اسی تاریخی تسلسل میں جبکہ کراچی ابھی فروری 1949ء میں پاکستان کا دارالحکومت تھا موتمر یعنی عالمی مسلم کانفرنس کا اجتماع منعقد ہوا جس سے شہید ملت لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان کی پرجوش تقریر سے موتمر کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ یہ سلسلہ یہیں تک نہیں رکا بلکہ کراچی کو موتمر کا صدر مقام بنایا گیا۔ مفتی اعظم الحاج امین الحسینی اسکے صدر اور ڈاکٹر اکرام اللہ خان مرحوم سیکرٹری جنرل منتخب کئے گئے۔
موتمر کے پیغام کو عام کرنے کیلئے عربی انگریزی اور اردو میں جرائد کا اجراء ہوا‘ اس میں بالخصوص دنیائے عرب کے مسائل کو پوری طرح اجاگر کیا جاتا تھا۔ پاکستان کی طرف سے عالم اسلام اور عرب کے ساتھ اس گہری وابستگی کا حاصل یہ نکلا کہ ہمارے عرب بھائیوں اور مسلمانان عالم نے پاکستان کی کوششوں کو قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھا‘ دوسری طرف عالمی سطح پر اقوام متحدہ میں سب سے زیادہ مسئلہ فلسطین کی وکالت پاکستانی مندوب ہی کرتے رہے۔ آخر ایسا کیوں نہ ہوتا برصغیر کے مسلمانوں اور انکے زعما کی طویل جدوجہد میں ہمیشہ عالم اسلام کے کاز کو اولیت کا درجہ دیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد اقوام متحدہ اور اسکے مختلف پلیٹ فارمز سے مسئلہ فلسطین‘ افرنگ کی عرب ممالک اور عالم اسلام کیخلاف استحصالی جارحتیوں کے مقابل پاکستان ڈٹا رہا۔ اس غیر متزلزل موقف کی‘ وجہ یہ تھی کہ حکیم الامت علامہ اقبال اور دوسرے مسلمان مفکرین‘ علماء اور سیاسی زعماء نے ایک لمحہ کیلئے بھی اپنے آپکو ان سے الگ نہ سمجھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو بلاشبہ ایران نے پاکستان کو سرکاری سطح پر سب سے پہلے تسلیم کیا لیکن اس سے پہلے سعودی عرب کے فرمانروا نے قائداعظم کے نام اپنے ذاتی خط میں پیغام تہنیت بھیجا جو پاکستان کے قیام کو تسلیم کرنا ہی تھا۔
راجہ صاحب اپنی یادوں کی خوشبو بکھیرتے ہوئے کہنے لگے‘ اب کون نہیں جانتا کہ طونس کی آزادی اور اسے اقوام متحدہ میں رکنیت دلانے کیلئے پاکستان نے کیا کچھ نہیں کیا۔ میری جب طونس کے قائد اول حبیب بورقیبہ سے ملاقات ہوئی تو وہ پاکستان پر فدا ہوئے جا رہے تھے‘ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ جب لاہور شاہی مسجد میں انہوں نے پاکستانیوں کے عظیم اجتماع سے خطاب کیا اور اہل لاہور نے جس لازوال محبت کا اظہار کیا اسے وہ تمام عمر نہ بھلا سکے۔
دنیائے عرب کی طرف سے سرد مہری :
میں نے راجہ صاحب سے سوال کیا کہ کیا میرا یہ تاثر درست نہیں ہے کہ اب سعودی عرب سمیت ہمارے عرب بھائیوں کی طرف سے پاکستان کے ساتھ سرد مہری کا ثبوت دیا جا رہا ہے؟
راجہ صاحب ذرا ٹھٹکے‘ کہنے لگے تشویش کی ایسی کوئی بات نہیں عالمی حالات جس ڈگر پر جا رہے ہیں اور ہم سے بھی جو کوتاہیاں ہوئی ہیں انکی بنا پر تعلقات میں والہانہ پن کی بجائے انکی محبت میں نظم و ضبط کا عنصرغالب آ رہا ہے۔ میں نے درمیان میں سے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ ایک شعر عرض کرنا چاہتا ہوں کہنے لگے فرمائیے۔
