جمعۃ المبارک‘ 17؍ رمضان المبارک 1442ھ‘ 30؍ اپریل2021ء
وزیراعظم سے باغی ارکان کی ملاقات
جہانگیر ترین گروپ کی وزیراعظم سے ملاقات کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے والی بات کے سوا کچھ معلوم نہیں ہوتی۔ دونوں طرف سے خدا خدا کرکے جنبش ہوئی تھی۔ وزیراعظم بالآخر ملاقات پر آمادہ ہوئے مگر چند منٹوں کی ملاقات میں کیا برف پگھلی ہوگی۔ اتنے مختصر وقت میں تو اچھی طرح سلام دعا بھی نہیں ہوتی، شکوہ شکایات سننے کا وقت کہاں ملتا ہے۔ اگر کچھ ہوا بھی تو دو جملوں میں بات ہوئی ہوگی کہ ’’جہانگیر ترین کے مسئلے میں انصاف کریں۔‘‘ جواب آیا کہ ’’تحقیقات نہیں روکوں گا‘‘ یوں
کچھ بھی نہ کہا کہہ بھی گئے
کچھ کہتے کہتے رہ بھی گئے
والی اس ملاقات میں معاملہ طے ہوا یا نہیں البتہ اختلاف کی خلیج اور گہری ہوتی نظر آرہی ہے۔ وزیراعظم نے اس شخص کو ارکان کے تحفظات کا جائزہ والی کمیٹی کارکن مقرر کیا ہے جس کی ملاقات میں موجودگی پر ہی باغی گرو پ کو اعتراض تھا مگر وزیراعظم علی ظفر کی موجودگی پر مصررہے۔ اس سے حالت کی بہتری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ صرف یہی نہیں شہزاد اکبر کو بھی ہٹایا نہیں گیا وہ بھی اپنے مقام پر برقرار ہیں۔ تاہم وزیراعظم نے جہانگیر ترین کو اپنا دوست قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوگی۔ یہ سب ہونے کے بعد’’ نا انصافی‘‘ اور کس کو کہتے ہیں اس پر تو
اب وزیراعظم کے اس رویئے کا جہانگیر ترین پر کیا اثر ہوتا ہے معلوم نہیں مگر ملاقات کرنے والے ارکان کیا کہیں گے جنہیں بلا کر ٹرخا دیا گیا وہ بھی خالی ہاتھ۔وہ بھی سوچ رہے ہوں گے اگر یہی ہونا تھا تو بلایا ہی کیوں تھا۔
٭٭٭٭٭
فیول ایڈجسٹمنٹ : بجلی کی قیمت 68 پیسے فی یونٹ کم ہونے کا امکان
اس پر تو بے اختیار ’’کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا‘‘کہنے کو جی چاہتا ہے کیونکہچند پیسوں کی گرچہ کوئی قدروقیمت نہیں ہوتی مگر چلیں حکومت کی طرف سے چند پیسوں کی رعایت بھی بجلی صارفین کیلئے خوشی کی خبر ہی ہے۔ مگر یہ خوشی کہیں کسی بڑے غم کا پیشہ خیمہ نہ ہو اور چند روز بعد ہی خبر آجائے کہ بجلی کی قیمت میں ہماری پیاری راج دلاری آئی ایم ایف کی خواہش پر 3 یا 4 روپے فی یونٹ اضافہ کردیا گیا ہے۔ یوں یہ چند پیسوں کی خوشی بھی منٹوں میں غارت ہوجائے۔ حکومت کی دریا دلی دیکھنی ہو تو بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے اعلانات میں دیکھی جائے۔ عوام کی دلجوئی کے نام پر حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے چند پیسوں کی رعایت دی جاتی ہے اور اسے بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے مگر جب اضافہ کی بات ہوتی ہے تو بات روپوں تک جاپہنچتی ہے۔کیونکہ یہاں عوام نہیں آئی ایم ایف کی خوشنودی مقصود ہوتی ہے۔ اس پر لوگ بے اختیار ’’تم یہ احسان نہ کرتے تو یہ احسان ہوتا‘‘ کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔اس لئے حکومت کم ہی سہی مگر اس رعایت کو کچھ دن ضرور برقرار رکھے تاکہ عوام کو 86 پیسے فی یونٹ کمی کا مزہ لوٹنے کا موقع مل سکے اور وہ اس گرمیوں میں کم از کم ایک آدھ پنکھا ہر وقت چلا کر اس رعایت سے گرمی کا توڑ ہی نکال سکیں۔
٭٭٭٭٭
پاکستان میں بننے والے وینٹی لیٹر کے استعمال کی اجازت
