آج کل ہر طرف تقاریب کی گہما گہمی ہے۔ شاید یہ اگست ہمارے لئے اس حوالے سے ہمیشہ یادگار رہے گا کہ ہم نے اسے ایک نئے ولولے اور جوش سے منایا تھا۔اس کی بڑی وجہ ہندوستان کے ساتھ ہمارا موجودہ ٹکرائو ہے۔ کشمیر پر اس نے جس جارحانہ رویے کا اظہار کیا ہے اس سے ہم پر ہندو ذہنیت کھلی اور ہم نے شکر ادا کیا کہ قائداعظم نے بروقت فیصلہ کر کے ہمیں آزادی دلوائی تاکہ ہم اپنی جداگانہ ثقافت اور مذہبی عقائد کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ یوںکشمیر کے مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ڈھایا جا رہا ہے اس کے خلاف آواز بلند کرنے کا عمل بھی ہمارے جشن آزادی کا حصہ بن گیا۔ اس طرح جتنی بھی تقریبات ہوئیں ان میں کشمیر کا جھنڈا اور کشمیر کا مسئلہ موجود رہے۔ محکمہ اطلاعات و ثقافت حکومت پنجاب اکثر پروگرام منعقد کرتا ہے اور ہر حوالے سے یہ محکمہ جتنا متحرک ہے شاید ہی پنجاب گورنمنٹ کا کوئی اور محکمہ اتنا متحرک ہو گا لیکن جب کسی محکمے کا سربراہ اتنا فعال ہو تو پھر تمام عملے کو بھی فعال ہونا پڑتا ہے۔ اس پہ دوسری بات یہ ہے کہ اگر افسر وژ نری ہو، اس کو ثقافتی اقدار سے آگاہی ہو تو پھر مسئلہ آسان بھی ہو جاتا ہے اور مشکل بھی۔اس لیے کہ آپ بھرتی کے پروگراموں سے اسے مطمئن نہیں کر سکتے بلکہ آپ کو واقعتا ایسے پروگرام ترتیب دینے پڑتے ہیں جو آپ کے ادارے کے مقاصد کو واضح کرتے ہوں۔ راجہ جہانگیر کی ٹیم کے تمام افسران اور عملہ پنجاب حکومت کے اس عزم کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں جس کا اظہار اکثر وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار کرتے رہتے ہیں۔جس کے مطابق حکومت کا مقصد پنجاب کی اصل ثقافت کو اجاگر کرنا ہے۔ اگست کے آخری ہفتے میں دو روزہ ثقافتی میلے کا اہتمام پلاک کے پلیٹ فارم سے کیا گیا یہ بہت ہی رنگارنگ میلہ تھا ، جس میں جشن آزادی کا رنگ تو سب سے نمایاں تھا لیکن اس میں اپنے وطن کے لئے مرمٹنے کی قسمیں بھی کھائی گئی اور عہد کیا گیا کہ ہم اس کے تحفظ کے لئے کسی قربانی سے گریز نہیں کریں گے۔ پہلی دفعہ دیکھا کہ گلوکاروں کے ساتھ حاضرین کے دل بھی گا رہے تھے۔ جوش و جذبہ عروج پر تھا۔ حاضرین کے بھرپور نعروں میں جو عزم تھا وہ اس بات کی علامت تھا کہ وہ اپنی دھرتی سے کتنی جڑت محسوس کرتے ہیں۔ وہ سب وطن کے سپاہی لگ رہے تھے۔ اس دو روزہ میلے میں حکومت کی طرف سے وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر جناب مہندرسنگھ پال اور انسانی حقوق کے وزیر جناب اعجاز اگسٹائن موجود تھے ، سابقہ وزیر تعلیم اور بہت دانشور انسان عمران مسعود بھی تھے۔ان سب نے بہت ہی خوبصورت طریقے سے بات کی۔ انسانی حقوق ، پنجابی زبان اور ثقافت پر بات کرنے کے لئے یہ تینوں لوگ ایک مثال کی طرح ہیں۔ اعجاز اگسٹائن بہت ہی بیبے بندے ہیں اور ہمیشہ کسی پروٹوکول اور نخرے کے بغیر انسانی بھلائی اور ثقافت کے لئے منعقد پروگراموں میں نہ صرف شرکت کرتے ہیں بلکہ اپنی گفتگو سے حاضرین کو نیکی اور بھلائی کی ترغیب بھی دیتے ہیں۔