میں نے کہا کہ عربوں کے اس تکلف اور تامل کے نئے رویہ کے بارے میں تو یہی کہا جاسکتا ہے …؎
انقلاب آیا تو یوں آیا نگاہ یار میں
کچھ تکلف میں اضافہ کچھ محبت میں کمی
راجہ صاحب نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ کہنے لگے تشویش کی کوئی بات نہیں اس نئے تکلف کو محبت کی وسعتوں میں ڈھالنے کا وسیع میدان موجود ہے۔ اس ضمن میں ہماری قومی حماقتوں کے ایک واقعہ کا راجہ صاحب نے ذکر کیا جسے بہت افسوس ناک اور انتہائی قابل مذمت ہی قرار دیا جائیگا اور کہا کہ اسے لکھنا مت لیکن جب انہوں نے یہ واقعہ بیان کیا تو میں نے اصرار کیا کہ :
قطری بھائی اور پرویز مشرف:
راجہ صاحب ! اس سے صرف ہماری قوم ہی نہیں بلکہ اس انٹرویو کے توسط سے ہمارے عرب بھائیوں اور امریکہ سمیت دوسری قوموں کو بھی پتہ چلنا چاہیے کہ ایک امریکہ نواز ٹٹو آمر نے ہوس زر میں پاکستان کے مفادات کو کیا کیا ضربیں لگائیں اس لئے اس واقعہ کا بیان راجہ صاحب کی طبع صلح جو سے ایک باغیانہ کوشش ہے راجہ صاحب کہنے لگے :
موتمر یا اوآئی سی کے ایک اجلاس میں ایک عرب ملک کے وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں حیرت انگیز ہی نہیں ناقابل تصور تجویز پیش کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ قطر اور بھارت ایک دوسرے کے بہت قریب آ چکے ہیں اور انڈیا میں مسلمان بھی بھاری تعداد میں ہیں اسلئے بھارت کو OIC کا رکن یا مبصر بنا دیا جائے۔ ایک عرب ملک کے وزیر خارجہ کی طرف سے یہ ہم پاکستانیوں کیلئے ایک طرح کا Bomb Shell تھا‘ میں قطعی مشتعل نہ ہوا البتہ اپنی پریشانی پر قابو پاتے ہوئے بڑے تحمل سے اپنی تقریر کے موقع پر کہا : …’’ہمارے بھائی ہم سے کچھ ناراض ہیں انہیں کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں ان سے مل کر ان کی ناراضی دور کردوںگا۔‘‘
اجلاس ختم ہوا ان کے وزیر خارجہ سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے گلہ کیا کہ افغانستان میں ہمارے آٹھ باشندے امریکیوں کیخلاف لڑتے ہوئے پاکستان نے پکڑ لئے جب ہمیں اس واقعہ کا علم ہوا تو ہم نے صدرجنرل مشرف سے درخواست کی کہ آپ انہیں ہمارے حوالے کر دیں ہم خود ان کیخلاف کارروائی کرینگے لیکن صدر مشرف نے انہیں امریکیوں کے حوالے کر دیا۔ میں نے زہر خند سے کام لیتے ہوئے کہا ’’انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘
’’ہمیں ڈر ہے کہ اگر ہم پاکستان جائیں تو مشرف ہمیں بھی گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے نہ کر دے۔‘‘راجہ صاحب یقیناً اس وزیر خارجہ کی شکایت سے پریشان ہوئے ہوں گے لیکن پرویز مشرف جو ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا ڈرامہ رچایا کرتے تھے پاکستان کیساتھ یہ سلوک کیا کرتے تھے۔ ان کے دوسرے جرائم تو ایک طرف صرف تنہا یہ ایک جرم ہی ان کی پراسیکیوشن کیلئے کافی قرار دیا جانا چاہیے۔
