فہمیدہ کوثر
ایک روایت ہے کہ ایک شخص گدھے پر سوار کہیں جارہا تھا کہ راستے میں اس نے چند نوجونوں کو اس پر ھنستے ہوئے سنا ایک نوجوان بولا ارے بیوقوف ایک مریل سے گدھے پر تم نے اتناوزن لادا ہوا ہے اب اس موٹے شخص کو اندازہ ہوا کہ اوہو ،وہ تو واقعی گدھے پر ظلم کرہا تھا اس نے گدھے پر ترس کھاتے ہوئے اسے بمشکل اپنی پیٹھ پر اٹھالیا ابھی کچھ دور ہی گیا تھا کہ پھر سے اسے آواز سنائی دی بیوقوف گدھا سواری کے کام آتا ہے موٹے آدمی نے پھر سیگدھے کونیچے اتارا اور پدل چلنے لگا اب گدھا اور انسان دونوں پیدل چل رہے تھے پھر اسے یہ الفاط سننے کوملے کہ جب گدھا سواری کیلئے ہے تو پیدل کیوں چل رہے ہو اب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اس نے گدھے کو پاس ہی کنویں میں پھینک دیا کہا جاتا ہے کہ کھوہ کھاتے کی روایتی اصطلاح بھی یہیں سے نکلی ہے کھوہ کھاتے کا اصطلاحی مفہوم تو یہ ہے کہ جس چیز سے ذاتی مفادات کو خطرہ پہنچتا ہو اسے کھوہ کھاتے کردو کھوہ کھاتے کرنا اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا نا۔ ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں کہ مفادات کے حصول کی آڑ میں عوام کی توجہ ان عوامل کی طرف اشارہ ہے جسکا کوئی حاصل نہیں پروین شاکر کا شعر ہے
جگنو کودن کی روشنی میں پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے
چالاک توعوام بھی ہوگئی ہے اب وہ ٹرک کی بتی کے پیچھے نہیں لگتے بلکہ ٹرک کے پیچھے لکھے گئے جملوں ہر توجہ دیتے ہیں جومعاشرے کے ان المناک رویوں کی عکاسی کرتے ہیں۔تو لنگ جا ساڈی خیر اے۔ ہارن دے کر پاس کریں۔ اور آخر میں بیبسی کی انتہا اور داستان اس جملے پر ختم ہوجاتی ہے کہ وقت نے ایک بار پھر دلہن بنادیا۔ راقمہ کوایک بار بہاولپور سے لاہور تک کے سفر کا موقع ان محاورات نے دماغ کی نئی جہت کھول دی کہ زندگی میں بادشاہت تو خدا کی ہے اور ہم فانی دنیا کے لوگ طاقت کو خدا ماننے لگ گئے جب خدا ئی طاقت چیلنج ہوتی ہے تو پھر جزا اور سزا کے فیصلے ہوتے اجتماعی مفاد کے حصول کے دوتقاصے ہیں یاتو آزاد قومیں ماضی کے آئینے میں اپنی روایات تلاش کرتی ہیں یا پھر دورحاضرکیرخ۔زیبا پر مستقبل کو خوبصورت بناتی ہیں لیکن ہماری پاکستان کی تاریخ میں نہ تو مضبوط روایات ہیں جنہوں نے ہمیں اخوت اور محبت کے دائرے مین پرویا ہو بقول شاعر
میرا نقصان تو دیکھو محبت گمشدہ میری۔
اور نہ دور حاضر کی ہمارے پاس حکمت عملیاں ہیں کہ ہم مستقبل کو محفوظ بناسکیں کتنا عرصہ گزگیا قوم آج بھی اس رہنما کی منتظر ہے جو انکی زندگی کو کم از کم اتنا سہل بنادے کہ انکو بنیادی ضروریا میسر ہوجائے جو لوگ قائداعظم کی بلند قامت بگھی میں سوار رہنمائی کے وارث ثابت ہوئے وہ مٹی کے مادھو ثابت ہوئے لیاقت علی خان کی اعلی قیادت کے بعد قیادت نہ رہی سیادت رہ گئی راہنمائی نہ رہی لیڈری رہ گئی پھر مملکت۔ خداداد بھی ایک تجرباتی ریاست رہ گئی ایک طرف فوج کی طویل حکمرانی اورشخصی آمریت نے جمہوریت کے پودے کی آبیاری نہ کی دوسری طرف سیاسدانوں نے ذاتی مفادات کی راہ ہموار رکھی جس کے نتیجے میں الزام تراشیاں مالی کرپشن اور اور غداری جیسی روایات سامنے آنے لگیں جو وعدے عوام سے کئے گئے وہ پورے تونہ ہوئے لیکن غیر ملکی قرضوں کابوجھ بڑھتا چلاگیا آج اس قرض کو ادا کرنے کے لئے سالانہ ادائیگی کی قسط بھی مشکل ہوگئی ہے ممتاز مفتی نے لکھاکہ دو آدمی ایک بورڈ پر جھگڑ رہے تھے ایک کا استدلال تھا کہ بورڈ نیلا ہے دوسرے کا خیال تھا کہ بورڈ سرخ ہے ایک راہگیر پاس سے گزرا اور اس نے بتایا کہ بورڈ ایک طرف سے نیلا اور دوسری طرف سے سرخ ہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے اور نت نئے بیانیے سے ایک دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہمارا اصل موضوع تو پاکستان ہے ہم اصل موضوع سے ہٹ کر ایک دوسرے کی خامیاں ڈھونڈ رہے ہیں اور اگر کوئی حقیقت واضح بھی کرے آئین کی تشریح بھی کرے تو ہم ماننے کے لئے تیار نہیں اکیسویں صدی کیپریشر کو برداشت کرنے کے لئے ہمیں اجتمائی مفاد اور شعور کوچاٹنے والی اندرونی کمزوریوں کے خلاف جنگ کی ضرورت ہے ہماری پسماندگی کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اجتماعی شعور کی جڑوں میں خود غرضی کاوائرس چھپاہواہے تحقیق اور علاج کے بغیر ہم اپنی منصوبہ بندی کو صرف پتے جھاڑنے تک محدود کئے ہوئے ہیں
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024