اس میلے کا افتتاح صوبائی وزیر محمد اجمل چیمہ نے کیا جبکہ دیگر شرکاء میں معروف شاعر سید وصی شاہ، سینئر ٹی وی تجزیہ کار /اجمل جامی کالمسٹ سلیمان عابد، شاہ نواز خان، معروف اداکار علی طاہر، ڈاکٹر مہناز حسن پنجاب یونیورسٹی، ’’چینج‘‘ کے سربراہ ممتاز حسن، صبا حکیم، ظفر ملک، پرویز کلیم، علامہ راغب نعیمی، ڈاکٹر مفتی عقیل الرحمن پیر زادہ ، ڈاکٹر علامہ حسن رضا باقر، محترمہ سمعیہ راحیل قاضی، نثار صفدر، راشد محمود، شیر علی، ناصر بشیر، راجا نیر، ڈاکٹر خالد اقبال یاسر، اعظم ملک، راول حسین، سرفراز صفی اور ڈاکٹر صغرا صدف نے شرکت کی۔ میزبانی کے فرائض سینئر اینکر فرحان شبیر نے ادا کیے۔
صوبائی وزیر اجمل چیمہ بہت اچھی پنجابی بولتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امن کے فروغ میں سماجی اور کلچرل سرگرمیوں کی نمایاں حیثیت ہے۔ شاعری، ڈرامہ، میوزک، ڈھول سمیت مختلف نوعیت کی سماجی اور ادبی سرگرمیوں کا عملی فروغ ہی لوگوں کو سماجی اور ثقافتی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتا ہے۔ امن، برداشت، رواداری اور ایک دوسرے کو قبول کرکے کام کرنا یا اکٹھے رہنا ہی سماج کا اصل حسن ہوتا ہے۔ جو معاشرے سماجی، ادبی یا ثقافتی سرگرمیوں سے دور رہتے ہیں ان میں تفریق او رانتہا پسندی جڑپکڑتی ہے جو ایک دوسرے میں تعصب او رنفرت کے پہلوؤں کو نمایاں کرتی ہے۔ یہ تمام اقدامات و محرکات اور اس ضمن میں مختلف تقریبات کے اہتمام کا مقصد گوناگوں اور رنگ رنگ ثقافتوں کو ایک جامع معاشرے میں ڈھالنے کے لئے عظیم قومی فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔
میلے میں ’’کلچر اور مذہبی ہم آہنگی‘‘، ’’شاعری، ادب اور ثقافت کا باہمی تعلق‘‘، ’’داستان اور قصہ گوئی کی تاریخ‘‘ اور ’’کلچر، صحافت اور سیاست‘‘ کے عنوان سے مختلف سیشنز بھی ہوئے جن میں مقررین نے سیر حاصل گفتگو کی۔ گفتگو،مکالمے اور سوال وجواب کے درمیان شعروشاعری اور موسیقی کے رنگ بھی بکھرتے رہے۔ جمیل لوہار، نذیر احمد، ناصر بیراج، عمران شوکت علی، سدرہ و دیگر نے لوک اور ملی نغمے پیش کئے مگر فوک میں پاکستان کی پہچان ملکو نے ایک شام کو اپنی دلفریب گلوکاری سے ایسا یادگار بنایا کہ ہر فرد جھوم اٹھا۔ تنائو کے ماحول میں لوگوں کو اچھی تفریح میسر ہوئی اور زندہ دلانِ لاہور نے بھنگڑے سے ماحول میں رنگ بھر دئیے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38