عالم اسلام کا والہانہ تعاون :
راجہ صاحب نے رخ کو موڑتے ہوئے کہا 1965ء کی جنگ کا زمانہ پاکستان کیلئے کس قدر خطرناک اور نازک تھا اس دور میں ہمارا مقابلہ اپنے سے پانچ گنا اور فوجی اعتبار سے آٹھ گنا بڑے دشمن بھارت سے تھا اس جارحیت کا ارتکاب اس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان واقع مسلمہ بین الاقوامی سرحد کے احترام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیالکوٹ‘ ڈسکہ اور لاہور کی اطراف سے حملہ کیا اور بین الاقوامی میڈیا کے ذریعہ لاہور سمیت بہت سے شہروں پر جھنڈے بھی گاڑ دئیے جو سراسر بے بنیاد تھے لیکن ترکی تھا یا ایران‘ سعودی عرب تھا یا انڈونیشیا اور ملائشیا تمام عالم اسلام ہمارے ساتھ تھا جس طرح مسلمان ممالک نے اپنے ائر پورٹس پاکستان کے فوجی اور سول طیاروں کیلئے پارکنگ کیلئے کھول دئیے‘ ترکی نے فوجی یعنی اسلحی امداد کو واشگاف کر دیا۔ سعودی عرب نے ہماری امداد کی‘ انڈونیشیا نے کراچی کی بندرگاہ کی حفاظت کیلئے صدر سوئیکارنو کے احکام پر اپنے بحری جنگی جہاز بھجوا کر ہمارا ساتھ دیا پھر یہ امداد اور تعاون صرف ایک عرب یا ایک مسلمان ملک کی طرف سے تو نہیں تھا‘ پورا عالم اسلام ہمارے ساتھ تھا اور یہ نہ سمجھئے کہ اب نہیں ہے اب بھی ہے صرف ہمیں اپنے گھر کی خبر لینی چاہیے۔ جمہوری نظام کے تسلسل کیساتھ ساتھ اتحاد و اتفاق اور اپنے اندر بے اعتمادی اور بزدلی کی جگہ غیرت و حمیت اور قوت کار پر بھروسہ کرناچاہیے‘ ہم ذرا ذرا سی بات پر ڈر جاتے ہیں۔ جب ہم نے 1998 میں ایٹمی دھماکے کئے تو عالم اسلام اور عالم عرب کے گوشہ گوشہ میں عوام پاکستان پر فدا ہو رہے تھے ہر مسلمان سمجھ رہا تھا جیسے وہ ناقابل تسخیر ہو گیا ہے! امریکہ سمیت یورپی ملکوں نے کیا کیا؟ ہماری اقتصادی ناکہ بندی کرنے کا اعلان کر دیا اس پر ایرانی صدر کا ردعمل خوشگوار تھا انہوں نے کہا کہ ’’امریکہ کی طرف سے اقتصادی ناکہ بندی پاکستان کیلئے سب سے بڑا سنہری موقع ہے‘ جب ہم پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں تو یہ پابندیاں ہمارے لئے رحمت ثابت ہوئیں ہم میں ان باطل قوتوں کیخلاف ڈٹ جانے کا حوصلہ پیدا ہوا اور ان پابندیوں کو اپنے لئے قوت اور خود انحصاری کی بنیاد بنا لیا۔‘‘
پاکستان کا مستقبل : وسطی ایشیائی ریاستیں اور موٹر وے
راجہ صاحب نے اس تسلسل میں کہ عالم اسلام اور پاکستان کے درمیان تعلقات محبت و اعتماد کی کس قدر گہرائی ہے کہنے لگے اب آپ کو میں وسطی ایشیائی ریاستوں (سکس سنٹرل ایشین سٹیٹس) کی طرف لئے چلتا ہوں۔
