جمعۃ المبارک ‘ 28 ؍ ذی الحج 1440ھ ‘ 30 ؍ اگست 2019 ء
جنہوں نے بی آر ٹی منصوبہ شروع کیا اب مکمل کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ پشاور ہائی کورٹ
پشاور میٹرو بس منصوبہ تو شیطان کی آنت کی طرح دراز ہوتا جارہا ہے۔ اس گنجلک ڈور کا کوئی سرا ہاتھ ہی نہیں آ رہا کہ سلجھانے کی کوئی راہ نکل سکے۔ پشاور جو پھولوں کا شہر کہلاتا تھا اس منصوبے کی وجہ سے گزشتہ 5 برسوں سے کہیں اڈھر رہا ہے کہیں بگڑ رہا ہے۔ اس اکھاڑ پچھاڑ میں بقول شاعر…؎
جب اپنا گیا ہو جیوڑا نکل
کہاں کی رباعی کہاں کی غزل
والی حالت سب کے سامنے ہے۔ اپوزیشن نے لاکھ شور مچایا مگر نیب والوں کی نظر عنایت اس طرف نہیں اٹھتی۔ شاید کوئی خوف یا حیا آڑے آ رہی ہے تحقیقات میں اس حوالے سے شور اٹھتا ہے مگر اسے پہلو میں ہی دبا دیا جاتا ہے۔ اب تو پشاور ہائی کورٹ نے بھی اس منصوبے کے نقائص کے حوالے سے ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہہ دیا کہ اس منصوبے کی تکمیل تو ان کے بس میں بھی نہیں جنہوں نے یہ جناتی منصوبہ شروع کیا تھا۔ اس لیے کہتے ہیں نقل میں عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ خیبر پی کے والے اگر پنجاب حکومت سے ہی تھوڑی عقل مانگ لیتے تو آج یہ درد سر تو نہ ہوتا۔ لاہور ، راولپنڈی، ملتان میں جو میٹرو بس چل رہی ہے اس پر خوب لے دے ہوئی۔ مگر آج لوگ اس میں سفر کر رہے ہیں۔ پشاور میں تو لگتا ہے اس سارے کئے کرائے پر پانی پھیرنا ہو گا۔ یہ منصوبہ خیبر پی کے حکومت کے لیے اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی والا بن گیا ہے۔ اب آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ۔سارا شہر کھنڈر بنا ہوا ہے دھواں مٹی علیحدہ سے اُڑ رہی ہے۔ بارش کی صورت میں جابجا سوئمنگ پول بن جاتے ہیں۔ میٹرو چلے نہ چلے عوام کی تفریح کے لیے یہ سوئمنگ پول ہی کافی ہیں۔
٭٭٭٭٭
کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ راہول گاندھی کا یوٹرن
بھارتی حکومت کے ہاتھوں بار بار بے عزت ہونے کے باوجود راہول گاندھی کا یہ یوٹرن سب کے سامنے ہے۔ کل تک وہ رو رہے تھے کہ کشمیر میں ظلم ہو رہا ہے جس کا مشاہدہ کرنے کے لیے وہ ازخود سرینگر بھی گئے مگر کیا ہوا۔ بھارتی سرکار نے انہیں ائیر پورٹ سے باہر نکلنے تک نہ دیا۔ سرینگر ائیر پورٹ سے ہی ہری جھنڈی دکھا کر بقول غالب کہ …؎
نکلنا خلا سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
والی بات سچ کر کے دکھائی۔ اس وقت جو حسرت و یاس راہول گاندھی کے چہرے سے ٹپک رہی تھی اس سے امید تھی کہ وہ حقائق کا ادراک کریں گے مگر وہ بھی حقائق سے آنکھیں چرا کر خود کو محب وطن ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کی سیاسی مجبوری ہو سکتی ہے مگر اسی بھارت میں سینکڑوں نہیں ہزاروں ہندو، سکھ، عیسائی اور مسلمان کھلے عام کشمیر میں بھارتی مظالم پر بول رہے ہیں۔ بھارت کی ناکامیوں کا اعتراف کر رہے ہیں۔ اگر یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے تو پھر شملہ معاہدے کا جاپ کیوں کیا جاتا ہے۔ پاکستان سے مسئلہ کشمیر بات چیت سے حل کرنے کا بیان کس منہ سے دیا جاتا ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے یہ بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں 70 سال پرانا تنازعہ ہے جس پر اقوام متحدہ اپنا فیصلہ دے چکی ہے کہ وہاں رائے شماری کرائی جائے۔ شملہ معاہدہ بھی کشمیر سمیت تمام تنازعات باہمی مذاکرات سے حل پر زور دیتا ہے تو یہ اندرونی معاملہ کیسے ہو گیا۔ راہول جی کو چاہئے کہ وہ فسانوں کی بجائے اصل تاریخی حقائق پر توجہ دیں۔
