اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اپنی امان میں رکھے لیکن بد قسمتی سے جنوبی ایشیا اسوقت مسائل کا گڑھ بنتا جا رہا ہے۔پنجابی کی ایک مثال ہے: ’’ جہاں ہر طرف مسائل ہی مسائل ہوں وہاں عزت بچانی بہت مشکل ہو جاتی ہے‘‘۔یہی حال اسوقت پاکستان کا ہے ۔جنوبی ایشیا کے تقریباً تقریباً تمام ممالک کسی نہ کسی قسم کی دہشتگردی کا شکار ہیں۔ جو خوش قسمت ممالک دہشتگردی کا شکار نہیں وہ دیگر مسائل کا شکار ہیں۔ حالات نے پورے خطے کو خوف میں مبتلا کررکھا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کو اپنے مفادات کا تحفظ کرنا مشکل نظر آرہا ہے۔ گو پاکستان ایک پر امن ملک ہے ۔ہماری کسی بھی ملک کے ساتھ کسی قسم کی عداوت یا دشمنی نہیں۔ہم کسی ملک کے مفادات کو زک نہیں پہنچاتے لیکن پھر بھی کچھ ممالک ہمارے مفادات کو زک پہنچانے سے باز نہیں آتے۔ویسے بھی جب پورا خطہ دہشتگردی اور جنگی ماحول کا شکار ہو تو پاکستان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لہٰذا ہماری قیادت کو بہت محتاط انداز میں ملکی پالیسیاں ترتیب دینی ہو نگی۔ ذرا سی غلطی کسی بڑے سانحہ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
جب ہم اپنے اردگرد نظر دوڑاتے ہیں تو حالات پریشان کن نظر آتے ہیں۔ ایران ہمارا پڑوسی اور برادر اسلامی ملک ہے۔ پچھلے کئی ماہ سے امریکی پابندیوں کا شکار ہے ۔دونوں ممالک کی آپس میں عداوت چلی آرہی ہے۔ امریکہ ایران کو ہر وقت سبق سکھانے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان جنگ بھی ممکن ہے کیونکہ امریکہ اپنا بحری بیڑا ایران کے نزدیک بحیرہ عرب میں لے آیا ہے جو خطرناک ہتھیاروں سے لیس ہے۔ امریکہ کی مدد کے لئے برطانیہ بھی بحیرہ عرب میں آدھمکا ہے۔ ایران نے برطانیہ کا ایک تیل کا ٹینکر بھی قبضہ میں لیا تھا جس پر برطانیہ بہت برہم ہے۔سعودی عرب اور عرب ریاستیں بھی ایران کے خلاف ہیں اور امریکہ کی مدد کررہی ہیں لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ ایران با لکل بے خوف مقابلے کے لئے تیار ہے۔ لگتا ایسے ہے کہ یہ تمام طاقتیں مل کر بھی ایران کو خوفزدہ نہیں کر سکیں بلکہ الٹا خود خوفزدہ ہیں کہ کہیں ایران حملہ نہ کردے۔ ایران امریکہ کو امریکی بحری بیڑا غرق کرنے کی دھمکی دیتا ہے جو بااثر ثابت ہو رہی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کی پوزیشن بڑی نازک ہے کیونکہ پاکستان کی سعودی عرب اور ایران دونوں کے ساتھ دوستی ہے ۔ہم ان دونوں ممالک میں سے کسی کو بھی ناراض نہیں کر سکتے نہ ہم کسی ایک کی دوسرے کے خلاف مدد کر سکتے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات اچھے ہیں۔ہم اسے بھی ناراض نہیں کر سکتے۔ خدانخواستہ اگر امریکہ ایران پر حملہ کرتا ہے یا انکی آپس میں جنگ ہوتی ہے تو پاکستان بھی اسکی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ ویسے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایران تو ویسے ہی ایک بہانہ ہے امریکہ کا اصل ہدف پاکستان خصوصاً پاکستان کے ایٹمی اثاثے ہیں۔
افغانستان ہمارا دوسرا پڑوسی اور برادر اسلامی ملک ہے۔ ہماری تاریخ، کلچر ،زبان اور جغرافیہ تک مشترک ہیں۔ بد قسمتی سے افغانستان کئی دہائیوں سے جنگ اور دہشتگردی کا شکار ہے۔ افغانستان قدرتی معدنیات سے ایک مالا مال ملک ہے۔اس لئے کئی طاقتیں افغانستان میں قدم جمانے کے لئے بے چین ہیں۔ امریکہ بھی اسی غرض سے افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا۔ امریکہ کے علاوہ بھارت،چین اور روس بھی اپنا اثر یہاں بڑھانا چاہتے ہیں۔ بھارت تو تقریباً دو بلین ڈالرزکی افغانستان میں سرمایہ کاری بھی کر چکا ہے۔ چین بیلٹ اینڈ روڈ پالیسی کے تحت افغانستان اور ایران سے ریلوے لائن استنبول بلکہ آگے یورپ تک لے جانا چاہتا ہے ۔افغان سرحد تک چین ریلوے لائن تعمیر بھی کر چکا ہے ۔اگر یہ منصوبہ بندی کامیاب ہو جاتی ہے تو چین پاکستان اکنامک کاریڈور اور چین افغانستان ، ایران اور ترکی بہت بڑے تجارتی راستے ثابت ہونگے۔وسط ایشیا بھی پاکستان کے لئے کھل جائیگا۔روس کی دلچسپی کی وجہ اپنی سیکورٹی ہے۔افغانستان میں داعش بڑی پھل پھول رہی ہے اور اب ایک طاقت بن چکی ہے۔ داعش وسط ایشیا میں بھی اپنے پائوں پھیلا رہی ہے ۔روس کو یہ خطرہ ہے کہ اگر داعش کو افغانستان میں نہ روکا گیا تو وسط ایشیا اور روس کے مسلم علاقے سب داعش کے زیر اثر آجائیں گے جو روس کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ثابت ہوں گے۔روس پاکستان سے تعلقات اس لئے بڑھانا چاہتا ہے کہ پاکستان داعش کا سخت مخالف ہے۔ہمارا تیسرا پڑوسی ملک چین ہے جو ہمارا پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین دوست بھی ہے۔ہماری یہ دوستی بڑی مثالی دوستی ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ
یہ ہمالیہ سے بلند سمندر سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے‘‘۔چین ہر موقع پر ہماری مدد کرتا ہے لیکن چین بھی مخالفین سے مبرا نہیں۔چین اور بھارت تو1962 سے ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔دو دفعہ آپس میںلڑ بھی چکے ہیں۔ امریکہ بھارت کو چین کے مقابلے میں لانا چاہتا ہے۔ اسی لئے1962 سے لے کر اب تک ہر قسم کی امداد خصوصاً جدید جنگی ساز و سامان بھارت کو دے رہا ہے۔یہ سب کچھ لینے کے باوجود بھارت چین کے مقابلے کے لئے کھڑا نہیں ہو سکتا۔اس کے علاوہ چین اور امریکہ کے درمیان ’’ٹریڈ وار‘‘ چل رہی ہے۔ اب تک امریکہ نے چین کو زیر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے مگر کامیاب نہیں ہوا۔ چین عسکری طور پر بھی ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے۔ دونوں ممالک’’ سائوتھ چائنا سی‘‘ میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اس معاملہ میں بھارت بھی امریکہ کے ساتھ ہے۔ہمارا چوتھا پڑوسی بھارت ہے جو چین کی طرح ایک ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ہے۔ بھارت کو پوری دنیا میں ایک ہی پرابلم ہے ۔وہ ہے پاکستان۔ بھارت پاکستان کو برداشت ہی نہیں کر سکتا۔ جب سے پا کستان معرض وجود میں آیا ہے بھارت کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ بھارت پاکستان سے بہت بڑا ہے۔ آبادی بھی زیادہ ہے۔ فوج بھی بہت بڑی بلکہ دنیا کی تیسری بڑی فوج ہے ۔ترقی کے لحاظ سے بھی پاکستان سے آگے ہے۔ پاکستان اسے کوئی تکلیف بھی نہیں دیتا۔بھارتی مفادات کوبھی کبھی زک پہنچانے کی کوشش نہیں کی۔ اسکے باوجود نجانے کیوں بھارت پاکستان کو برداشت نہیں کرتا۔ چار جنگیں لڑ چکا ہے۔ اب اس کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح پاکستان کو دنیامیں تنہا کر دے۔ ہر فورم پر پاکستان کو بدنام کرنا اپنا فرض بنا لیا ہے۔پاکستان کے ہر لیڈر نے حالات بہتر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے ۔موجودہ حکومت نے تو بار بار مسائل حل کرنے کے لئے مذاکرات کی دعوت دی ہے مگر بھارت کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر مذاکرات کی دعوت ٹھکرا دیتا ہے۔بھارت نے حال ہی میں کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کر کے جنوبی ایشیا میں ایک نیا فساد شروع کردیا ہے جس کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔خطے کا امن و امان تباہ ہوجائیگا ۔بھارت کے اس غیر آئینی قدم سے پاکستان بلاواسطہ طور پر متاثر ہواہے۔ حالات جنگ کی طرف بھی جا سکتے ہیں جس کے نتائج یقیناً تباہ کن ہونگے۔بھارت نے پاکستان کو ایک بہت ہی مشکل صورت حال سے دو چار کردیا ہے۔کہیں سے مدد کی امید بھی نظر نہیں آتی۔کشمیر کے حالات پاکستان کے لئے ایک بہت بڑے چیلنج کی صورت اختیار کر چکے ہیں جس سے بہر حال ہمیں نبٹنا ہوگا۔پاکستان کو بہترین ڈپلومیسی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
پاکستان میں اسوقت اندرونی طور پر بھی حالات ٹھیک نہیں۔ تمام اپوزیشن لیڈروں نے مل کر امن و امان کا ستیا ناس کررکھا ہے۔ حکومتی پارٹی کو کام ہی نہیں کرنے دیا جا رہا۔ اس طرح تو پاکستان کے مفادات قربان ہو رہے ہیں۔ پاکستان اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر بھی مسائل میں گھرا ہے۔ہمارے پڑوسی ممالک بھی مختلف مسائل کی اماجگاہ بنے ہوئے ہیں اور یہ مسائل پاکستان کو بھی متاثر کررہے ہیں۔ ہمارے لیڈروں کو برداشت اور عقلمندی سے کام لینا ہوگااور پاکستان کے مفادات کو ہر چیز پر مقدم رکھنا ہو گا ۔پاکستانی مفادات کی حفاظت ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کو ذاتیات سے بالاتر ہو کر پاکستان کے لئے کام کرنا ہوگا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024