سوویت یونین کی تحلیل اور ستر سالہ ہولناک اور ذہنی گرفت کے بعد جب قازقستان‘ کرگستان‘ تاجکستان‘ ترکمانستان‘ ازبکستان اور آذربائیجان آزاد ہوئے تو انکی نگاہیں عالم اسلام کیساتھ ساتھ پاکستان کی طرف بالخصوص اٹھنا شروع ہوئیں کیونکہ پاکستان اور ان نوآزاد ریاستوں کیساتھ ہمارے جغرافیائی ‘ تاریخی‘ اقتصادی‘ تجارتی‘ معاشرتی اور دینی رشتے صدیوں سے چلے آ رہے تھے جن میں روسی قبضہ کے بعد سترسال تک تعطل رہا۔ (جاری ہے)
موتمر کے پیغام کو عام کرنے کیلئے عربی انگریزی اور اردو میں جرائد کا اجراء ہوا‘ اس میں بالخصوص دنیائے عرب کے مسائل کو پوری طرح اجاگر کیا جاتا تھا۔ پاکستان کی طرف سے عالم اسلام اور عرب کے ساتھ اس گہری وابستگی کا حاصل یہ نکلا کہ ہمارے عرب بھائیوں اور مسلمانان عالم نے پاکستان کی کوششوں کو قدر و عزت کی نگاہ سے دیکھا‘ دوسری طرف عالمی سطح پر اقوام متحدہ میں سب سے زیادہ مسئلہ فلسطین کی وکالت پاکستانی مندوب ہی کرتے رہے۔ آخر ایسا کیوں نہ ہوتا برصغیر کے مسلمانوں اور انکے زعما کی طویل جدوجہد میں ہمیشہ عالم اسلام کے کاز کو اولیت کا درجہ دیا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد اقوام متحدہ اور اسکے مختلف پلیٹ فارمز سے مسئلہ فلسطین‘ افرنگ کی عرب ممالک اور عالم اسلام کیخلاف استحصالی جارحتیوں کے مقابل پاکستان ڈٹا رہا۔ اس غیر متزلزل موقف کی‘ وجہ یہ تھی کہ حکیم الامت علامہ اقبال اور دوسرے مسلمان مفکرین‘ علماء اور سیاسی زعماء نے ایک لمحہ کیلئے بھی اپنے آپکو ان سے الگ نہ سمجھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو بلاشبہ ایران نے پاکستان کو سرکاری سطح پر سب سے پہلے تسلیم کیا لیکن اس سے پہلے سعودی عرب کے فرمانروا نے قائداعظم کے نام اپنے ذاتی خط میں پیغام تہنیت بھیجا جو پاکستان کے قیام کو تسلیم کرنا ہی تھا۔
راجہ صاحب اپنی یادوں کی خوشبو بکھیرتے ہوئے کہنے لگے‘ اب کون نہیں جانتا کہ طونس کی آزادی اور اسے اقوام متحدہ میں رکنیت دلانے کیلئے پاکستان نے کیا کچھ نہیں کیا۔ میری جب طونس کے قائد اول حبیب بورقیبہ سے ملاقات ہوئی تو وہ پاکستان پر فدا ہوئے جا رہے تھے‘ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ جب لاہور شاہی مسجد میں انہوں نے پاکستانیوں کے عظیم اجتماع سے خطاب کیا اور اہل لاہور نے جس لازوال محبت کا اظہار کیا اسے وہ تمام عمر نہ بھلا سکے۔
دنیائے عرب کی طرف سے سرد مہری :
میں نے راجہ صاحب سے سوال کیا کہ کیا میرا یہ تاثر درست نہیں ہے کہ اب سعودی عرب سمیت ہمارے عرب بھائیوں کی طرف سے پاکستان کے ساتھ سرد مہری کا ثبوت دیا جا رہا ہے؟
راجہ صاحب ذرا ٹھٹکے‘ کہنے لگے تشویش کی ایسی کوئی بات نہیں عالمی حالات جس ڈگر پر جا رہے ہیں اور ہم سے بھی جو کوتاہیاں ہوئی ہیں انکی بنا پر تعلقات میں والہانہ پن کی بجائے انکی محبت میں نظم و ضبط کا عنصرغالب آ رہا ہے۔ میں نے درمیان میں سے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ ایک شعر عرض کرنا چاہتا ہوں کہنے لگے فرمائیے۔
میں نے کہا کہ عربوں کے اس تکلف اور تامل کے نئے رویہ کے بارے میں تو یہی کہا جاسکتا ہے …؎
