مبارک ہو، اسحاق ڈار صاحب بھی صاحب تخلیص ہو گئے۔ انہوں نے ڈپٹی وزیر اعظم اپنا تخلّص رکھا ہے۔ تخلّص قدرے غیر روایتی اور لمبا یعنی سہ لفظی ہے لیکن اتنی بھاری بھرکم شخصیت کیلئے تین تو کیا، چار لفظی تخلّص بھی رکھا جا سکتا ہے۔ ویسے باخبر ذرائع یہ خبر لائے ہیں کہ تخلّص کا انتخاب انہوں نے خود نہیں کیا بلکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے تجویز کیا اور باخبر ذرائع ساتھ ہی یہ خبر بھی لائے ہیں کہ اس تخلّص کی باقاعدہ منظوری ’’مقتدرہ‘‘ سے بھی لی گئی۔ مقتدرہ سے آپ کیا سمجھے، ارے بھائی، ’’مقتدرہ اْردو زبان‘‘ کی بات ہو رہی ہے کہ لسانیات و ادبیات پر اسی کا اختیار چلتا ہے۔ ان خبروں سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ نواز شریف کے جو جلد ہی اپنی پارٹی کی قیادت سنبھالنے والے ہیں، مقتدرہ اْردو زبان سے تعلقات میں قدرے گرم جوشی آتی جا رہی ہے۔ دعا ہے کہ کمپوزر صاحب گرم جوشی کو گرم جوشی ہی لکھیں، گرم جرسی نہ لکھ دیں جیسے انہوں نے سولہ آنے پائو رتّی کو سولہ آنے یاد آتی بنا دیا تھا حالانکہ سولہ آنے یاد آتے ہیں، یاد آتی نہیں ہیں۔
___
نائب وزیر اعظم کا تخلّص اس سے پہلے زرداری صاحب نے اپنی حکومت کے زمانے میں قبلہ پرویز الٰہی کو دیا تھا اور خود انہی کی خواہش پر دیا تھا۔ لیکن یہ تخلّص عوام کو پسند نہیں آیا، انہوں نے ڈپٹی کی جگہ نکّا لگا دیا یعنی نکّا وزیر اعظم کہنے لگے حالانکہ پرویز الٰہی نکّے نہیں تھے، وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے عمر میں دوگنے بڑے تھے، خود صدر آصف علی زرداری سے بھی لگ بھگ پچاس برس سینئر تو ہوں گے (ایسا لگتا ہے)۔ ان کا یہ تخلّص اتنا مشہور ہوا کہ زرداری حکومت کے خاتمے کے بعد بھی وہ ’’نکّے‘‘ کے نام سے مشہور رہے۔ یہ تخلّص انہیں اتنا پسند آیا کہ اگلے دس بارہ برس تک وہ کسی کو بھی فون کرتے تو یوں مخاطب ہوتے ’’نکّا بول رہا ہوں‘‘۔
کوئی ڈیڑھ برس پہلے ان کا یہ تخلّص قصّہ ماضی بن گیا اور اس کی جگہ ’’پائیوڈین‘‘ نے لے لی۔ یعنی لوگوں نے ان کا تخلّص پائیوڈین رکھ دیا۔ وجہ تسمیہ اس تخلّص کی یہ بتائی جاتی ہے کہ اسمبلی کے اجلاس میں ان کی کسی سے ہاتھا پائی ہو گئی۔ یہ معلوم نہیں ہوا کہ دراز دستی اور دھول دھپّے میں پہل کس فریق کی تھی۔ خیر، اس دھول دھپّے میں ان کا بازو فریکچر ہو گیا۔ ان کے سٹاف میں سے کسی نے فوراً ہی ’’فریکچر‘‘ والی جگہ پر پائیوڈین لگا دی اور قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ پائیوڈین لگانے سے فریکچر جڑ گیا اور دو ہی دن بعد چودھری صاحب خود بھی ہٹے کٹے اور ان کا فریکچر زدہ بازو بھی ہٹا کٹا ہو گیا۔ تب سے ان کا یہ تخلّص پڑ گیا اور ابھی تک یہی تخلّص چل رہا ہے۔
