یوں تو سبھی مہینے اور دن اللہ تعالیٰ کے ہیں اور مقدس ہیںمگر چار مہینوں(رجب ، ذولقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص فضیلت حاصل ہے یعنی ان مہینوں میں ہر ایسے کام سے جو فتنہ و فساد ،قتل و غارت گری اور امن و سکون کی خرابی کیوجہ بنے اس سے منع فرمایا گیا ہے کیونکہ ان مہینوں میں گناہ دیگر مہینوں کی نسبت زیادہ شمار ہوتے ہیں ۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ سورہ توبہ میں فرماتے ہیں ’’ بے شک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے جس دین سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا تھا ،ان مین سے چار مہینے حرمت والے ہیں ،یہی سیدھا دین ہے سو تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرنا ۔‘‘اسلامی اور تاریخی اعتبار سے بھی ماہ محرم کی اہمیت مسلمہ ہے ۔ ماہ محرم سے ہی ہجری سال کا آغاز ہوتا ہے اور ذی الحجہ پر اختتام ہوتا ہے نیزہمارے پیارے نبیؐ ّ محرم کی نویں اور دسویں تاریخ کو باقاعدگی سے روزہ رکھتے تھے بہت سے مسلمانوں کو معلومات کی کمی کی وجہ سے آج بھی معلوم نہیں کہ یہ روزے کیوں رکھے جاتے ہیں درحقیقت یہ دو روزے موسی ؑ کی فرعون سے نجات اور سنت رسول ؐ ہیں ۔جب فرعون نے حضرت موسی ؑ کو ہر طرح کی تکلیفوں اور اذیتوں میں مبتلا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تو آپ فرعون کے مظالم سے تنگ آکر اپنے ماننے والوںکوساتھ لیکر اس کا علاقہ چھوڑ کر نکل آئے تو فرعون نے ان کا پیچھا کیا مگر خدائی حکمت ،معجزے اور اللہ کی مدد سے آپ دریا عبور کر کے وہاں سے نکل آئے جبکہ خدائی کا دعوے دار فرعون اپنے ساتھیوں سمیت غرق ہوگیا اوررہتی دنیا تک خدا کی وحدانیت کو چیلنج کرنے والوں کیلئے عبرت کا نشان بن گیا تواس طرح حضرت موسیؑ نے شکرانے کے طور پر دسویں کا روزہ رکھا اور باقاعدگی سے رکھتے رہے پھربعد ازاں ہمارے پیارے نبی ؐ نے بھی موسیؑ کی نجات کے شکرانہ کو اہمیت دیتے ہوئے اس روزے کو اختیار کیا مگر اس ترتیب کے ساتھ کہ نویں اور دسویں کا روزہ رکھیں ۔آپ ؐ نے صحابہ کرام کو بتایا کہ اس روزے کا اجر اس قدر زیادہ ہے کہ اس روزے رکھنے والے کے گذشتہ برس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔ ماہ محرم کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ یکم محرم خلیفہ دوئم ، امام عدل جو کہ۲۲ لاکھ مربع میل کے امیر المومنین مگر خوف الٰہی اتنا کہ آدھی رات کو اپنے کندھے پر راشن رکھ کر غریبوں کے گھر پہنچانے والی جلیل القدر ہستی اور دعائے حضور پاک حضرت فاروق اعظمؓ کا یوم شہادت ہے ۔آپ فجر کی نماز ادا کر رہے تھے کہ ایک مجوسی نے خنجر کی کاری ضرب لگا کر شہید کر دیا تھا ،آپ نے اسلام کیلئے بہت قربانیاں دیں نیز اپنی سلطنت و حدود سلطنت کا انتظام ، رعایا کی جملہ ضروریات کی نگہداشت ،اور دیگر امور سلطنت کو جس عدل و انصاف سے نبھایا وہ مثالی ہیں اور مسلم حکمرانوں کیلئے رہتی دنیا تک مشعل راہ ہیں۔
تیسری اہم وجہ میدان کربلا میں نواسئہ رسول پاک ؐ حضرت امام حسین ؒؓ اور ان کے بیشتر اہل خاندان و جانثاران کی یزیدی افواج کے ہاتھوں انتہائی بے دردی سے شہادت ہے ۔یہ انسانی تاریخ کا حق و باطل کا ایسا دلخراش معرکہ ہے جس کا حرف حرف لہو ہے نواسئہ رسولؐ جگر گوشئہ بتولؓ نے جس ثابت قدمی اور استقامت سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ بلاشبہ صبر و استقامت ، جانثاری اور اطاعت الہی کی لازوال مثال ہے ۔ یزیدی افواج نے نہ تو ماہ محرم کی حرمت کو پیش نظر رکھا اور نہ ہی رشتئہ رسولؐ کا احترام کیا۔پوری دنیا جب یزیدی افواج کے ہاتھوں اسلام کی مقدس ہستیوں پر ہونیوالے اس اندوہناک ظلم کو پڑھتی اور سنتی ہے تو اس واقعہ کربلا کے موقع پر کی گئی سفاکی کی وجہ سے یزیدی ناکام حکمت عملی کو گناہ گار اور خطا کار گرداننے پر مجبور ہو جاتی ہے مگر اس سے بھی زیادہ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ایک امت رسول پاک ؐ کے افراد آپس میں اسی طرز پر ظلم و ستم جاری رکھے ہوتے ہیں ،فرقوں ، مسلکوں اور گروہوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے مد مقابل مخالف اور متحارب گروہ بن کر دشمن بنے بیٹھے ہیں اور اختلافی گفتگو کے ذریعے منفی عزائم کو فروغ دے رہے ہیں جبکہ واقعہ کربلا ہمیں اعلیٰ مقاصد کے حصول کیلئے ایثار و قربانی کرنے، خود کو اسلامی تعلیمات کیمطابق ڈھالنے اپنے سیاہ کردار کو سفید کرنے اور یزیدی قوتوں کیلئے متحد ہونے کا سبق دیتاہے بے شک اسلام امن و سلامتی اور رواداری کا سبق دیتا ہے اور امن و آشتی کو یقینی بنانے کی تلقین کرتا ہے مگر نادان اور عاقبت نا اندیش نا م نہاد اور فتنہ پرور قسم کے مذہبی راہنما آج بھی مقدس اور عزت دار ہستیوں کی توہین کر کے فتنہ گری اور بد امنی کو عام کر رہے ہیں ۔حکومتی اداروں کو ایسے بے لگام اور بد امنی پھیلاکر ایک دوسرے کے جذبات سے کھیلنے والوں کو باز رکھنا چاہیے تاکہ پاکستان میں امن عامہ برقرار رہے اور بد امنی پیدا نہ ہو اور پاکستان امن کا گہوارہ بن کر رہے ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024