انقلاب آیا تو یوں آیا نگاہ یار میں
کچھ تکلف میں اضافہ کچھ محبت میں کمی
راجہ صاحب نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ کہنے لگے تشویش کی کوئی بات نہیں اس نئے تکلف کو محبت کی وسعتوں میں ڈھالنے کا وسیع میدان موجود ہے۔ اس ضمن میں ہماری قومی حماقتوں کے ایک واقعہ کا راجہ صاحب نے ذکر کیا جسے بہت افسوس ناک اور انتہائی قابل مذمت ہی قرار دیا جائیگا اور کہا کہ اسے لکھنا مت لیکن جب انہوں نے یہ واقعہ بیان کیا تو میں نے اصرار کیا کہ :
قطری بھائی اور پرویز مشرف:
راجہ صاحب ! اس سے صرف ہماری قوم ہی نہیں بلکہ اس انٹرویو کے توسط سے ہمارے عرب بھائیوں اور امریکہ سمیت دوسری قوموں کو بھی پتہ چلنا چاہیے کہ ایک امریکہ نواز ٹٹو آمر نے ہوس زر میں پاکستان کے مفادات کو کیا کیا ضربیں لگائیں اس لئے اس واقعہ کا بیان راجہ صاحب کی طبع صلح جو سے ایک باغیانہ کوشش ہے راجہ صاحب کہنے لگے :
موتمر یا اوآئی سی کے ایک اجلاس میں ایک عرب ملک کے وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں حیرت انگیز ہی نہیں ناقابل تصور تجویز پیش کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ قطر اور بھارت ایک دوسرے کے بہت قریب آ چکے ہیں اور انڈیا میں مسلمان بھی بھاری تعداد میں ہیں اسلئے بھارت کو OIC کا رکن یا مبصر بنا دیا جائے۔ ایک عرب ملک کے وزیر خارجہ کی طرف سے یہ ہم پاکستانیوں کیلئے ایک طرح کا Bomb Shell تھا‘ میں قطعی مشتعل نہ ہوا البتہ اپنی پریشانی پر قابو پاتے ہوئے بڑے تحمل سے اپنی تقریر کے موقع پر کہا : …’’ہمارے بھائی ہم سے کچھ ناراض ہیں انہیں کچھ غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں ان سے مل کر ان کی ناراضی دور کردوںگا۔‘‘
اجلاس ختم ہوا ان کے وزیر خارجہ سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے گلہ کیا کہ افغانستان میں ہمارے آٹھ باشندے امریکیوں کیخلاف لڑتے ہوئے پاکستان نے پکڑ لئے جب ہمیں اس واقعہ کا علم ہوا تو ہم نے صدرجنرل مشرف سے درخواست کی کہ آپ انہیں ہمارے حوالے کر دیں ہم خود ان کیخلاف کارروائی کرینگے لیکن صدر مشرف نے انہیں امریکیوں کے حوالے کر دیا۔ میں نے زہر خند سے کام لیتے ہوئے کہا ’’انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘
’’ہمیں ڈر ہے کہ اگر ہم پاکستان جائیں تو مشرف ہمیں بھی گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے نہ کر دے۔‘‘راجہ صاحب یقیناً اس وزیر خارجہ کی شکایت سے پریشان ہوئے ہوں گے لیکن پرویز مشرف جو ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا ڈرامہ رچایا کرتے تھے پاکستان کیساتھ یہ سلوک کیا کرتے تھے۔ ان کے دوسرے جرائم تو ایک طرف صرف تنہا یہ ایک جرم ہی ان کی پراسیکیوشن کیلئے کافی قرار دیا جانا چاہیے۔
عالم اسلام کا والہانہ تعاون :
