محترم مجید نظامی کے زیرسایہ 22 برس کام کا موقعہ ملا اور بہت کچھ سیکھا۔ وہ عظیم صحافی اور معاملہ فہم انسان تھے۔ کام ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ قائداعظم کے اس قول کا کہ ’’کام، کام اور صرف کام‘‘ کا عملی نمونہ کیا ہو سکتا ہے، اگر میں مجید نظامی صاحب سے نہ مل پاتا تو شاید مجھے اندازہ نہ ہوتا۔
روزمرہ زندگی اور اخبار کے کام میں ان کے کاٹ دار جملوں پر بے اختیار داد دینے کو دل چاہتا تھا۔ میں اور میرے سینئر ساتھی جن میں عباس اطہر مرحوم جیسے مایہ ناز صحافی بھی شامل تھے کئی خبروں کو ناقابل اشاعت سمجھتے اور اتمام حجت کیلئے نظامی صاحب کے پاس کلیئرنس کیلئے بھجوا دیتے تو وہ اپنی صحافتی مہارت سے کام لیتے ہوئے ان خبروں پر ایسی سرخی جماتے کہ وہ فوراً قابل اشاعت نظر آنے لگتیں۔
مجید نظامی اصولوں کے سخت اور نڈر انسان تھے۔ وہ ہمیشہ درس دیا کرتے کہ سچ لکھنے کیلئے کسی سے گھبرانے کی ضرورت نہیں لیکن یہ ذمہ داری کے ساتھ ہونا چاہئے اور ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ خواہ مخواہ کسی کی پگڑی اچھلے۔ وہ نوائے وقت گروپ میں کام کرنے والے سب ساتھیوں کو اپنی ٹیم سمجھتے تھے اور جب کوئی کہتا کہ میں آپ کا ملازم ہو تو وہ اس بات کو پسند نہ کرتے بلکہ اسے سمجھاتے کہ ہم ایک ٹیم ہیں۔
اصولوں پر اس قدر ڈٹ جاتے کہ بڑے سے بڑے مالی فائدے کو خاطر میں نہ لاتے۔ جب مشرف کا مارشل لاء آیا تو میں ادارہ نوائے وقت لاہور کے نیوز روم میں شفٹ انچارج تھا۔ مشرف نے نظامی صاحب کو ایڈیٹروں کیساتھ ایک محفل میں کہا کہ آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے، اس پر نظامی صاحب نے انہیں جو جواب دیا میرے خیال میں ہم سب اس اصول کو اپنا لیں تو بحیثیت قوم ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں آپکی جگہ ہوتا ہی کیوں، میں اپنا کام کیوں نہ کروں اور اسی طرح اگر آپ بھی آج اپنا کام کر رہے ہوتے تو شاید یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ نظامی صاحب نے محض یہ بات کہی ہی نہ تھی بلکہ وہ اس کا عملی نمونہ بھی تھے۔ جب انہیں صدر پاکستان بننے کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے کہا میں ایک صحافی ہوں اور ایک صحافی ہی رہنا چاہتا ہوں۔ مجھے ان کی یہ بات ہمیشہ بہت اچھی لگی اور میں نے اسے ہمیشہ مشعل راہ بنانے کی کوشش کی۔ بحیثیت صحافی مشرف کا مارشل لاء میرے لئے پہلا مارشل لاء تھا، میں نے محسوس کیا کہ اس نازک دور میں نظامی صاحب نے ہر وہ بات سرعام کہی جسے بڑے سے بڑا صحافی اور صحافتی ادارے کا مالک سوچتے ہوئے بھی گھبراتا تھا۔ نتیجہ وہی جو ایسی صورتحال میں عام طور پر حکمرانوں کی طرف سے برآمد ہوا کرتا ہے اور جس سے ہم صحافی لوگ بڑی اچھی طرح واقف ہو گئے ہیں یعنی نوائے وقت کے سرکاری اشتہارات بند کر دیئے گئے اور اسے زبردست دبائو کا شکار کرنے کی کوشش کی گئی لیکن میں نظامی صاحب کو جانتا تھا اور مجھے حکمرانوں کے ان روایتی ہتھکنڈوں پر ہنسی آتی تھی اور میں سوچتا تھا کہ مشرف اپنے پیشروئوں سے ہی سبق لیں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ نظامی صاحب اس معاملے میں غالب کے اس شعر کا نمونہ تھے…؎
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
نظامی صاحب کی ایک خوبی نوجوانوں کو آگے بڑھانا بھی تھی، جس میں تھوڑی بہت صلاحیت پاتے اسے اہم ذمہ داریاں دیتے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال خود میری ذات ہے، 20 سال کی عمر میں بڑے اخباروں میں لکھنا شروع کیا تو مجھے عامل صحافی بننے کی ہدایت کی اور اپنے اخبار میں جگہ دی۔ کم عمری میں ہی مجھے شفٹ انچارج بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ کسی ’’خیرخواہ‘‘ نے کہا ’’وہ تو ابھی چھوٹا ہے اور ادارے میں کنفرم بھی نہیں‘‘۔ اس پر نظامی صاحب نے کہا ’’میں نے دیکھ لیا ہے، اس میں صلاحیت موجود ہے، ذمہ داری دینگے تو کنفرم بھی ہو جائے گا‘‘۔
آخر میں یہ عرض کرنا بھی اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ محترمہ رمیزہ مجید نظامی میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک ادارے کو آگے بڑھانے کیلئے ہونی چاہئیں۔ انہوں نے بہت کم وقت میں اتنا کچھ سیکھ لیا ہے کہ بڑے بڑے صحافی اور معاملہ فہم افراد بھی حیرت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے ادارہ نوائے وقت پھلتا پھولتا رہے۔ (آمین!)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024