آج یوم عاشور ہے۔ 10 محرم الحرام 61 ہجری کورسول ؐ و بتول کے پیاروں نے اطاعت خداوندی‘ مقام صبر و شکر، دین کی بالادستی، جذبۂ جہاد و شوقِ شہادت، مقام ایمان و عرفان کے ساتھ ساتھ خاندان کی معاشی زندگی کے اطوار، محبت، ایثار اور اخوت کی ایسی تابندہ مثالیں پیش کیں جو رہتی دنیا تک بنی نوع انسان کے لئے رہنما رہیں گی۔ کربلا میں ماں، باپ، بیٹا، بیٹی، بھتیجے، دوست و اقرباء غرض کوئی رشتہ ایسا نہیں جو موجود نہ تھا اور جس کے رویے ہمارے لئے باعثِ تقلید نہ ہوں۔ ایمانی لحاظ سے حضرت امام حسینؓ نے 6 ماہ کے معصوم بیٹے حضرت علی اصغر اور18 سالہ کڑیل جوان بیٹے حضرت علی اکبر، 36 سالہ جواں بھائی اور سپہ سالار حضرت عباس کی لاشوں کو اٹھانے سے قبل بارگاہِ ایزدی میں سجدۂ شکر ادا کرکے ہمیں یہ سکھایا کہ شکر صرف نعمت کے حصول پر ہی نہیں کیا جاتا بلکہ انسان پر اللہ تعالیٰ کی رضا اور امرِ ربی پر راضی بہ رضا ہونا اور شکر کرنا بھی واجب ہے۔ اطاعتِ خداوندی اور دین کی بالادستی عیاں ہے جس کے لئے سانحۂ کربلا رونما ہوا۔ جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کی مثال شبِ عاشور کو ملتی ہے جب مائیں اپنے بچوں کو یہ درس دیتی نظر آتی ہیں کہ کل معرکے کا دن ہے دیکھو اگر میدان سے زندہ لوٹے تو دودھ نہیں بخشیں گی۔ اس سے زیادہ قربانی، شہادت اور جہاد کے جذبے کی مثال نہیں ملتی کہ ہر ماں خود اپنے بچے کومیدان سے زندہ نہ لوٹنے کی نصیحت کرے۔ حضرت امام حسینؓ کے اسوہ پر نظر ڈالیں توبار بارخطبات دیتے نظر آتے ہیں، جن میں نصیحت و خیر خواہی کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔آپ نے دشمن کی فوج سے بار بار سوال کیا کہ کیا میں نے تمہارا کوئی قرض دینا ہے، جو ادا نہ کیا ہو، کیا میں نے کوئی غلطی کی ہے، کیا میں نے تمہارے کسی عزیز کو قتل کیا ہے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ دنیا آگاہ ہو جائے کہ روزِ عاشور بِنائے لاالہ ہے یہ نہ تو حکومتِ وقت کے باغی کے خلاف جنگ ہے، نہ ہی دو شہزادوں کی لڑائی بلکہ یہ خالصتاً حق و باطل کا معرکہ ہے۔ روزِ عاشور تمام دن حضرت امام حسینؓ میدان جنگ سے لاشیں اٹھا کر لاتے رہے حتیٰ کہ وقت عصر آگیا۔ حضرت امام حسین لڑتے لڑتے زخموں سے چُور ذوالجناح سے نیچے آگرے۔ شمر لعین ہاتھ میں خنجر لئے آپ کو قتل کرنے کی نیت سے قریب آیا تو آپ نے اس سے عصر کی نماز ادا کرنے کی خواہش کا اظہارکیا جونہی آپ سجدے میں گئے شمر نے آپ کے گلے پر چُھری چلا دی۔ حضرت امام حسینؓ کے اس عمل سے نماز کی اہمیت واضح ہوتی ہے لیکن افسوس کہ ہم نے ذکرِ حسینؓ تواپنا لیا مگر فکرِ حسینؓ کو چھوڑ دیا، حالاں کہ آج فکر حسینؓ کواپنانے اورعام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا کربلا میں خانوادۂ رسول ؐ کی عظیم الشان قربانیوں کا مقصدیہی تھا کہ ہم نے انہیں یکم محرم سے 8 ربیع الاوّل تک 2 ماہ اور 8 دن تک عزا خانوں کی چار دیواری تک محدودکردیا۔ مخصوص ایام میں حضرت امام حسینؓ کی قربانیوں کا ذکر کرکے آنسو بہا لینا اور سینہ کوبی کرلینا ہی حضرت امام حسینؓ سے محبت کا اظہار نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس عظیم قربانی سے سبق سیکھیں اور دین کو اسی طرح زندہ رکھنے کی کوشش کریں جس طرح حضرت امام حسینؓ نے اپنے عمل سے کیا۔ اس کو صرف چند دنوں کے لئے مجالس برپا کرنے تک محدود نہ کریں۔بے پردہ خواتین حضرت زینب کے پردے کو روئیں، بے نمازی امام حسین کے سجدۂ آخر پر آنسو بہائیں، بے کردار لوگ حضرت امام حسینؓ کے کردار کے تذکرے کریں، درحقیقت آج کا دن گریہ و ماتم کا نہیں بلکہ تجدید عہدکا دن ہے۔ اس عہد کا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی حکمرانی کا اقرار کرتے ہوئے اپنی ذات کی نفی کریں، ہمارے تمام اعمال صرف اورصرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہوں، ہمارا ہر عمل اطاعتِ خداوندی میں ہو۔ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں حسینی راہ پر چلتے ہوئے اپنا سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ ہوں اور ہر قربانی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔ آج کربلا کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ آج کُلُّ ارضٍ کربلا کُل یومٍ عاشور کے مصداق ہر سمت کربلا برپاہے، ہر روز یوم عاشور ہے،ہر سمت یزیدیت کا راج ہے۔افسوس کہ ان یزیدیوں کے مقابلے میں کہیں کوئی حسین دکھائی نہیں دیتا، خود کو حسینی کہنے والے بھی صرف اقرار کی حد تک حسینی ہیں، عملی طور پر کچھ نہیں، یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہر جگہ مسلمان ظلم کی چکی میں پِس رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور میانمار غرض درجن بھر مسلم ممالک میںمسلمانوں کا قتل عام ہور ہا ہے، مسلمان لڑکیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، کوئی ان کا پرُسان حال نہیں، ہم نے اپنی حفاظت اور دفاع کے لئے ایٹم بم بنالیا مگرایٹمی تنصیبات کی حفاظت کے لئے ہم امریکہ کے محتاج ہیں۔ ضرورت آج ایسے بہّتر نفوس کی ہے جن کو رات کی تاریکی میں شمع بجھا کر یہ کہا جائے کہ تمہاری جانوں کو خطرہ ہے، اس تاریکی میں اگرساتھ چھوڑ کر جانا چاہو تو جاسکتے ہو مگر جو پھر بھی نہ جائیں۔ وفا کے ایسے پیکروں کی ضرورت ہے۔مسلمانوں کو ذِلّت و ہزیمت کی گہرائیوں سے نکال کر عروج پر پہنچا سکیں ۔لیکن افسوس کہ ایسے مجاہد آج میسر نہیں۔ مملکتِ خداداد پاکستان آج گُوناگُوں مسائل کا شکار ہے، عالمی طاغوتی طاقتیں اس کے گِرد گھیرا تنگ کررہی ہیں۔ اندرونی اور بیرونی مشکلات نے عوام کو مسائل سے دو چار کردیا ہے۔ اس وقت پاکستان ،خصوصاً عالم اسلام مشکل حالات میں گھرا ہوا ہے۔ ملتِ اسلامیہ کو متحد اور یک جان ہونے کی ضرورت ہے۔
واقعہ کربلا ہمیں یہی درس دیتا ہے کہ اگر دین پر کوئی کڑا وقت آجائے تو جان و مال، خاندان، رشتے سب کچھ قربان کردو۔ افسوس کہ ہم عمل کے اس راستے پر چل نہیں رہے ہماراحال ایسا ہے جیسے بے رُوح کا بدن۔ ہمیں ہوش میں آنا ہوگا‘ اپنی آنکھیں کھولنا ہوں گی، تمام مسلمانوں کو پھر سے اُمتِ واحدہ بننا ہوگا کیونکہ مسلمانوں میں پائے جانے والے انتشار نے ان کے ہر دن کو روزِ عاشور بنا دیا ہے۔ وہی کربلا ہے، وہی دریائے فرات سب کچھ وہی ہے ،صرف نام اور چہرے بدلے ہیں۔ 61 ھ میں تو ایک یزید تھا آج یزیدوں کا لشکرہے جو مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے اور قتل ہونے والے مسلمانوں کی نگاہیں کسی حسینؓ کی جستجو میں ہیں، کسی حُر کی تلاش میںہیں جو حق و باطل کی اس جنگ میں باطل کو چھوڑ کر حق والوں کے ساتھ آن ملے۔
مسلمانوں کو اب خوابِ غفلت سے بیدار ہونا ہوگا، ہوش میں آنا ہوگا، یزیدی سازشوں کو سمجھنا ہوگا۔انتشار اور فروعی اختلافات ختم کرکے کربلا کے 72 جاںنثاروں کی طرح متحد ہونا ہوگا تاکہ یزیدی قوتوں کے خلاف متحد ہو کر نبرد آزما ہوسکیں۔ اگر مسلمانوں نے اب بھی اپنی رَوِش نہ بدلی تو حالات میں بہتری آنا محض خواب ہوگا۔کیا فلسطین، کیا کشمیر، کیا افغانستان ‘کیا عراق کیا میانمار ہر جگہ کربلا کے مناظر نظر آرہے ہیں۔مظلوم مسلمان جگہ جگہ باطل کے ظلم کا شکار ہیں اور کسی حسین کے منتظر ہیں جو مسلمانوں پر ظلم کرنے والوں کوکیفرِ کردار تک پہنچا کر ان کا مقدر بدل دے، جو مشرق سے مغرب تک اسلام کا پرچم لہرا دے ، جو اللہ تعالیٰ کی حاکمیت قائم کرے لیکن صرف یہ انتظار عالم اسلام کو جمود کا شکارکردے گاجو بحیثیت اجتماعی عالم اسلام کی موت کا دوسرا نام ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ ذکر کے ساتھ ساتھ فکر حسینؓ کو بھی زندہ کریں اوراپنی صفوں میں مکمل اتحاد پیدا کریں۔اسلام دشمن قوتوں کے مظالم کے خلاف علمِ جہاد بلند کریں تاکہ ہمارا کھویا ہوا وقار بحال ہو سکے ۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024