کرونا میں شدت کے بعد اس سے متاثرہ افراد کیلئے ویکسین اور ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر کی فراہمی ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کیلئے حکومت اور تمام ادارے بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ ویکسین کی تیاری تو ’’ہنوز دلی دوراست‘‘ والی بات ہے مگر وینٹی لیٹرز کے حوالے سے کچھ اداروں نے کارکردگی دکھائی ہے۔ مگر اس میں ابھی تک مکمل کامیابی نہیں ہوئی تھیجب فواد چودھری وزیر سائنس و ٹیکنالوجی تھے تو انہوں نے پاکستان میں تیار ہونے والے وینٹی لیٹرز کو ناقابل استعمال قرار دیا تھا۔ اس وقت کے وزیر اطلاعات شبلی فراز نے ان کے بیان کو غلط قرار دیا تھا اور کہا تھا شاید انہیں پوری جانکاری نہیں بہرحال انہی دنوں وزارتیں موسم کی طرح تبدیل ہوئیں۔ اب فواد جی وزیر اطلاعات ہیں اور شبلی جی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اب انہوں نے پاکستان ایٹمی توانائی کمشن کا سائنسدانوں اور انجینئرز کے مقامی وسائل سے تیار ہونے والے وینٹی لیٹر کو قابل استعمال قرار دے کر اسے ہسپتالوں میں لگانے کی اجازت دے دی ہے۔ یوں کم از کم اب ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی کمیابی کا مسئلہ کسی حد تک حل ہوتا نظر آنے لگا ہے۔ ہمارے سائنسی اداروں کو مکمل اعتماد کے ساتھ کام کرنے دیا جائے۔ حکومت ان کی سرپرستی کرے تو کوئی وجہ نہیں ہے جان بچانے والے آلات وادویات میں خودکفیل نہ ہوں۔ خدا کرے یہ وینٹی لیٹرز مکمل کارآمد ہوں اور ہزاروں زندگیوں کو بچانے میں معاون ثابت ہوں۔ ملک بھر میں ان کی جو قلت ہے وہ دور ہو۔ بھارت میں دیکھ لیں وینٹی لیٹرز نہ ہونے کی وجہ سے کیا قیامت برپا ہے۔ خدا ہمیں اس حالت سے محفوظ رکھے ۔
٭٭٭٭٭
دادا دادی جھوٹ بولتے ہیں، باپ زندہ ہے: بیٹے کا انکشاف
سچائی خودبخود سامنے آجاتی ہے اسے زبردستی منوانا نہیں پڑتا۔ جھوٹ کی یہی خرابی ہے کہ اس کو منوانے کیلئے ہزار اور جھوٹ بھی بولنے پڑتے ہیں۔ پاکپتن میں یہ عجب صورتحال اس وقت سامنے آئی جب بنک فراڈ کیس کے مرحوم ملزم کے بیٹے نے یہ انکشاف کیا کہ اس کا باپ زندہ ہے اس طرح ایک مردہ کا زندہ ہونا سب کو حیران کرگیا۔ فراڈی کے والدین نے اس کی موت کی صرف خبر ہی نہیں دی تھی بلکہ عدالت میں اس کا کراچی سے جاری کردہ ڈیتھ (موت کا) سرٹیفکیٹ بھی جمع کرا دیا تھا۔ یوں قانونی طور پر ثابت ہوگیا تھا کہ وہ مرچکا ہے مگر کیس تاحال چل رہا تھا۔ اس سارے ڈرامے کا کلائمیکس اس وقت ہوا جب عدالت میں اس مرحوم فراڈی کے بیٹے نے …؎
خون اسرائیل آجاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ طلسم سامری
والا کردار ادا کرتے ہوئے اصل حقیقت سے عدالت کو آگاہ کردیا۔ حیرت ہے کیا والدین ایسے بھی ہوتے ہیں جو ایک ملزم بیٹے کو بچانے کی قانون سے بچانے کی خاطر اتنا بڑا جھوٹ بولتے ہیں۔ مرنے والے بیٹے کا سوگ مناتے ہیں، قل اور چہلم بھی کرایا ہی ہوگا۔ جنازہ سے کوئی لپٹ کر رویا ہوگا۔ قبر کسی کی بنی ہوگی ان باتوں کا سوچ کر روح کانپ اٹھتی ہے۔ کیا ہم اخلاقی طور پر اتنے گر گئے ہیں کہ پیسوں کی لالچ میں اولاد کی موت کا جھوٹا سوگ بھی منالیتے ہیں۔ یہ تو آفرین ہے اس بیٹے پر جس نے سچی بات کردی۔ اب اس بے چارے کے ساتھ گھر والے کیا سلوک کرتے ہیں۔ ماں باپ نے اسے کہیں یہ کہتے ہوئے عاق ہی نہ کردیں کہ ’’اس گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے‘‘ کیونکہ سچ بولنے کی سزا عام طور پر یہ ملتی ہے۔