی حقےقت سامنے آ جاتی ہے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں سال 2014ءکے دوران قتل و غارت گری کا بازار گرم رہا۔ اغوا برائے تاوان، ڈکیتیوں اور چوریوں کی وارداتوں سمیت سنگین جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ پولیس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں سال 2014 ءمیں دیرینہ عداوتوں‘ لڑائی جھگڑوں‘ اراضی کے تنازعات‘ گھریلو ناچاقیوں‘ غیرت اور دیگر واقعات میںقتل ہونے والے افراد کی تعداد 519 ہے جبکہ دو یا دو سے زیادہ افراد کے قتلوں کے لرزہ خیز واقعات بھی رونما ہوئے۔لاہور پولیس کی طرف سے سال 2014ءمےں قتل کے 519 مقدمات، ٹارگٹ کلنگ کے 2، اقدام قتل کے 680، اغواءبرائے تاوان کے 24، خواتین کے اغواء کے 1 ہزار 6 سو 70، کمسن بچوں کے اغوا کے 206، خواتین سے زیادتی کے 38، بچوں سے زیادتی کے 217، بھتہ خوری کے 148، بم دھماکے کا 1، پولیس مقابلے کے 53، زہریلی شراب پینے سے ہلاکت کا 1، ڈکیتی کے 104، بسوں کوچوں میں لوٹ مار 1، بنک ڈکیتی کے 2، سٹریٹ کرائم کے 2842، کاریں چھیننے کے 47، موٹر سائیکل چھیننے کے 565، موبائل چھیننے کے 224، خواتین سے پرس چھیننے کے 379، چوری کے 6296، کار چوری کے 1095، موٹر سائیکل چوری کے 4809، سرکاری ملازمین پر حملوں کے 83، زمینوں پر قبضے کے 22 مقدمات مختلف تھانوں میں درج کئے گئے۔ یہ وہ واقعات ہیں جن کے مقدمات درج ہوئے جبکہ پولیس کی جانب سے مقدمات درج نہ کرنے کی شکایات عام پائی گئیں۔ لاہور میں ڈکےتی اور ڈکیتی مزاحمت پر ڈاکو¶ں کی طرف سے شہریوں کو قتل کرنے کے واقعات بھی بڑھ گئے اور ڈاکوو¿ں نے سال 2014ءمےں 37 افراد کو ڈکیتی اور مزاحمت پر فائرنگ کر کے موت کے گھات اتار دےا ہے۔ نوسر بازوں کے ہاتھوں نشہ آور شے کھلا کر شہرےوں کو لوٹنے اور ہلاک کرنے کی واردتوں مےں بھی تشوےشناک حد تک اضافہ ہوا۔ پولیس ملزمان کو پکڑنے میں ناکام رہی جبکہ سارا سال پولیس نوسر بازی مےں ہلاکتوں کے واقعات کو ہارٹ اٹیک قرار دے کر لاش ورثاءکے حوالے یا مُردہ خانے جمع کرا دی جاتی ہے۔ داتا دربار‘ بھاٹی‘ گوالمنڈی‘ لاری اڈہ‘ ریلوے سٹیشن‘ لوہاری، بادامی باغ، راوی روڈ اور نواں کوٹ کے علاقے نوسر بازوں کیلئے محفوظ پناہ گاہیں بن گئے ہےں جبکہ کئی پولیس اہلکار بھی نوسر بازوںکی سر پرستی مےں ملوث پائے گئے۔ پورا سال پولیس نے مقدمات کا اندراج کم کر کے حکام بالا کے سامنے کاغذی کارروائی پوری کر لی ہے مگر حقیقت میںعوام پولیس کی جانب سے داد رسی نہ ہونے پر مقدمات کے اندراج کے لئے اعلیٰ افسران کے دفاتر اور عدالتوں مےں چکر لگاتے رہے جبکہ پولیس حسب رواےت لاءاینڈ آرڈ کری ڈیوٹیوں کا بہانہ بنا کر شہریوں کو ڈاکوﺅں اور چوروں کے حوالے کر کے بری الزمہ ہو گئی۔ غرض سال 2014ءمےں سنگین جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ دےکھنے مےں آےا جبکہ بڑھتے ہوئے جرائم کے برعکس پولیس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ پولیس افسروں کے بلند بانگ دعووں کے برعکس 2014 ءمےں عملاً جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات پر قابو نہےں پایا جا سکا ہے۔