میں پاکپتن گیا تو اپنے بھتیجوں کی شادیوں میں شرکت کے لیے تھا مگر وہاں بیٹھے بیٹھے دل کا روگ لگا کر آ گیا۔ دونوں بھتیجوں کی باراتیں ہنسی خوشی بھگتا لیں مگر ان کے ولیمہ کی تقریب میں شمولیت کا موقع ہی نہ مل سکا کیونکہ سینے میں اچانک اٹھنے والے شدید درد نے مجھے ہسپتال پہنچا کر چھوڑا۔ کیفیت ایسی بن گئی کہ؟
درد ایسا ہے کہ جی چاہے ہے زندہ رہئے
زندگی ایسی کہ مر جانے کو جی چاہے ہے
سینے کا درد اٹھا تو بھائی ، بہن ، بیٹوں اور دوسرے عزیز و اقارب نے مجھے ایمبولینس میں ڈال کر پاکپتن کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال پہنچا دیا۔ رات بے ہوشی کے عالم میں ایمرجنسی وارڈ میں گزاری۔ شعبۂ امراض دل کے ڈاکٹر آصف منیر نے پوری توجہ سے چیک اپ کیا تمام ضروری ٹیسٹ کرائے اور ابتدائی معائنہ میں انجائنا کا شبہ ظاہر کیا۔ اسی بنیاد پر عارضۂ قلب کا فوری علاج شروع کر دیا گیا۔ ہسپتال کے وارڈز میں حبس اور گھٹن انتہا درجے کی تھی اس لیے میرا بیڈ ہسپتال کے کوریڈور میں لگوا دیا گیا۔ بھائی تنویر ساحر کو میری صحت کے حوالے سے زیادہ فکر لاحق تھی کیونکہ وہ بھی چند ماہ قبل انجائنا کو بھگت چکا ہے اورانجیو پلاسٹی بھی کرا چکا ہے اس لیے اس کی پوری کوشش تھی کہ مجھے ابتدائی طبی امداد کے ساتھ ہی پی آئی سی لاہور منتقل کر دیا جائے۔ اس نے اور بیٹوں شہباز سعید اور سلمان سعید پوری رات نے میرے پاس کھڑے ہو کر جاگتے گزار دی۔ صبح تمام ٹیسٹوں کی رپورٹس آئیں تو ڈاکٹر آصف منیر نے خوشخبری سنائی کہ آپ انجائنا اٹیک سے محفوظ رہے ہیں۔ مجھے معدے کے درد کا اکثر سامنا رہتا ہے۔ اس بار یہ درد کچھ زیادہ شدت کے ساتھ اٹھا تو اوسان خطا کر گیا۔ ڈی ایچ کیو ہسپتال پاکپتن میں زندگی میں پہلی بار بغرض علاج جانے کا موقع ملا تو عوام کو صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے معاملہ میں حکومتی ترجیحات جانچنے کا بھی موقع مل گیا۔ اس حوالے سے لاہور کے ہسپتالوں کا تو مجھے اچھا خاصہ تجربہ ہو چکا ہے۔ پاکپتن کے ضلعی ہسپتال میں مریضوں، ان کے لواحقین اور ہسپتال کے عملہ بشمول ڈاکٹروں اور لوئر سٹاف کی کسمپرسی دیکھ کر دل کو مزید ملال ہوا۔ حبس کے موسم میں ہسپتال کے وارڈوں میں بغیر ائرکنڈیشنر کے مریضوں سمیت سب کا بُرا حال تھا۔ وارڈوں میں صفائی نہ ہونے کے باعث تعفن اٹھ رہا تھا۔ متعلقہ سٹاف کی بھی شدید کمی تھی اور پھر ایمرجنسی وارڈ میں بھی غریب مریضوں کے لواحقین کو مہنگی ادویات بازار سے لانا پڑتی ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اپنی صحت کی ترجیحات ایمرجنسی وارڈوں میں مفت ادویات کی فراہمی بند کر کے متعین کی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں اصلاحات کی جانب پہلے ہی توجہ نہیں دی جاتی۔ ڈاکٹروں اور دوسرے عملہ سمیت سٹاف کی کمی ہے تو یہ کمی دور کرنا حکومتی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ سو مریضوں کے انبار میں ڈاکٹروں سے جو ممکن ہو سکتا ہے وہ کر گزرتے ہیں۔ مناسب علاج معالجہ کے لیے مطلوبہ وسائل اور سہولتیں پوری کرنا تو بہرصورت ان کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام تو حکومت ہی کے کرنے کے ہیں کہ آئین نے شہریوں کی صحت، تعلیم، روزگار کی سہولتوں کی فراہمی ریاستی ذمہ داری گردانی ہوئی ہے۔ جب ریاست اپنی یہ ذمہ داری ادا نہیں کر پاتی تو نجی علاج گاہوں میں ڈاکٹروں کو مریضوں اور ان کے لواحقین کی کھال اتارنے کا موقع ملتا ہے۔ ا گر حکومت نے شہریوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے معاملہ میں قطعی لاتعلقی اختیار کر رکھی ہو تو جدید اسلامی، جمہوری ، فلاحی ریاست کا تصور کیسے پنپ سکتا ہے۔ پاکپتن کے سرکاری ہسپتال میں ایک رات گزارتے ہوئے مجھے اس ملک خدا داد کے غریب عوام کی کم مائیگی کا شدت سے احساس ہوا۔
