تحریک انصاف ڈی چوک کے دھرنے سے پارلیمنٹ ہائوس پہنچنے تک کے سفر قومی سیات کی روایتی وضع داری، شائستگی اور احترام باہم کو پامال کرنے، جگت تضحیک، بدمزگی اور عدم برداشت کے کلچر کو فروغ دینے کی بھی ذمہ دار ہے۔ الیکشن مہم میں بھی پی ٹی آئی کی یہ خوبیاں عروج پر رہیں اور سنجیدہ لوگ حیرانی اور پریشانی کاشکار ہے۔ ایسے میں ایک فریش اور یوتھ کے حقیقی نمائندہ بلاول بھٹو زرداری کے بہتر، شائستہ ، جمہوری ، عوامی اور معیاری طرز عمل نے لوگوں کی بھرپور توجہ حاصل کی۔ بلاول کی بڑھتی مقبولیت سے خائف سیاسی جغادریوں اور ان کے سرپرست پردہ نشین نے پانسہ پلٹتے دیکھا تو بلاول کی الیکشن مہم کی راہ میں کانٹے اور پتھر بچھائے جانے لگے۔ حتیٰ کہ انہیں سکیورٹی خدشات کا بہانہ بنا کر پنجاب میں الیکشن مہم چلانے ہی نہیں دی گئی۔ بلاول بھٹو بھی یہ سب چالیں اور ان کے پس پردہ عوامل سے کماحقہ آگہی رکھتا تھا۔ مگر اس نے ایسی کسی چال میں ٹریپ ہو کر سیاسی آلودگی بڑھانے کے بجائے اپنا راستہ اور اپنا اسلوب جاری رکھا۔ وہ سب دیکھ رہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے اور کون کسے لانے کیلئے بے تاب ہے۔ مگر اس نے یہ سب کچھ ہونے دیا اور اپنے منشور کے مطابق اپنے وژن اپنی سوچ اور اپنے اسلاف کے مشن پر ڈٹا رہا۔ وہ دراصل سیاست، اقتدار، سازشوں، رکاوٹوں کو بچپن سے ہی دیکھتا، سمجھتا اور ان سے ڈیل کرتا آیا تھا۔ وہ کبھی مہرہ بن کر چور دروازہ سے اقتدار میں آنے والوں کا ہم خیال، ہم نوا بن ہی نہیں سکتا تھا اس لئے اس نے اپنے شہید نانا ذوالفقار علی بھٹو اور شہید والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی عملی سیاست سے جو کچھ سیکھا، اخذ کیا اسی پر کاربند رہا۔ وہ اپنی شہید والدہ کی اس بات سے سوفیصد اتفاق کرتا تھا کہ ’’جہوریت بہترین انتقام ہے‘‘۔ بلاول بھٹو بخوبی یہ بات جانتا ہے کہ اس کا سامنا ان قوتوں سے ہے جو حقیقی جمہوریت پر یقین ہی نہیں رکھتیں، تاہم بھٹو خاندان کی جملہ شہادتوں کا اصل مقصد ملک و قوم کیلئے حقیقی جمہوریت کو یقینی بنانا اور آئین کے تحت حاصل پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کرنا ہے۔ اس لئے وہ اپنے اسلاف کے مشن پر جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ الیکشن 2018ء کی انتخابی مہم کے حوالہ سے پوری دنیا میں بلاول بھٹو کے جمہوری اور مثبت طرز عمل کو ہر سطح پر سراہا گیا جبکہ دیگر پارٹیوں اور چنیدہ لوگوں کی سوقیانہ بیہودگیوں اور سیاسی عدم بلوغت کو ناپسندیدگی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ چونکہ پردہ دار قوتیں انتخابی نتائج پہلے ہی طے کر چکی تھیں اس لئے رائے دہندگان کی منشا کو تھوڑی بہت الیکشن انجینئرنگ سے بدلنے پر مجبور ہوگئیں۔ ووٹرز کی رائے میں ہیراپھیری کرکے مقتدر حلقوں نے من پسند ٹیم تو ملک و قوم پر مسلط کر دی ہے مگر وہ ٹیم چونکہ خود مطلوبہ اوصاف اور ذہنی وسعت سے عاری تھی اس لئے جلد ہی ایکسپوز ہونا شروع ہو گئی۔ بیمار معیشت کی حالت سدھرنے کے بجائے مزید بگڑ گئی اور تاحال وہ وینٹی لیٹر پر سانسیں گن رہی ہے۔ مہنگائی کا جن قابو سے باہر ہو چکا ہے۔
