شہری ہلاکتوں کو روکنے کیلئے جنگ بندی کی تجویز پر اصرار کرتے ہوئے ان کا استدلال یہ ہے کہ طالبان اشرف غنی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر آمادہ نہیں۔ بٹلر کا یہ بھی کہنا تھا کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں پر نیٹو کو بھی تشویش ہے۔ ہم اعلیٰ ترین مہارت کے ساتھ درست نشانہ لگانے اور جوابدہی کیلئے خود کو پابند سمجھتے ہیں۔ ہم اپنی عسکری کارروائیوں کے دوران ان پہلوئو ں کا خیال رکھنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ گزشتہ برس اقوام متحدہ کی رپورٹ نے عام شہریوں کی ہلاکت میں ڈرامائی اضافہ دکھایا تھا جسکی ذمہ داری حکومت کی حامی افواج پر عائد کی گئی تھی۔ اس رپورٹ کیمطابق فضائی حملوں میں ایک ہزار عام شہریوں کو لقمہ اجل بننا پڑا۔ یہ دس سال میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد بتائی گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے جب سے ان ہلاکتوں کا ریکارڈ مرتب کرنا شروع کیا ہے، اس ریکارڈ کی روشنی میں یہ تعداد بیان ہوئی ہے جس سے معاملے کی سنگینی کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے۔
ستمبر میں مسیح الرحمن کا بارہ رکنی خاندان نشانہ بن گیا تھا۔ اس میں اس کی اہلیہ، چار بیٹیاں، تین بیٹے اور چار بھتیجے شامل تھے۔ یہ واقعہ طالبان کے زیر قبضہ وسطی میدان وردک صوبہ کے ملاحافظ گائوں میں پیش آیا تھا جب ایک بم اس گھر میں پھینک دیاگیا تھا۔ مسیح الرحمن نے اپنے کرب کو بیان کرتے ہوئے یہ حقیقت منشکف کی تھی کہ یہ دردناک کہانی صرف اس اور اسکے خاندان کی نہیں بلکہ ایسے درجنوں خاندان ہیں جو اس ظلم کا نشانہ بن چکے ہیں اور اب انکے پاس اپنے پیاروں کے ماتم اور انکی یاد میں عمر بھر تڑپتے رہنے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں۔ اس کا یہ جملہ اس بہیمانہ اور غیرانسانی ماحول کا پتہ دینے کو کافی ہے کہ موت کا شکار ہم لوگ ہورہے ہیں۔ اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ اس جملے کے اندر کس قدر بے بسی چھپی ہے اور اسلحہ برداروں کی سفاکی اور بے رحمی کا کیا پیمانہ اور درجہ ہے۔ جس وقت یہ حملہ ہوا تھا، اس وقت مسیح الرحمن ایران میں مزدوری کررہا تھا۔ اس نے افغان حکومت اور طالبان دونوں کو اس صورتحال کا قصوار ٹھہرایا۔ اسکا کہنا تھا کہ اسکے گھر سے چار سو میٹر کے فاصلے پر طالبان کے زیر انتظام جیل ہے۔ اس نے اپنے ساتھ ہونیوالے ظلم پر انصاف کی دہائی مچانے کے ساتھ ساتھ افغان انڈیپنڈنٹ ہیومن رائٹس کمشن سے بھی رجوع کیا ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر قائم اس کمشن سے اس نے اپنے غم کی داستان بیان کرنے کے علاوہ انصاف کی دادرسی چاہی ہے۔ انصاف اسے ملے یا نہ ملے لیکن اس کا اثر یہ ہوا کہ اسکے ساتھ ہونے والی ناانصافی ریکارڈ پرضرور آچکی ہے۔
اس کمشن کے مطابق اکتیس مارچ 2018ء سے رواں برس 31 مارچ تک گیارہ ہزار دو سو بارہ عام شہری قتل ہوچکے ہیں۔ سترہ سال سے جنگ میں جلتے افغانستان کے آخری دس سال میں 75 ہزار عام افغان شہری جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے افغانستان کیلئے خصوصی نمائندے تدامیچی یاما موتو کے مطابق عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد پریشان کن ہے اور اسے دیکھ کر دھچکا لگا ہے۔ ہر روز شہری قتل اور معذور ہورہے ہیں۔ یہ نوحہ صرف افغانستان کا نہیں۔ یہ خونچکاں باب صرف دس یا سترہ سال کا بھی نہیں۔ کشمیری، فلسطینی اور افغان اور دنیا کے دیگر خطوں میں نہتے مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ انکے بچے سمندروں اور دریائوں میں ڈوب کر ساحلوں پر لاشوں کی صورت اترتے ہیں۔ ان کی بیٹیوں، مائو ں اور بچوں کی پامالی انسانیت کے چہرے کو سیاہ کررہی ہے۔ انسانی عظمت کی کہانیاں، درس اور تقاریر کو قابل نفرت بنارہی ہیں۔ کوئی وجہ نہیں جو انصاف، جمہوریت اور امن کی سوغات سنگینوں میں بے گناہ انسانوں کو پرو کر بانٹ رہے ہیں، ان سے کون پوچھے گا؟ اْن کو کٹہرے میں کون کھڑا کرے گا؟ ایک نہیں کئی ملازووچ ہیں، ان کی گرفت کون اور کب کرے گا؟ انسانیت بلکتی اور کہرام مچاتی کرہ ارض میں پھر رہی ہے۔ کوئی ان چیخوں کو سننے والا، کان دھرنے والا نہیں۔ انسانیت کے قاتل دندناتے پھر رہے ہیں۔ صرف قاتل ہی نہیں محافظ بھی قاتل ہی کا روپ دھار لیں تو بے بس انسانیت کہاں جائے گی؟ (ختم شد)
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024