روٹی ،پسینہ اور آنسو 

Apr 30, 2025

لبنی صفدر

(لبنیٰ صفدر)

بچپن میں جب کبھی اپنے والد کے ساتھ بازار جاتی تو اکثر ایک بوڑھے مزدور کو ریڑھی کھینچتے دیکھتی، جو ہر موسم میں ایک ہی لباس میں پسینہ پونچھتے ہوئے زندگی کو اپنے کندھوں پر لادے چل رہا ہوتا۔ اب سوچتی ہوں تو لگتا ہے کہ وہ ریڑھی صرف سامان کی نہیں تھی، پورے سماج کی منافقت کا بوجھ تھی۔ آج بھی جب سڑک کے کنارے مزدوروں کو اینٹیں ڈھوتے، دھوپ میں جھلستے یا کسی فیکٹری کے گیٹ پر اجرت کا انتظار کرتے دیکھتی ہوں، تو دل سوال کرتا ہے:
کیا آٹھ گھنٹے کا خواب صرف نعرہ ہی رہے گا؟
1886ء کا وہ دن، جب شکاگو کے مزدوروں نے تاریخ کا وہ سچ لکھا جو آج بھی ہر مظلوم کے سینے میں دھڑکتا ہے، محض ایک واقعہ نہیں، بلکہ مزدور تحریک کا قلب و مرکز ہے۔
"آٹھ گھنٹے کام، آٹھ گھنٹے آرام، آٹھ گھنٹے اپنی مرضی کے لیے"
یہ صرف وقتی تقاضا نہیں تھا، بلکہ ایک ایسا اصول تھا جو انسان کو مشین بننے سے روکنے کی آخری کوشش تھی۔ لیکن افسوس! شکاگو کی گولیوں، پھانسیوں، اور لہو سے رقم کی گئی یہ تاریخ، ترقی پذیر ممالک میں آج بھی محض ایک رسمی یادگار بن چکی ہے۔
پاکستان میں آج بھی مزدور اْس مقام پر کھڑا ہے جہاں سے اس نے صدی پہلے سفر شروع کیا تھا۔ دہاڑی پر کھڑا شخص آج بھی کنکریٹ کے بوجھ تلے دب کر مزدوری سے پہلے اپنی انسانی شناخت کھو بیٹھتا ہے۔ یونین کی اجازت ہے، مگر زبان کھولنے کی اجازت نہیں۔ قانون موجود ہے، مگر صرف فائلوں میں۔ سوشل سیکیورٹی کی باتیں ہیں، مگر فائدہ صرف چند اداروں کو۔
کسی فیکٹری کے گیٹ پر کھڑے مزدور سے پوچھیں کہ اْس کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟ وہ کہے گا: "شام کو بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دو وقت کی روٹی کھا سکوں۔"
اور یہی خواہش، شکاگو کے مظاہرین کی صدا تھی۔ وہ صدا جو ایک صدی بعد بھی گونج رہی ہے مگر سننے والا کوئی نہیں۔
آج بھی جب گلی کے نکڑ پر مزدور کی بیٹی کتاب کی بجائے جھاڑو تھامتی ہے، جب فیکٹری میں کام کرتی لڑکی تنخواہ سے زیادہ خوف کی قیمت ادا کرتی ہے، تو دل کہتا ہے کہ ترقی کے یہ خواب جھوٹے ہیں، اگر اْن کی بنیاد پر انصاف نہ ہو۔
خواتین مزدوروں کی دوہری مشکلات کا مسئلہ ایک پیچیدہ اور کثیر الجہتی موضوع ہے جو نہ صرف اقتصادی بلکہ سماجی، ثقافتی اور سیاسی سطح پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ خواتین مزدوروں کو جو مشکلات پیش آتی ہیں، وہ ان کے مزدور ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے جنس کی بنیاد پر بھی مخصوص ہوتی ہیں، جس سے ان کی زندگی میں دوگنا بوجھ آتا ہے۔ یہ مشکلات درج ذیل پہلوؤں پر مشتمل ہیں:
خواتین مزدوروں کو اکثر کم اجرت پر کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، حالانکہ ان کی محنت مردوں کے برابر ہوتی ہے۔ ان کی محنت کا مناسب موازنہ نہ کیا جاتا ہے، اور انہیں معمولی تنخواہ ملتی ہے۔ اس کے علاوہ، خواتین کے لیے صحت کی سہولتیں، روزگار کی حفاظت، اور ایمرجنسی میں مدد کی کمی ہوتی ہے۔
خواتین مزدوروں پر گھر کے کام کاج، بچوں کی دیکھ بھال، اور دیگر خاندانی ذمہ داریوں کا اضافی بوجھ ہوتا ہے۔ یہ دوہری ذمہ داریاں انہیں نہ صرف جسمانی طور پر تھکا دیتی ہیں بلکہ ان کی پیشہ ورانہ زندگی پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ اکثر خواتین مزدوروں کو اس بات کا سامنا ہوتا ہے کہ وہ اپنے کام کے دوران خاندانی ذمہ داریوں کو نظرانداز نہیں کر سکتیں، اور یہی وجہ ہے کہ وہ کام کے دوران زیادہ تھکن اور تنائو کا شکار ہوتی ہیں۔
خواتین مزدوروں کو اکثر پیشہ ورانہ ترقی کے مواقع نہیں ملتے۔ انہیں مردوں کے مقابلے میں کم اہمیت دی جاتی ہے اور ان کے کام کے نتائج کو مناسب طریقے سے تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اس کے نتیجے میں خواتین کی صلاحیتیں مکمل طور پر نکھر کر سامنے نہیں آتیں، اور انہیں اکثر کم منصب یا غیر مستحکم نوکریوں میں رکھا جاتا ہے۔
