محترمہ بےنظیر بھٹو شہید (بی بی شہید ) ایک مدبر سیاست دان تھیں۔ اپنے عوام اور وطن کی محبت ان کےلئے سرمایہ افتخار تھی ۔ان کا ماننا تھا کہ جس طرح انکے والد محترم ذوالفقار علی بھٹو شہید نے اپنی زندگی عوام کےلئے وقف کردی انھیں بھی اسی راستے پر چلنا ہے ۔ انھوں اس بات کا عملی نمونہ اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے دیا ۔ وہ باآسانی ایک آرام دہ زندگی جو بہت سے دوسرے سیاستدان گزار رہے ہیں اسکی طرف جا سکتی تھیں مگر انھیںدوسروں کی طرح امن دشمنوں کے آگے جھکنے کی عادت نہیں تھی۔ انھیں عوام کی فلاح وبہبود اور پسے ہوئے طبقے سے دلی لگاﺅ تھا ۔ انھوں نے اپنی زندگی کو باعزت طریقے سے گزارنے کا راستہ چُنا اور پاکستان کے عوام کےلئے اپنی تمام تر توانائی اور خداد اد صلاحیتیں وقف کردیں۔ عوام کی خدمت کرنا ان کا جنون تھا ۔27 دسمبر 2007ءکو اپنی شہادت سے پانچ سال قبل وہ اس نتیجے پر پہنچ چکی تھیں کہ پاکستان کو خطرناک دشمنوں کا سامنا ہے جو کسی مخصوص شعبے یا حصے میں موجود نہیں بلکہ بدی کی یہ قوتیں بااثر افراد کے درمیان موجود ہیں ۔ یہ عناصر درحقیقت اظہار رائے کی آزادی اور غیر ضروری روایات اورپابندیوں کے بغیر بود وباش کے دشمن تھے ۔بی بی شہید ، انفرادی آزادی اور بااختیار عوام کےلئے ڈھال تھیں اسلئے ان ملک دشمن عناصر نے اس روشن خیال رہنما کو متعدد بار قتل کرنے کی کوشش کی ۔بی بی کو شہید کرنے والے اس بات کا اندازہ نہ لگا سکے کہ وہ بی بی شہید کے مقصدکوکمزور نہیں کرسکے ۔اس مقصد کو جو انسانیت پر مبنی ہے کیسے ختم کیا جاسکتا ہے ؟۔ اس طرح کے مقصدکبھی مر نہیں سکتے بغیر کسی شک و شبہ کے یہ مشن ہم سب کے دلوں میں ان کے بتائے گئے اصولوں کے مطابق زندہ ہے۔ان کا مشن لوگوں کی چمکتی تقدیروںمیںچھلکتا ہے۔کوئی بھی مارشل لاء،طاقتور ملٹری ڈکٹیٹر ،ملک دشمن اور اسٹیبلشمنٹ بی بی کو لوگوں کے دل و دماغ سے نہیں نکال سکتی ۔ اسلئے عوام جب نعرہ لگاتے ہیں ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے “ تووہ اس کی روح کو سمجھتے ہیں۔ وہ ہم سب کےلئے مشعل راہ ہیں جنھوں نے ہمیں اندھیرے راستوں اور زندگی کے اتار چڑھاﺅ میں راستہ دکھایاہے۔
بی بی کے قاتل اس بات سے غافل تھے کہ پاکستانی عوام خوش قسمت ہے۔کیوں کہ قائداعظم کی طرح ذوالفقار علی بھٹواور بی بی شہید نے پاکستان کو ترقی یافتہ اور باعزت ملک میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے ۔جن لوگوںکوبی بی شہید کے کام کرنے کے انداز کوسمجھنے کا موقع ملا وہ اچھی طرح جانتے ہیں بی بی کو عالمی برادری اور قوم کودرپیش مشکلات کے بارے میں مثالی معلومات تھیں۔ انھوں نے کئی عقل مند اور شاطر عالمی رہنماﺅں اور سفارت کاروں کو اپنی دانشمندانہ صلاحیتوں سے شکست دی ۔ ان لوگوں سے بات چیت کے دوران ان کی گفتگو کا مرکز جرات مندی سے پاکستان میں جمہوریت کومضبوط کرکے اداروں کو مستحکم بنانے تاکہ عوام خوشحال ہوں سکیں کے بارے میں ہوتا تھا ۔ میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت انسان سمجھتا ہوں ۔مجھے بی بی شہید کے علم و دانش اور دلیری سے براہ راست بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ میں یہاں ایمانداری کے ساتھ کہوں گا کہ میں نے انھیں تمام شعبہ ہائے زندگی میں کھرا پایا ہے ۔ میں نے انھیں دلیر اسلئے کہا کہ وہ اپنی ذات کو لاحق کسی بھی خطرے سے نہیں ڈرتی تھیں ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ان کا یقین کامل تھا ۔وہ تقدیر کا مالک صرف اوپر والے کو ہی سمجھتی تھیں۔انھوں نے قید و بند کی صعوبتوں کا بہادری سے مقابلہ کیا ۔زند گی میں آنے والی مشکلات اور مختلف لوگوں کی جانب سے ڈالے جانےوالا دباﺅ ان کی ہمت کو نہ توڑ سکا۔ بی بی شہید کی دیگر صلاحیتوں میں انتھک جدوجہد کرنا ، جلد فیصلہ لینا ( جرات مندانہ اقدامات اٹھانا) وغیرہ شامل ہیں ۔ جہاں تک ان کی مفاہمت کی پالیسی کا سوال ہے یہ ایسی پالیسی یا حکمت عملی نہیں ہے جسے لوگ اپنے حق میں استعمال کرنے کاسوچیں، یہ ایک فلسفہ ہے۔کچھ لوگوں کے خیال میں یہ بی بی شہید کی جانب سے اپنائی جانے والی سیاسی حکمت عملی تھی جو اسٹبلشمنٹ اور دیگر غیر جمہوری قوتوں کی طاقت کو کم کرنے کےلئے اختیار کی گئی ۔لوگ اکثر کہتے ہیں کہ بی بی شہید نے یہ پالیسی بکھرے ہوئے مینڈیٹ کے بد اثرات سے بچنے کےلئے اپنائی اس طرح کا مینڈیٹ دنیا کے کئی ایسے ممالک جہاں منتخب حکومتوں کواپنا وقت پورا نہیں کرنے دیا جاتا ان کےلئے وبال جان ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مفاہمتی عمل بی بی شہید کا فلسفہ ہے ۔وہ اشتراک کے فلسفہ کی پیروکار تھیں جس کو ہم نے سیاسی مفاہمت کی پالیسی اور چارٹر آف ڈیموکریسی کی صورت میں دیکھا۔تو کیا وہ قربانی دینے اور مل جل کر کام کرنے پر یقین نہیں رکھتی تھیں ؟یاوہ اپنے شوہر کی لمبی قید اور اپنے خاندان اور اپنے پارٹی کارکنان کو سیاسی مخالفین کی جانب سے نشانہ بنایا جانا نہیں بھولیں تھیں ۔ہر گز نہیں یہ فلسفہ ان کی بڑائی اور روشن خیالی کو ثابت کرتا ہے ۔بہت ہی کم سیاست دان ایسے ہوتے ہیں جوایسے ٹیکنوکریٹ اور سول سرونٹس کومختلف انتظامی امور پر وسیع تجربہ ہوانھیں رہنمائی فراہم کریں ۔بی بی ان میں سے ایک تھیں۔ ان کا نقطہ نظر بہت واضح تھا ۔حیران کن بات یہ ہے کہ ان کے مخالفین بھی اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ انکے موقف کو ملک اور بیرون ملک سراہا یا تسلیم کیا جاتا تھا ۔آخر میں ،میں یہ کہوں گا کہ بی بی شہید اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو شہید کی طرح دل کی گہرائیوں سے اس بات پر یقین رکھتی تھیں کہ ”طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔“یہاں میں بی بی شہید کی اس بات کا حوالہ دوں گا جوانھوںنے کہی کہ”زندگی میں مختلف مشکلات آتی رہتی ہیں لیکن میرے خیال میں رہنماﺅں کوشکست کو قبول کرنے اور اس پر قابوپانے کی صلاحیتوں کامالک ہونا چاہئیے ۔ سیاست کے میدان میں دو دہائی سے بھی زیادہ عرصہ گزارنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ کسی کی جیت اور کسی کی ہار کے درمیان صرف کسی بھی شکست کو برداشت کرنے کی صلاحیت کا فرق ہے۔ کیوں کہ کامیابی کی طرف جانے والا راستہ شکست سے بھرا پڑا ہوتا ہے ۔کچھ لوگ ہار مان جاتے ہیں لیکن جو ثابت قدم رہتے ہیں اور جن میں شکست کو برداشت کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے بالآخروہ کامیاب ہوجاتے ہیں ۔“
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38