٭٭٭٭
افغان حکومت کی پاکستان سے فضائی حدود اور طورخم بارڈر بند نہ کرنے کی درخواست
پاکستان کے خلاف بولتے ہوئے اس کی سرحدوں پر حملے کرانے میں توافغان حکومت کو پاکستان سے ہمدردی یاد نہیں آتی۔ ابھی توبندش کی صرف باتیں ہو رہی ہیں اور ابھی سے افغان اور بھارت کی نیندیں اڑنے لگیں ہیں۔ کشمیر میں بھارتی اقدامات کے بعد عوام کے مختلف حلقے حکومت پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ بھارت کے لیے پاکستان کی فضائی حدود بند کی جائیں اور بھارت کو واہگہ سے طورختم تک تجارت کی سہولت بھی واپس لے لی جائے۔ ظاہر ہے اگر حکومت نے واقعی ایسا کر لیا تو افغانستان ہی نہیں بھارت کو اچھا خاصہ سبق سکھایا جا سکتا ہے۔ بھارت جس کی شہ پر افغانستان اکثر پاکستان کے خلاف بولتا ہے اور پاکستانی سرحدوں پر اپنے پالتو غنڈوں سے حملے کراتا ہے اب اس کو لگام ڈالنے کا وقت آ گیا ہے۔ دہلی سرکار کو تب پتہ چلے گا جب واہگہ سے طورخم کا معمولی ہزار کلومیٹر کا راستہ چھوڑ کر اسے طویل سمندری سفر کے بعد ایران اور پھر وہاں سے طویل ترین سفر طے کر کے وسطی ایشیائی ریاستوں سے گزر کر کابل تک جانا پڑے گا۔ یوں ہزار کا خرچہ بھی اسے لاکھ میں پڑے گا۔ تجارت میں خسارہ بھلا ہندو بنیا کب برداشت کرتا ہے۔ اسی طرح کابل والوں کو بھی پتہ چلے گا کہ پاکستان ان کے لیے کتنی بڑی نعمت ہے اور کفران نعمت کی سزا کیا ہوتی ہے۔ اب بھی لگتا ہے کہ کابل کو یہ پٹی بھارت نے ہی پڑھائی ہو گی کہ وہ پاکستان سے کہے کہ فضائی اور زمینی سرحد بند نہ کی جائے۔ مگر ایسا کر کے پاکستان بھارت کو ضرور سبق سکھائے جس کے سر پر کچھ زیادہ ہی خناس سوار ہے۔
٭٭٭٭٭
بنکاک ، طالب علم کی شکایت پر تھائی وزیر اعظم کابینہ سمیت عدالت میں پیش
یہ وہ کام ہیں جو کبھی ہمارے ہوا کرتے تھے۔دین اسلام کی ابتدا سے ہی ہم دیکھتے ہیں کہ حکمرانوں کو عدالتوں کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا تھا۔ وہ اسے ناک کا مسئلہ نہیں بناتے تھے۔ جب تک خلافت رہی اس وقت تک ہی نہیں اس کے بعد ملوکیت کے دور میں بھی ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ حکمرانوں کو عدالت نے طلب کیا تو وہ بسرو چشم عدالتوں میں پیش ہوئے۔ قانون کی حکمرانی جب تک رہی اسلامی معاشرہ ترقی کرتا رہا پھر یہ د ولت ہم سے کوہ نور ہیرے کی طرح چھن گئی اور یورپ والوں کے ہاتھ لگی۔ اب تقریباً کسی بھی اسلامی ملک میں قانون کی عملداری دور دور تک نظر نہیں آتی مگر یورپ میں یہ عادت پختہ ہو چکی ہے۔ بنکاک کے وزیر اعظم کا اپنی کابینہ سمیت ایک طالب علم کی شکایت پر عدالت میں آنا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ وہاں حکمران قانون کے تابع ہے۔ ہمارے ہاں تمام حکمران خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے کے نشے میں مبتلا ہیں جو ہیروین اور آئس کے نشے سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جس دن ہمارے ہاں بھی قانون کی عملداری کا آغاز ہو گا۔ اس د ن سمجھ لیں ہماری ترقی اور عروج کی کہانی دوبارہ شروع ہو گی جو برسوں پہلے ختم ہو چکی ہے۔ ورنہ ہمارے ہاں تو اب تک
قاتل کی یہ دلیل منصف نے مان لی
مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر
والی زبوں حالی چھائی ہوئی ہے۔