خواتین مزدوروں کو کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کا سامنا بھی ایک بڑی مشکل ہے۔ یہ مسئلہ خاص طور پر ان خواتین کے لیے بڑھ جاتا ہے جو غیر رسمی شعبوں میں کام کرتی ہیں، جیسے کہ گھریلو ملازمائیں، کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین، یا کم اجرت والے کاموں میں۔ جنسی ہراسانی نہ صرف ان کی ذہنی اور جسمانی حالت پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ ان کی معاشی حالت کو بھی مزید بتر بنا دیتی ہے۔
اگرچہ دنیا بھر میں مزدوروں کے حقوق کے لیے قوانین موجود ہیں، لیکن خواتین مزدوروں کے لیے ان قوانین کا نفاذ زیادہ مؤثر نہیں ہوتا۔ ان کے حقوق کا تحفظ کرنے والی قانونی سہولتیں کمزور ہوتی ہیں، اور ان کے پاس یہ وسائل نہیں ہوتے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے قانونی جنگ لڑ سکیں۔
خواتین کو بہت کم تعلیمی مواقع ملتے ہیں، خاص طور پر غریب اور دیہی علاقوں میں۔ اس کمی کا اثر ان کی پیشہ ورانہ زندگی پر پڑتا ہے، کیونکہ کم تعلیم یافتہ خواتین کو زیادہ مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کے لیے اعلیٰ مقام پر پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔
خواتین مزدوروں کے لیے سماجی سطح پر تعصبات بھی ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ خاص طور پر وہ خواتین جو غیر روایتی شعبوں میں کام کرتی ہیں، جیسے کہ تعمیرات یا صنعتی شعبہ، انہیں سماجی طور پر تسلیم کرنے کی بجائے اکثر نظرانداز یا مذاق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تعصبات ان کے جذباتی اور نفسیاتی صحت پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔
خواتین مزدوروں کی دوہری مشکلات کا حل صرف اقتصادی اصلاحات سے نہیں آ سکتا، بلکہ یہ ایک سماجی اور ثقافتی تبدیلی کی ضرورت بھی ہے۔ خواتین کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنا، ان کی تعلیم اور پیشہ ورانہ مہارت میں بہتری لانا، اور قانونی سطح پر ان کے تحفظ کے لیے مؤثر قوانین نافذ کرنا اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ضروری اقدامات ہیں۔ اس کے علاوہ، مردوں اور خواتین کے درمیان برابری کے اصولوں کو فروغ دینا اور کام کی جگہوں پر جنس کی بنیاد پر تفریق کو ختم کرنا بھی اس تبدیلی کی طرف ایک اہم قدم ہے۔
ادب اور شاعری نے ہمیشہ مزدور کی اس تذلیل کو محسوس کیا۔ فیض احمد فیض کی نظموں میں مزدور کی آنکھوں کا خواب ہے، جالب کی صداؤں میں اْس کے سینے کا درد ہے۔
"نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن" ہو یا "ایسے دستور کو میں نہیں مانتا"، یہ صرف اشعار نہیں، ایک طبقاتی فریاد ہے جو اقتدار کے ایوانوں تک رسائی چاہتی ہے۔
کارل مارکس نے کہا تھا:
"The history of all hitherto existing society is the history of class struggles."
اور اگر ہم دیانتداری سے اپنے معاشرے کا تجزیہ کریں تو ہمیں ہر سڑک، ہر گلی، ہر فیکٹری میں یہ طبقاتی کشمکش صاف دکھائی دیتی ہے۔
خواتین مزدوروں کی کہانی تو اس سے بھی زیادہ کربناک ہے۔ وہ دہری غلامی کا شکار ہیں — مشقت کی بھی، اور معاشرتی تعصب کی بھی۔ مزدوری کم، عزت کی کمی زیادہ۔ ایسے میں جب کوئی سماجی کارکن یا ادیب اْن کے حق میں آواز بلند کرتا ہے، تو یہ نہ صرف ایک فکری ذمہ داری ہے بلکہ اخلاقی فرض بھی۔
یومِ مزدور صرف پھول چڑھانے یا بینر لگانے کا دن نہیں، بلکہ سماج سے پوچھنے کا دن ہے کہ کیا تم نے اپنے محنت کش کو انسان مانا؟ کیا تم نے اْسے وہ حق دیا جس کا وعدہ کیا؟ اگر نہیں، تو پھر یہ دن ایک مذاق ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے:
یہ محض آٹھ گھنٹے کی بات نہیں، یہ انسانی وقار کی بات ہے۔ یہ اْس عزتِ نفس کی بات ہے جس کے بغیر کوئی معاشرہ مہذب نہیں بن سکتا۔
اگر ہمیں ایک بہتر پاکستان بنانا ہے، تو مزدور کو صرف روزی نہیں، عزت دینی ہوگی — تعلیم، صحت، تحفظ، اور فیصلہ سازی کا حق دینا ہوگا۔
کالم کے اختتام پر میں بس یہی کہنا چاہوں گی کہ:
"وہ خواب جو ایک صدی پہلے شکاگو کی گلیوں میں جاگا تھا، ابھی تک جاگنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن ہم سب سو رہے ہیں۔"

مزیدخبریں