وراثتی سیاست کی منہ زوری
گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم آزادی کے ثمر سے فیضاب تو ضرور ہو رہے ہیں مگر حقیقی طور پر اب بھی غلام ہیں۔ پہلے ہم پر انگریز مسلط تھے اور اب انگریزوں کے پروردہ نمک خوار۔ 1857 کی جنگ آزادی میں ان نمک خواروں نے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ جہاں مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا تھا وہاں یہ نمک خوار مقامی لوگوں کی لسٹیں مہیا کر رہے تھے۔ مخبری کے ساتھ ساتھ نقد رقوم اور مسلح سپاہ بھی دل کھول کر بھیج رہے تھے۔ اور ان خدمات کے عوض جاگیریں اور نمبرداریاں لے رہے تھے۔ جنوبی پنجاب اس میں پیش پیش تھا۔ انگریز چلا گیا پھر اس علاقے کی لوگوں کی قسمت کے مالک یہ لوگ ٹھہرے۔ انہوں نے علاقے کی ترقی کے لیے کچھ نہ کیا بلکہ علاقائی عوام کو پسماندہ رکھنے میں اہم کردار اد کیا۔ تعلیم نام کی چیز عام لوگوں کے لیے شجر ممنوعہ ٹھہری۔ تعلیمی ادارے نہ بننے دیئے گئے۔ لوگوں کو اپنا ذاتی غلام بنا دیا گیا۔ صرف معمولی کھانے کے عوض ان لوگوں کی خدمات لی گئیں۔ جو بھی سر اٹھانے کی اپنے تئیں کوشش کرتا اس کو ختم کر دیا جاتا۔ سائنس کا بھی ایک اصول ہے کہ جب ایک چیز ساکت کر دی جائے اور اس سے کام نہ لیا جائے تو وہ چیزعضو معطل بن جاتی ہے۔
ملک صاحب کاخاندان گو کہ ایک بہت بڑے قد کاٹھ والا خاندان ہے، 1962تک سیاست کی الف ب سے بھی واقف نہ تھا۔ علاقائی سیاست، بلکہ پاکستان کی سیاست میں گورمانی خاندان کا طوطی بولتا تھا۔ گورمانی خاندان کے رقابت دار لغاری خاندان کو علاقے میں گورمانی خاندان کے مدمقابل ایک متمول خاندان کی ضرورت تھی جو کھر خاندان کی صورت میں موجود تھا ۔ وہ ان کو سیاست میں لائے۔ قسمت کی دیوی ان پر اتنی مہربان ہوئی کہ بھٹو جیسے زیرک سیاست دان سے ملا دیا۔ 1970 کے انتخابات میں ملک غلام مصطفیٰ کھر پی پی پی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی رکن منتخب ہوئے۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے ایک حد تک انہیں اپنا سیاسی جانشین قرار دے دیا۔لیکن اندر سے ان کی تیزطراری کی وجہ سے خائف بھی رہنے لگے۔ کھر صاحب کی سیاست کا یہ سفر کبھی بھٹو کی حمایت میں اور کبھی بھٹو مخالفت میں رواں دواں رہا۔جنرل ضیا کے مارشل لامیں بھٹو کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے اور آخر کار سزائے موت دے دی۔ کھر صاحب ایک خاص مشن کی تکمیل کے لیے لندن چلے گئے۔ لیکن جلد ہی وہاں پر اپنے آپ کو اس مشن سے الگ کر لیا۔ ان کے خلاف بے شمار مقدمات قائم کیے گئے۔ 1986میں واپس آئے تو دھر لیے گئے۔ کھر صاحب کا یہ سیاسی سفر ہر حال میں جاری رہا پر کسی ایک سیاسی پلیٹ فارم سے نہیں۔ کبھی پی پی پی کے ساتھ کبھی پی پی پی مخالف، کبھی اپنی سیاسی جماعت کے ساتھ۔۔ لیکن لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے ہمدردی میں رتی پھر فرق نہ آیا۔ وہ ہر الیکشن میں پہلے سے زیادہ ووٹ لیتے رہے۔ اپنے ساتھ ساتھ اپنے بیٹوں اور بھائیوں کو میدان سیاست میں بھرپور مدد دیتے رہے۔ باربار پارٹیاں بدلنے سے ان کاسیاسی امیج بہت متاثر ہوا۔
یہاں بڑے بڑے نواب،زمینداراور تاجر وقت گزاری کے لیے سیاست کرتے ہیں۔ متوسط طبقہ مضبوط نہیں ہونے دیا گیا۔ اس لیے یہ طبقہ ملکی معاملات میں بہت کم نظر آتا ہے۔ اگر کوئی متوسط طبقے کا فرد سیاست جیسے پرخاررستے کا انتخاب کر بیٹھتا ہے توسینئر سیاست دان ملک غلام مصطفیٰ کھر کو مجبورا کہنا پڑا کہ میں جدی پشتی نواب ہوں، خاندانی زمیندار کا بیٹا ہوں۔۔ آجکل سیاست میں کچھ شعبدہ باز قسم کے لوگ وارد ہو چکے ہیں۔ان کی یہ جرآت؟ ملک صاحب ٹھیک ہی تو کہتے ہیں۔ کل تک ان کی جی حضوری کرنے والے اب ان کے مدمقابل آ جائیں تو کتنی کرب اور دکھ کی بات ہے۔ملک صاحب ان کو یہ حق دینے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ بقول ملک صاحب: میرے(کھر) خاندان کے چھوٹے بڑے تقریبا تیس(30) لوگ سیاست میں قدم رنجا فرماچکے ہیں۔ نہ جانے کیوں؟ کیا موجودہ جمہوری دور میں بھی یہاں بسنے والوں کو اپنی زر خرید رعایا سمجھتے ہیں؟ملک صاحب یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ ان میں سے ایک شخص نے مظفرگڑھ کے الیکشن میں ان کی ضمانت بھی ضبط بھی کروا دی تھی۔
جب ذوالفقار علی بھٹو نے آئل ریفائنری اور پی ایس او ڈپو کی منظوری دی تھی تو اس وقت ملک غلام مصطفیٰ کھر بھٹو مخالف کیمپ میں جاچکے تھے۔ اس وقت ایک جاگیردار کی دوسرے جاگیر دار کے علاقے میں کوئی سکول کھولنا یا پھر پارکو جیسے منصوبے شروع کرنا سے کیا مراد لی جاسکتی ہے؟ ملک غلام مصطفیٰ کھر کا کیرئیر ختم کرنا تھا۔ کیونکہ لوگ برسرروزگارہوجائیں گے، بچوں کو پڑھائیں گے، شعور پکڑیں گئے اور ایک جاگیردار کو ووٹوں کے ذریعے مسترد کر دیں گے۔ کمال کی بات تو یہ ہے کہ منصوبہ 1976کاہے اوران کو اب یاد پڑ رہا ہے کہ اس کی منظوری انہوں نے دی تھی۔ اتنے الیکشن گذر گئے اب کریڈٹ لینے کی ضرورت کیوں پیش آ رہی ہے۔ یہ بہت بڑا منصوبہ تھا جس مرحوم جنرل ضیاالحق نے ریفائنری کو ایک آئل ڈپو تک محدود کر دیا تھا۔ 1988میں جب محترمہ بینظیربھٹو برسر اقتدار آئیں تو انہوں نے دوبارہ اس کو اصل حالت میں شروع کرنے کی منظوری دی اور افتتاحی تقریب میں با خود آئیں۔ جبکہ اس وقت بھی ملک غلام مصطفیٰ کھر پی پی پی مخالف کیمپ میں تھے۔ اور بی بی کے سخت مخالفین میں سے تھے۔ پھر یہ منصوبہ کیسے ان سے تعلق رکھتا ہے۔