پاکپتن کی معروف سماجی شخصیت حاجی عبدالواحد کو بھی غریب عوام کی اس کم مائیگی کا شدت سے احساس ہوتا ہے جو فلاحی جمہوری ریاست کی بات کرنے والے حکمرانوں کی جانب سے عوام کی فلاح کی ترجیحات میں عدم دلچسپی پر اکثر کڑھتے نظر آتے ہیں۔ میری ان کے ساتھ دیرینہ تعلقداری ہے۔ ان کے بیٹے عاصم کا عارضۂ قلب میں علاج معالجہ کی سہولتوں کے فقدان کے باعث نوعمری میں انتقال ہوا تو انہوںنے پاکپتن میں کارڈیالوجی ہسپتال بنانے کا بیڑہ اٹھا لیا۔ آج عاصم واحد کارڈیالوجی ہسپتال اس پورے علاقہ میں عارضۂ قلب کے علاج کا واحد معیاری ہسپتال ہے جسے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پاکپتن کے ساتھ منسلک کیا جا چکا ہے۔ حاجی عبدالواحد کو میرے ہسپتال میں داخلے کا علم ہوا تو وہ مجھے وہاں سے اٹھا کر عاصم واحد کارڈیالوجی ہسپتال لے آئے جہاں انہوں نے میرے سارے مطلوبہ ٹیسٹ نئے سرے سے کرائے اور اس ذات باری تعالیٰ کا شکر ہے کہ میرے سینے کے درد پر یہاں بھی انجائنا کا شبہ دور ہو گیا۔ پھر بھی دن بھر میں ڈاکٹروں کی ’’حفاظتی تحویل‘‘ میں رہا۔ حاجی عبدالواحد نے دیکھ بھال میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور دل کا روگ اٹھانے والا یہ مریض آج لاہور واپس لوٹ آیا ہے۔
اس بار لاہور سے پاکپتن اور وہاں سے لاہور واپسی کا سفر بھی انتہائی کٹھن رہا کہ عملاً گڑھے بنی سڑکیں آدمی کا انجر پنجر ہلا دیتی ہیں۔ ٹھوکر سے مانگا منڈی تک اور پھر اوکاڑہ سے دیپالپور تک کی کھڈوں، کھائیوں کا مجموعہ بنی سڑک پر کوئی دل گردے والا ہی سفر کر سکتا ہے۔ انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ شہریوں کے ترقیاتی کام کرنا پی ٹی آئی حکومت نے اپنی ترجیحات کا حصہ ہی نہیں بنایا۔ پاکپتن میں اب برصغیر کے نامور بزرگ صوفی شاعر بابا فرید گنج شکر کے عرض کی تقریبات کا آغاز ہو چکا ہے جس میں لاکھوں افراد شمولیت کے لیے اندرون اور بیرون ملک سے پاکپتن آتے ہیں مگر آج پاکپتن کی سڑکوں کی جو درگت بنی ہوئی میں دیکھ کر آیا ہوں اس کے پیش نظر عرس بابا فرید کے موقع پر اس بار زائرین کو بہت کٹھنائیوں کا سامنا کرنا پڑیگا۔ وہاں جو بات میرے نوٹس میں آئی وہ ترقیاتی کاموں میں حکومت کی عدم توجہی کا شاہکار تھی۔ متعلقہ اداروں کو نہ صرف ترقیاتی کاموں سے روکا گیا ہے بلکہ سڑکوں کے پیچ ورک تک کے لیے فنڈز جاری نہ کرنے کی روایت بھی قائم کی گئی ہے چنانچہ متعلقہ ادارے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور عوام ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگ رہے ہیں۔ پاکپتن وزیر اعظم عمران خاں کا سسرالی شہر ہے، اگر وہاں ترقیاتی کاموں میں ایسی حکومتی بے نیازی ہے تو ملک کے دوسرے شہروں کا خدا ہی حافظ ہے۔ اگر تو پی ٹی آئی نے محض اقتدار کا شوق پورا کرنے کے لیے حکومت حاصل کی ہے تو بے شک وہ ملک اور عوام کی درگت بناتی رہے مگر اس نے مستقبل میں بھی اقتدار کی سیاست کرنی ہے تو اسے اپنی پالیسیوں اور ترجیحات میں عوام دوستی کا عنصر شامل کرنا ہو گا اور اپنے اقتدار کے اگلے چار سال خالصتاً عوام کی خدمت میں گزارنے ہوں گے ورنہ عام عوام کی زبانی میں جو کچھ پاکپتن میں سن کر آیا ہوں وہ آئندہ انتخابات تک حکومت کے لیے نوشتۂ دیوار بھی بن سکتا ہے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024