راجہ صاحب نے رخ کو موڑتے ہوئے کہا 1965ء کی جنگ کا زمانہ پاکستان کیلئے کس قدر خطرناک اور نازک تھا اس دور میں ہمارا مقابلہ اپنے سے پانچ گنا اور فوجی اعتبار سے آٹھ گنا بڑے دشمن بھارت سے تھا اس جارحیت کا ارتکاب اس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان واقع مسلمہ بین الاقوامی سرحد کے احترام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیالکوٹ‘ ڈسکہ اور لاہور کی اطراف سے حملہ کیا اور بین الاقوامی میڈیا کے ذریعہ لاہور سمیت بہت سے شہروں پر جھنڈے بھی گاڑ دئیے جو سراسر بے بنیاد تھے لیکن ترکی تھا یا ایران‘ سعودی عرب تھا یا انڈونیشیا اور ملائشیا تمام عالم اسلام ہمارے ساتھ تھا جس طرح مسلمان ممالک نے اپنے ائر پورٹس پاکستان کے فوجی اور سول طیاروں کیلئے پارکنگ کیلئے کھول دئیے‘ ترکی نے فوجی یعنی اسلحی امداد کو واشگاف کر دیا۔ سعودی عرب نے ہماری امداد کی‘ انڈونیشیا نے کراچی کی بندرگاہ کی حفاظت کیلئے صدر سوئیکارنو کے احکام پر اپنے بحری جنگی جہاز بھجوا کر ہمارا ساتھ دیا پھر یہ امداد اور تعاون صرف ایک عرب یا ایک مسلمان ملک کی طرف سے تو نہیں تھا‘ پورا عالم اسلام ہمارے ساتھ تھا اور یہ نہ سمجھئے کہ اب نہیں ہے اب بھی ہے صرف ہمیں اپنے گھر کی خبر لینی چاہیے۔ جمہوری نظام کے تسلسل کیساتھ ساتھ اتحاد و اتفاق اور اپنے اندر بے اعتمادی اور بزدلی کی جگہ غیرت و حمیت اور قوت کار پر بھروسہ کرناچاہیے‘ ہم ذرا ذرا سی بات پر ڈر جاتے ہیں۔ جب ہم نے 1998 میں ایٹمی دھماکے کئے تو عالم اسلام اور عالم عرب کے گوشہ گوشہ میں عوام پاکستان پر فدا ہو رہے تھے ہر مسلمان سمجھ رہا تھا جیسے وہ ناقابل تسخیر ہو گیا ہے! امریکہ سمیت یورپی ملکوں نے کیا کیا؟ ہماری اقتصادی ناکہ بندی کرنے کا اعلان کر دیا اس پر ایرانی صدر کا ردعمل خوشگوار تھا انہوں نے کہا کہ ’’امریکہ کی طرف سے اقتصادی ناکہ بندی پاکستان کیلئے سب سے بڑا سنہری موقع ہے‘ جب ہم پر اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں تو یہ پابندیاں ہمارے لئے رحمت ثابت ہوئیں ہم میں ان باطل قوتوں کیخلاف ڈٹ جانے کا حوصلہ پیدا ہوا اور ان پابندیوں کو اپنے لئے قوت اور خود انحصاری کی بنیاد بنا لیا۔‘‘
پاکستان کا مستقبل : وسطی ایشیائی ریاستیں اور موٹر وے
راجہ صاحب نے اس تسلسل میں کہ عالم اسلام اور پاکستان کے درمیان تعلقات محبت و اعتماد کی کس قدر گہرائی ہے کہنے لگے اب آپ کو میں وسطی ایشیائی ریاستوں (سکس سنٹرل ایشین سٹیٹس) کی طرف لئے چلتا ہوں۔
سوویت یونین کی تحلیل اور ستر سالہ ہولناک اور ذہنی گرفت کے بعد جب قازقستان‘ کرگستان‘ تاجکستان‘ ترکمانستان‘ ازبکستان اور آذربائیجان آزاد ہوئے تو انکی نگاہیں عالم اسلام کیساتھ ساتھ پاکستان کی طرف بالخصوص اٹھنا شروع ہوئیں کیونکہ پاکستان اور ان نوآزاد ریاستوں کیساتھ ہمارے جغرافیائی ‘ تاریخی‘ اقتصادی‘ تجارتی‘ معاشرتی اور دینی رشتے صدیوں سے چلے آ رہے تھے جن میں روسی قبضہ کے بعد سترسال تک تعطل رہا۔ (جاری ہے)