ٹڈاپ(ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان) اسکینڈل کی رپورٹ میری نظروں کے سامنے پڑی ہے جس میں سابق وزیر اعظم گیلانی اور امین فہیم کی گرفتاری کے احکامات جاری کرکے 10ستمبر کو پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے، اس رپورٹ کے مندرجات پڑھ کر تو یہی معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے پورے پاکستان کی کرپشن اسی کیس میں سما گئی ہے۔۔۔!!! اس کیس کو کیا،،، آپ پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے کسی کیس کو بھی اُٹھا کر دیکھ لیں آپ دھنگ رہ جائیں گے کہ کس طرح وطن عزیز کو حکمرانوں نے بے رحمی سے لُوٹا،،، کس طرح کرپشن کو چھپانے کے لیے پوری کی پوری بلڈنگ کو آگ لگا دی گئی،،، کس طرح کرپشن پکڑنے والے آفیسرز کو دن دہاڑے مار دیا گیا،،، اور کس طرح کرپشن کرنے والے پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے رہے۔ ۔۔ ویسے بھی مذکورہ اسکینڈل پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں۔ اس ملک کا جو حال سیاستدانوں نے کر دیا ہے (خاکم بدہن) لگ نہیں رہا کہ اگلے کئی سالوں میں بھی یہاں عام آدمی خوشحال ہو سکے گا۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں عوام کی محرومیوں کا سبب وسائل کی کمی نہیں بلکہ کرپشن ہے۔کیوں کہ یہاں ہر حکومت کے دور میں نت نئے کرپشن اسکینڈل سامنے آتے ہیں جیسے اوگرا کرپشن اسکینڈل، کے ایم سی کرپشن اسکینڈل، فشریز کرپشن اسکینڈل، حج کرپشن اسکینڈل، رینٹل پاور پلانٹ کرپشن اسکینڈل، پنجاب بنک قرضہ جات کیس، ایم سی بی کی نجکاری کرپشن کیس، پنجاب بنک کرپشن اسکینڈل، سائن بورڈ کرپشن اسکینڈل، مضاربہ کرپشن اسکینڈل، نیشنل پولیس فاؤنڈیشن اراضی اسکینڈل، اکائوئنٹنٹ جنرل(اے جی) میگا کرپشن اسکینڈل اور ان کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں ایسے کرپشن کیسز ہیں کہ خدا کی پناہ۔۔۔ ان اسکینڈلز میں لاکھوں کی کرپشن نہیں بلکہ کروڑوں اربوں روپے کی کرپشن ہے۔ تمام صوبائی اور وفاقی سرکاری ادارے جتنی کرپشن کرتے ہیں۔ ایم این اے اور ایم پی اے حضرات اُس میں برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں اس لئے عوام ظلم کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ عوام چیختے اور چلاتے ہیں لیکن اُنکی چیخ و پکار بے سود اور بے اثر ثابت ہوتی ہے کیونکہ عوام کے منتخب حکمران اپنے مطلب و مفاد کیلئے عوام کے بجائے افسر شاہی کے ساتھی اور رفیق بن جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں پھر عوام کو نظیر اکبر آبادی کے اس مشہور شعر کا سہارا لینا پڑتا ہے …؎
تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے
وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا
ابھی حال ہی میں سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی سابق وزیرپٹرولیم اور موجودہ چیئرمین ہائرایجوکیشن کمیشن کو قومی دولت و اثاثوں کی غیر منصفانہ تقسیم اور اختیارات کے ناجائزاستعمال کے الزام پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حراست میں لیا تو بڑے بڑے سیاستدانوں خصوصاََ پیپلز پارٹی کی صفوں میں بھونچال آگیا، پاکستان کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کے لیڈرز کہیں جنگ کرنے کی باتیں کرتے نظر آئے۔۔۔ تو کہیں حکومت کو گرانے کی بازگشت سنی گئی۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین غیر سیاسی شخصیت ہوتے ہوئے بھی سندھ کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کے آنکھ کے تارے جانے جاتے ہیں،،،، میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان سے ایک شکوہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان پر باقی الزامات اپنی جگہ لیکن میری نظر میں انہوں نے میڈیکل کی تعلیم کو کاروبار بنا کر ملک کے مستقبل کے ساتھ کھیل کھیلا، یہ مشرف دور کی بات ہے جب وہ پی ایم ڈی سی کے چیئرمین تھے انہوں نے پی ایم ڈی سی کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد میڈیکل کی تعلیم کو کاروبار بنانے کے لیے پی ایم ڈی سی کے قوانین میں تبدیلی کرکے اس باڈی میں پرائیویٹ یونیورسٹیوں کونمائندگی دی ، 2006 تک ملک میں 67 میڈیکل کالج تھے 2015ء تک انکی تعداد 135 تک جاپہنچی، بعض ذرائع یہ تصدیق کرتے ہیں کہ پنجاب میں پی ایم ڈی سی سے ایسے کالجوں کا بھی بھاری نذرانے کے عوض الحاق کیا گیا جو نا تو زمین پر موجود تھے اور نہ ہی وہ میڈیکل کالجز والے قوانین پر پورا اُترتے تھے،،،، اب انہیں کی بدولت پرائیویٹ میڈیکل کالجز 70 لاکھ سے 1کروڑ روپے میں ایک ڈاکٹر تیار کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کے خلاف پہاڑ جتنے الزام تھے لیکن ان کو حراست میں لینے اور انکے اہل خانہ کو ہراساں کرنے کا استحقاق کسی ادارے کو حاصل نہیں۔ آخر اس میں کیا امر مانع تھا کہ انہیں علانیہ طور پر حراست میں لیا جاتا، متعلقہ عدالت میں پیش کیا جاتا اور90 روز کے ریمانڈ پر تحویل میں لے لیا جاتا۔ اس سے یقیناََ منفی تاثر نہ پھیلتا۔ اس تناظر میں وزیراعظم نے درست فیصلہ کیا ہے کہ اپنے معائنہ کمیشن کے 10 ارکان پر مشتمل کمیٹی کو ہدایت کی ہے کہ کراچی پہنچ کر اس ساری کارروائی کا جائزہ لے اور تعین کرے کہ کرپٹ عناصر کے خلاف جو بھی اقدامات کیے جائیں جہاں وہ مؤثر اور نتیجہ خیز ہوں، وہیں انہیں قانونی حدود و دوائر میں رہتے ہوئے سر انجام دیا جائے۔
تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی یہ علم ہونا چاہیے کہ کراچی میں رینجرز جرم اور سیاست کو الگ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے کہ جرم اور سیاست کے مابین تعلق اور گٹھ جوڑ کو بہر طور ٹوٹنا چاہیے لیکن اسے توڑتے وقت یہ پہلو پیش نظر رکھنے چاہئیں کہ اس گٹھ جوڑ کو توڑنے کے لیے جس ادارے کے ذمے جو کام ہے، وہ صرف اسے ہی انجام دے۔
ہر ادارے کی اپنی حدود اور دوائرہ کار ہیں۔ انہیں آئینی اور قانونی طور پر ان سے تجاوز کرنے کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اگر مجاز دائرہ ہائے کار میں رہتے ہوئے فرائض کی ادائیگی کو شیوہ و شعار بنا لیا جائے تو اس سے ان اداروں کی ساکھ میں اضافہ ہو گا اور ان کی کارروائیاں بھی نتیجہ خیز ہوں گی۔
خیر جب بات کرپشن کی ہو تو ہر محب وطن شہری اور عام آدمی یہی چاہتا ہے کہ احتساب ہونا چاہیے ہر اُس شخص کا جو پاکستان میں کسی بھی عہدے پر فائزہے ، اس حوالے سے سپریم کورٹ بھی نیب کی خاصی سرزنش کرتا رہتا ہے کہ وہ احتساب کیوں نہیں کر پارہا ، کیوں وہ خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے؟ لیکن یہاں بقول شاعر
اپنے قولِ وفا کو بھول گئے
تم تو بالکل خدا کو بھول گئے
سپریم کورٹ کی سرزنش کا اثر یہ ہوا کہ نیب نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ تقریباََ 2ماہ پہلے سپریم کورٹ میں میگا کرپشن اسکینڈل کی ایک رپورٹ جمع کروائی گئی جس کے مطابق 150 میں سے 50 کیسز مالیاتی بے ضابطگیوں، 50کیسز اراضی اسکینڈل اور 50 اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق ہیں۔ مالی بے ضابطگیوں میں 22کیسز میں انکوائری (تحقیقات) ، 13 انویسٹی گیشن (تفتیش) ،15کیسز میں ریفرنس دائر کیے گئے ہیں۔ اراضی اسکینڈل میں 29 انکوائری کے مرحلے میں، 13 انویسٹی گیشن، 8 میں ریفرنس دائر کیے گئے۔ اختیارات کے ناجائز استعمال میں 20 انکوائری، 15 انویسٹی گیشن، 15 میں ریفرنس دائر کیے گئے ہیں۔ اب ان کیسز میں موجودہ اور سابقہ سبھی حکمرانوں کا نام آرہا ہے اور یہ وہ اسکینڈلز ہیں جن میں واقعی بے ضابطگیاں ہوئیں ہیں ان میں سے سیاسی بنیادوں پر بنائے جانے والے کیسز کی تعداد آدھا فیصد بھی نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ماضی کے حکمرانوں نے کرپشن کو اپنا سٹیٹس سمبل بنائے رکھا۔ اِس دور میںکرپشن کے ایسے بیسیوں کیسز سامنے آئے جن میں اربوں کی کرپشن دھڑلے سے کی گئی۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاستدان کیوں بھول جاتے ہیں جمہوریت اور احتساب لازم و ملزم ہیں۔ احتساب کے بغیر جمہوریت کو ہموار معاشی ترقی اور عدل کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا۔ ایک جمہوری مملکت میں کوئی بڑی سے بڑی سیاسی شخصیت احتساب سے بالا ترنہیں۔
یہ تاثر ہرگز قائم نہیں ہونا چاہیے کہ کراچی میں دہشت گرد اور بدعنوان مافیا کا گٹھ جوڑ توڑنے کے لیے مجاز محکمے اور ادارے جو کارروائی کر رہے ہیں، یہ کسی ایک یا زیادہ سیاسی جماعتوں کے خلاف نہیں بلکہ عملی اقدامات اور ٹھوس حقائق و شواہد کے ذریعے قوم تک یہ پیغام جانا چاہیے کہ جو بھی بدعنوان ہو گا، کارروائی صرف اس کے خلاف ہو گی خواہ اس کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے ہو، حکومتی محکمے سے ہو یا کسی ریاستی ادارے سے۔ زندہ معاشروں میں قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کے احترام کی عظیم روایات کو زندہ رکھا جاتا ہے۔ اصل چیز قانون کی بالا دستی ہوتی ہے نہ کہ افراد کی بالا دستی۔ اسی لیے تو اب ملک بچانے کے لیے کرپشن کی ’’دہشت گردی ‘‘ پر ایکشن لینا بہت ضروری ہوگیا ہے۔۔۔ مگر! تمام اداروں کے لیے اس میں احتیاط بھی ضروری ہے۔۔۔ !!!
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38