بیرونی قوتوں اور عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرض لینے کیلئے ان کی کڑی شرائط مانتا، ٹیکس میں بے پناہ اضافہ ، ڈالر کی مصنوعی مہنگائی، سب سڈیز کا خاتمہ، بنیادی سہولتوں کی فراہمی بند کرنا اور نئی نوکریاں دینے کے دعویداروں کی جابن سے سرکاری ملازموں کی ڈائون سائزنگ نے ملک و قوم کو بہت بڑے معاشی بحران کا شکار کر دیا ہے۔ رہے سہے صنعتی یونٹ اور کاروبار ٹھپ ہوتے جا رہے ہیں۔ ایف بی آر اور نیب کو پنجاب پولیس سے بھی گھٹیا درجے پر لا کر موجودہ سلیکٹڈ حکمرانوں نے کاروباری، صنعتی حلقوں کو بالکل ہی مایوسی کا شکار کر دیا ہے۔ بیرون ممالک سے انویسٹمنٹ لانے کے دعویداروں نے اپنی نااہلی سے ایسی فضا بنا دی ہے کہ بیرونی سرمایہ کار یہاں آنے سے گھبرا رہے ہیں جبکہ یہاں موجود سرمایہ تیزی سے باہر منتقل ہو رہا ہے۔
ان حالات میں ملک و قوم کی نگاہیں پھر وفاق کی علامت پاکستان پیپلزپارٹی اور اس کی نوجوان باصلاحیت اور تعمیری سوچ رکھنے والی قیادت بلاول بھٹو کی جانب دیکھ رہی ہیں۔ بلاول بلاشبہ ایسا بیش قیمت سیاسی اثاثہ رکھتا ہے جو کسی اور کے پاس نہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ جو کچھ دیکھ، سن، پڑھ اور برداشت کر چکا ہے اس سے اس کی سیاسی پختگی کو مزید جلا ملی ہے۔ اسے اپنے شہید نانا کی عوام کیلئے جدوجہد خدمات اور بیش قیمت قربانی کا ادراک ہے وہ اپنی شہید والدہ کی ملک و قوم کیلئے طویل جدوجہد، گراں قدر خدمات اور عوام و جمہوریت کیلئے دلیرانہ شہادت کی حقیقی غرض و غایت کا بھی بخوبی علم ہے۔ بلاول بھٹو پاکستانی قوم کو درپیش خطروں ، بیرونی سازشوں اور اپنوں کی ناسمجھیوں کا بھی پوری طرح علم ہے۔ اس کا وژن اور ہوم ورک بہترین ہے۔ اگر اسی ثابت قدمی، ہمت و عزم اور استقلال سے بلاول بھٹو کی مثبت جمہوری جدوجہد جاری رہی تو اسے آگے بڑھنے اور حقیقی قیادت کے متلاشی پاکستانی عوام کیلئے اولین ترجیح بننے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔
اگر پاکستان میں بڑھتی ہوئی استعماری دخل اندازی کے آگے بند باندھنا ہے تو پھر عوام کو بھی 1970ء کی طرح جراتمندانہ فیصلہ کرکے بلاول بھٹو کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا۔ بصورت دیگر اسلام اور پاکستان کے تمام دشمن اپنے پتلی تماشوں اور گوناگوں ہتھکنڈوں سے اسلام کے قلعہ کو اپنی خواہشات کے تابع بنا کر یہاں ایسی جغرافیائی تبدیلیاں لانے میں بھی کامیاب ہوسکتے ہیں جن کی منصوبہ بندی گزشتہ صدی سے جاری تھی۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024