_____
ڈپٹی پرائم منسٹر کی ماضی میں دو مثالیں اور بھی ملتی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم ، یحییٰ خاں کی حکومت کے آخری دنوں میں اس عہدے پر فائز رہے۔ وزیر اعظم نورالامین صاحب تھے ان کی ڈپٹی پرائم منسٹری کے دوران پاکستان دولخت ہو گیا جس کے بعد بھٹو صاحب وزیر اعظم بنے۔ لیکن یہ ڈپٹی پرائمر منسٹری آئین کے تحت نہیں تھی، یحییٰ خاں کے مارشل لا فریم ورک آرڈر کے تحت تھی۔ بہت بعدازاں ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنیں تو انہوں نے کچھ مہینوں کیلئے اپنی والدہ محترمہ نصرت بھٹو کو نائب وزیراعظم بنایا۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ خود عمران خان صاحب بھی ڈپٹی وزیر اعظم تھے، وزیراعظم کا منصب غیر علانیہ طور پر ’’مرشدانی جی‘‘ کے پاس تھا۔
____
کہا جا رہا ہے کہ آئین میں ڈپٹی وزیر اعظم کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے لہٰذا حکومت نے ڈار صاحب کو ڈپٹی بنا کر غیر آئینی کام کیا ہے۔
عرض ہے کہ گنجائش ہوتی نہیں، پیدا کی جاتی ہے۔ ٹرانسپورٹ میں تین آدمیوں کی سیٹ پر تین ہی آدمی بیٹھے ہوں تو چوتھے کیلئے گنجائش ’’نال ہو جا‘‘ یا ذرا کھسکیو تو‘‘ کہہ کر نکالی جاتی ہے۔ اور یہاں ماجرا گنجائش نکالنے سے بھی کچھ زیادہ کا ہے۔ دراصل نواز شریف نے پچھلے دنوں شہباز حکومت سے علانیہ دوری اختیار کر لی تھی، اسحاق ڈار کو ڈپٹی بنا کر یہ دوری دور کر دی گئی ہے۔ معاملہ آئینی ہے نہ انتظامی بلکہ سیاسی ہے اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس اقدام کے ساتھ ہی وہ ’’پیش گوئی‘‘ بھی کالعدم ہو گئی کہ شہباز کی وزارت عظمیٰ محض چھ ماہ چلے گی۔
____
’’خان‘‘ نے ایک بار پھر، یعنی کل ملا کر 170 ویں بار مقتدرہ اْردو زبان سے درخواست کی ہے کہ وہ ان سے مذاکرات کر لیں۔ درخواستوں کی اتنی بڑی ’’تعداد‘‘ کے پیش نظر پی ٹی آئی ہی کے بعض رہنما یہ سوچ رہے ہیں کہ کیوں نہ خان کو ’’درخواستی‘‘ کا ٹائٹل دے دیا جائے یعنی قائد انقلاب خان درخواستی۔ لیکن پھر انہی میں سے کسی رہنما نے کہا کہ یہ ٹائٹل ایک بزرگ دینی رہنما کا تھا جو اب مرحوم ہو چکے، ان کے عقیدت مند ناراض ہو جائیں گے۔
چند دن قبل پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے معروف تجزیہ کار نے انکشاف کیا تھا کہ درخواستی خان نے مسلح افواج کو حکم دیا ہے کہ ان کے سربراہان اڈیالہ جیل میں پیش ہو کر چار چار معافی نامے پیش کریں (اور یہ کارروائی لائیو نشر کی جائے) معافی ناموں کا تعلق امریکی حکم پر ان کی حکومت ختم کرنے، انہیں گرفتار کرنے، انہیں سزا دینے اور 9 مئی کا فالس فلیگ آپریشن کرنے نیز مینڈیٹ چرانے سے تھا۔ (ازاں بعد یہی سربراہ انہیں بگھی پر بٹھا کر ایوان وزیر اعظم لے جائیں)
لیکن کل پارٹی کے رہنما جو پاکستان پر عالمی پابندیاں لگوانے کو بہت بے چین رہتے ہیں یعنی کہ رئوف حسن نے کہا کہ ہم نے تو ڈیڑھ سال سے فوج کے ساتھ مذاکرات کیلئے کمیٹی بنا رکھی ہے لیکن ادھر سے کچھ جواب ہی نہیں آتا۔ آج ہی ایک اور قومی اخبار کے تجزیہ کار نے لکھا ہے کہ خان درخواستی خان کی ہر درخواست پر ادھر سے نو لفٹ کا جواب آتا ہے بلکہ وہ تو موصوف کو ’’منفی‘‘ سمجھتے ہیں، مرزا اسد اللہ خاں درخواستی، معاف کیجئے گا، غالب کا شعر یاد آیا
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔
(نوٹ۔ مشتاق کا ترجمہ مقتدرہ اردو زباں والے ’’درخواستی‘‘ بھی لکھتے ہیں)۔
ذاتی پریشانی کا سبب بننے والا ایک واقعہ
May 20, 2024