کراچی والو ....میرا ساتھ دو قسمت بدل دوں گا : بلاول بھٹو زرداری
کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے بدلے کی سیاست کے بجائے کراچی میں امن کا بیڑا ٹھایا ہے۔ کراچی میں امن سندھ حکومت نے بحال کیا۔ دہشت گردی خوف کے راج کا خاتمہ ہوا تو ہر کوئی کراچی کے مینڈیٹ کو اغوائ کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ انہوں نے عمران اور الطاف کو ایک دوسرے کا عکس قرار دیا اور کہا کہ عمران کی صورت میں ایک اور الطاف کو کراچی پر مسلط نہیں ہونے دیں گے۔ پہلے کراچی کو لندن سے چلایا جاتا تھا۔ اب بنی گالا سے چلانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ٹارگٹ کلرز کی جماعت نہیں۔ ہم نے سیکٹر اور یونٹ سے کراچی کو نہیں چلایا بلکہ کراچی کی روشنیوں کو بحال کیا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی والوں نے مجھے ووٹ دیا تو میں انہیں وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو مصیبت قومی موومنٹ سے مستقل نجات دلاو¿ں گا۔ آئندہ الیکشن میں (ن) لیگ یا پی ٹی آئی نہیں بلکہ عوام کی طاقت سے پیپلز پارٹی راج کرے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو ٹنکی گراو¿نڈ ایف سی ایریا میں پیپلز پارٹی کے تحت جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر کا آغاز جئے بھٹو کا نعرہ لگاتے ہوئے کیا۔ لیاقت آباد میں جلسہ کرنا میرے لیے خوشی کا باعث ہے۔ یہ وہی لیاقت آباد ہے ، جہاں پہلے گولی بعد میں بات کا نعرہ لگایا جاتا تھا۔ آج میرے سامنے ان شہیدوں کے چہرے ہیں ، جنہوں نے جمہوریت کے لیے قربانی دی۔ میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں۔ میں شہید نجیب ، شہید سمیع دہلوی، شہید سمیع کاظمی ، شہید منور بنگش ، سعید انور محمد خان ، شہید قیوم بھائی ، شہید حسن واسطی اور ان ہزاروں شہدائ کو سلام پیش کرتا ہوں ، جنہوں نے ظلم کی فضائ میں پیپلز پارٹی کا پرچم تھام کر رکھا لیکن ڈرے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو کل بھی زندہ تھا ، آج بھی زندہ ہے۔ میں کراچی میں پیدا ہوا۔ میں نے کراچی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ لالو کھیت کے صابری برادران نے میرے نانا بھٹو کے لیے صدا رہے آباد بھٹو جیسی قوالی پڑھی۔ ہم شہید امجد صابری کے نام پر قوالی اور میوزک انسٹی ٹیوٹ قائم کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ کراچی اور بھٹو کا نسل نسل کا رشتہ ہے۔ کچھ قوتوں کو کراچی اور بھٹوز کا رشتہ پسند نہیں آیا۔ ان قوتوں نے منصوبہ بندی کی کہ بھٹوز کو ان کے گھر کراچی میں تنہا کرنے اور پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کے لیے کراچی میں نسل پرستی کا بیچ بویا۔ طاقت کے زور پر کراچی میں پیپلز پارٹی کی حمایت ختم کرنے کی کوشش کی ، لسانیت کے نام پر لڑوایا گیا۔ کوئی کچھ بھی کہے کراچی والے جانتے ہیں کہ اس تاریک دور میں نسل پرست قوتوں کا اگر کسی نے مقابلہ کیا تو وہ پیپلز پارٹی تھی ،۔ ہمارے ہزاروں جیالوں کو گھروں میں گھس کر گولیاں ماری گئیں اور انہیں زندہ جلا دیا گیا۔ مگر دیکھ لو ہم فنا نہیں ہوئے کیونکہ بھٹو اور جیالے تقدیر کا وہ پرندہ ہیں ، جو بار بار اپنی ہی راکھ سے پیدا ہوتے ہیں۔ آج تیسری نسل کا بھٹو پھر کراچی والوں کے سامنے کھڑا ہے۔ کراچی میں 30 ، 35 سالوں میں جو ہوا ، وہ آپ کے سامنے ہے۔ 30 سالوں تک کراچی میں آ گ و خون اور خوف کا راج تھا۔ آج میں محبت کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ کراچی کا مسئلہ وہی حل کر سکتا ہے ، جو کراچی سے محبت کرتا ہے اور کراچی میں پیدا ہوا ہو۔ جس کی دو نسلیں کراچی کی فضا میں پروان چڑھی ہوں۔ ہاں میں بھی کراچی والا ہوں۔ جاو¿ کراچی والوں سے پوچھو کہ انہوں نے بھٹو سے کیسے وفا کی۔ اورنگی ، رضویہ ، پاپوش ، لیاقت آباد ، لالو کھیت ، نیو کراچی والوں کیا تم بھول گئے ہو کہ تمہارے بڑوں نے پیپلز پارٹی کے ساتھ جدوجہد اور وفاق کی تاریخ رقم کی تھی۔ بعد میں آنے والوں نے نفرت کی سیاست مسلط کی اور کراچی کے مینڈیٹ پر بندوق کے زور پر قبضہ کر لیا گیا مگر بھٹو نے کراچی والوں سے رابطوں کا سلسلہ ختم نہیں کیا۔ میں کہیں بھی چلا جاو¿ں کراچی میرا تعارف ہے۔ کراچی میں بدامنی ہمیں برداشت نہیں۔ ہمارے گھر جل رہے تھے اور ہمارے لوگ قتل ہو رہے تھے۔ مگر ہم نے الزام تراشی کی بجائے کراچی میں امن کا بیڑا اٹھایا۔ اگر کراچی میں آپریشن کے تحت امن قائم ہوا تو اس آپریشن کے کپتان وزیراعلی سندھ تھے۔ اب امن قائم ہو گیا ہے تو ہر کوئی فتح کا جھنڈا لہرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہم نے کراچی میں آپریشن کی کمان کی۔ دہشت گردوں کا صفایا کیا۔ پیپلز پارٹی دہشت گردوں کے سامنے ڈٹ گئی۔ آج کا پرامن کراچی آپ کے سامنے ہے۔ امن کا پہلا مرحلہ ہم نے سر کر لیا۔ مستقل امن کے لیے پولیس کے شعبے کو فعال کر رہے ہیں۔ پولیس میں جو سیاسی بھرتیاں کی گئیں ، اس سلسلے کو ختم کرنا ہو گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم پرفیکٹ ہیں۔ ہم ٹارگٹ کلرز کی جماعت نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی سیکٹر کمانڈر سے کراچی نہیں چلواتی۔ ہم لندن سے بیٹھ کر احکامات جاری نہیں کرتے۔ ہم یہیں تھے اور یہی رہیں گے۔ ہم نے ابھی تو کراچی کو لندن کی قید سے آزاد کرایا ہے۔ اگلے مرحلے میں ہم کراچی کو مصیبت قومی موومنٹ سے نجات دلائیں گے۔ اگر الطاف برا ہے تو اس کے ساتھی اور سہولت کار بھی برے ہیں۔ الطاف کو چھوڑ کر اپنی سیاسی دکان چمکانے والے بھی برے ہیں۔ ہم الطاف حسین کی سیاست کے پہلے دن سے مخالف تھے۔ مگر یہ سوال کرنا ہمارا حق ہے۔ جو اپنے لیڈر کا نہ ہو سکے ، کراچی والوں وہ تمہارے کیا ہوں گے۔ لوگ کہتے ہیں کہ الطاف ایک برا کردار تھا۔ ہم کہتے ہیں کہ وہ سسٹم ہی غلط تھا اور ہر وہ شخص غلط ہے ، جس نے الطاف حسین کو تو چھوڑ دیا مگر سیاست آج بھی الطاف حسین والی کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ کراچی کے استحصال کے خاتمے کے نام پر ہزاروں کراچی والوں کو قتل کر دیا گیا۔ بدامنی صرف کراچی کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ امن و امان کے نام پر انسانی حقوق کی پامالی بند کی جائے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کیا جائے۔ اگر لوگ لاپتہ ہوتے رہیں گے تو بدامنی بڑھے گی۔ ایم کیو ایم والے کہتے ہیں کہ ووٹ ہمیں دو اور بدانتظامی پر گالیاں پیپلز پارٹی کو دو۔ یہ کونسی سیاست ہے۔ میئر کراچی ان کا ، کے ایم سی ان کے پاس مگر پھر بھی مسائل کا رونا روتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم والوں یاد رکھو جو ووٹ لیتا ہے ، مسائل حل کرنا ان کی زمہ داری ہے۔ سمندر کے باسیوں اور عظیم شہر کے لوگوں مجھے ووٹ دو۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمہارے مسائل کو حل کروں گا اور اس شہر کو ترقی دوں گا اور کوئی تمہارے شہر کے گٹروں میں بوریاں ڈال کر انہیں بند نہیں کر سکے گا۔ کراچی کے خاکروبوں کو صفائی سے ایم کیو ایم روکتی ہے۔ کراچی کا دشمن کون ہے۔ کراچی کو فیصلہ کرنا ہو گا۔ کراچی کے مسائل کے حل میں رکاوٹ مصیبت قومی موومنٹ ہے۔ ایم کیو ایم کراچی کو صاف نہیں دیکھنا چاہتی۔ ایم کیو ایم کی سیاست کچرے پر ٹکی ہوئی ہے۔ کراچی کا کچرا صاف ہوا تو ایم کیو ایم کو ڈر ہے کہ اس کا بھی صفایا ہو جائے گا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے نلکوں میں پانی آئے تو انہیں ووٹ دیں ، جو آپ کے مسائل حل کر سکیں۔ یہ ایک دوسرے سے لڑنے والے ایک دوسرے کی تذلیل کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ نہ بیٹھنے والے کراچی کے مسائل کیسے حل کریں گے۔ فاروق ستار کہتے ہیں کہ میئر کراچی کو 5 ارب روپے کا حساب دینا ہے اور وہ چھپتے پھر رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ فاروق بھائی صرف پانچ ارب روپے کا نہیں کے ایم سی کو اربوں روپے کا حساب دینا ہے۔ میئر کراچی کہتا ہے کہ مجھے اختیار دو۔ سندھ حکومت نے اربوں دیئے اور اختیارات بھی دیئے۔ میئر کراچی جب آپ جیل میں تھے تو میں نے آپ کی رہائی کے لیے آواز اٹھائی۔ آپ بتائیں کہ کراچی کی سڑکیں کیوں ٹوٹی ہیں۔ نالوں کی صفائی کیوں نہیں ہوئی۔ پیسے آپ کے پاس ہیں ، کراچی والوں پر خرچ کیوں نہیں کیے۔ میئر کو پیسے دے کر ہم نے حساب رکھا ہے۔ یہ شور مچانے والے لوگ ہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ یہ کام نہیں کریں گے۔ ہم نے بجٹ میں کراچی کی ترقی کے لیے بڑا حصہ رکھا ہے۔ ہمیں پتہ ہے کہ ان کو کراچی سے دور دور تک محبت نہیں ہے۔ ہم نے طارق روڈ ، حب ریور روڈ ، یونیورسٹی روڈ اور دیگر سڑکیں بنائیں۔ اسپتال بنائے ، بے نظیر ٹراما سینٹر ، بچوں کا ایمرجنسی سینٹر بنایا۔ کراچی میں خواتین یونیورسٹی قائم کی جائے گی۔ آج ایشیا کا دل کا سب سے بڑا اسپتال کراچی ہے۔ قومی ادارہ امراض قلب میں دل کا علاج بالکل مفت ہے۔ عباسی اسپتال بھٹو نے بنایا لیکن کے ایم سی نے اس کا ستیا ناس کر دیا۔ عباسی شہید کو بھی این آئی وی سی ڈی کی طرح بناو¿ں گا۔ میں یہ نہیں کہہہ رہا کہ ہم نے سو فیصد ٹھیک کر دیا ہے۔جو کام کیا ہے ، وہ ہم نے کیا ہے۔ کسی نے کچھ نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کھایا پیا بہت ہے۔ کراچی جب سے نفرت سے آزاد ہوا ہے ، ہر کوئی یہاں کے مینڈیٹ کو اغوائ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کراچی والوں کو الطاف سے نجات ملی۔ پی ٹی آئی وہی سیاست کراچی میں شروع کرنا چاہتی ہے۔ ہم عمران کی صورت میں دوسرا الطاف نہیں چاہتے۔ طالبان کے اس بچھرے بھائی کو پرامن کراچی پسند نہیں آ رہا۔ عمران اور الطاف ایک دوسرے کا عکس ہے۔ عمران بھی کراچی پر نظریں جمائے بیٹھا ہے۔ دونوں ہی عجیب بات کرتے ہےں۔ ایک ہڑتال کرتا ہے تو دوسرا دھرنا دیتا ہے۔ ایک تقریر کرکے معافی مانگتا ہے تو دوسرا یوٹرن پر یوٹرن لیتا ہے۔ اب تو عمران نے اعلان کیا ہے کہ وہ کراچی سے الیکشن لڑے گا۔ پہلے لندن سے کراچی کو چلایا جاتا تھا۔ اب بنی گالا سے کراچی کو چلایاجائے گا۔ اب عمران خان پرانے نعرے کے بعد نیا پاکستان تو نہیں بنا سکے۔ اب دو نہیں صرف ایک۔ عمران خان کیا آپ قوم کو بے وقوف سمجھتے ہیں۔ آپ پانچ سالہ دور میں کے پی کے میں کوئی نئی یونیورسٹی اور اسپتال نہ بنا سکے۔ آپ نیا پختونخوا یا ایک پختونخوا نہیں بنا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت عمران خان کا ایک پاکستان کہاں تھا ،جب اے پی ایس سانحہ میں معصوم بچے شہیدہو رہے تھے اور آپ فوارہ چوک میں امپائر کی انگلی اٹھانے کے لیے ناچ رہے تھے۔ انہوں نے کہاکہ جو آپ کے ساتھ ہو نااہل ترین بھی شفاف ترین اور آپ کا مخالف ہو تو وہ آپ کی نظرمیں سب سے زیادہ بدترین۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے بھی کراچی والوں سے بھی بڑے بڑے وعدے کئے۔ مگر وفاق سے ایک گرین لائن منصوبہ بھی مکمل نہیں ہو سکا۔ نواز شریف کراچی والوں سے وعدہ کرتے ہیں لیکن اس کی تکمیل کہیں اورکرتے ہیں۔ ٹھٹھہ اور دیگر سے وعدے کیے ، وہ بھی پورے نہیں ہوئے۔ جو بجلی آ رہی تھی ، وہ بھی چھین لی گئی۔ اندرون سندھ کے لوگوں سے کئی ماہ تک بجلی اور گیس چھینی گئی۔ کراچی میں بجلی کے بحران پر آواز ہم نے اٹھائی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کراچی میں بجلی کے بحران پر سیاست چمکانے کراچی آئے اور کہاکہ بجلی کا مسئلہ ایک ہی دن میں حل کر لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کو نیو یارک بنانے والوں پہلے گوالمنڈی کے گٹر تو صاف کر لو۔ میاں صاحب اگر آپ ووٹ کی عزت کی بات کرتے ہو۔ پہلے ووٹ کی عزت تو کر لو۔ اگر آپ کراچی کے ووٹ ، محنت کشوں ، مزدوروں ، خواتین اور آئین کی عزت کرتے تو آپ کو عزت ملتی۔ کراچی جو امن کا شہر تھا ، روشنیوں کا شہر تھا ، مفکروں کا شہر تھا ، اس شہر میں یہ حکم دیا گیا کہ ٹی وی بیچوں ہتھیار خریدو برتن بیچو ہتھیار خریدو ، زیور بیچو ہتھیار خریدو۔ تعلیم جس شہر کی پہنچان تھی ، وہاں نوجوان امتحانی پرچے دینے کی بجائے بھتے کی پرچیاں دینے لگے۔ دہشت گردی کراچی کی پہنچان بن گئی۔ ہم ہر الیکشن میں آپ کے پاس آتے رہے۔ مگر آپ نے ہمیشہ دوسروں کو فوقیت دی۔ وہ قبضہ کرتے ہیں ، ہم خدمت کرتے ہیں۔ وہ خوف پھیلاتے ہیں ہم خوشیاں لاتے ہیں۔ وہ جان لیتے ہیں اور ہم جان دیتے ہیں۔ آج ایک دفعہ پھر آپ کے پاس آیا ہوں۔ میں کراچی کا بیٹا ہوں۔ آپ کا دکھ میرا دکھ ہے۔ آپ کی خوشی میری خوشی ہے۔ میری کامیابی آپ کی کامیابی ہو گی۔ آئیں پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر وفاق کی سیاست کریں۔ نوجوان آئیں ملک اور کراچی کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ کراچی کی ترقی سے سب سے زیادہ خوشی مجھے ہو گی۔ میں جانتا ہوں کہ کراچی ترقی کرتاہے تو پاکستان ترقی کرتا ہے۔ اس ترقی کے لیے مجھے آپ کا ساتھ چاہئے۔ مجھے آپ کا ووٹ چاہئے۔ بتاو¿ں کا آپ میرا ساتھ دو گے۔ کیا آپ مجھے ووٹ دو گے۔ اگر آپ میرے ساتھ ہو تو میں اس شہر کی قسمت بدل دوں گا۔ روشنیاں بحال کروں گا۔ میں یہاں مفت تعلیم اور معیاری علاج بحال اور کراچی کی پیاس بجھاو¿ں اور کراچی کی عظمت کو واپس لاو¿ں گا۔ آو¿ میرا ساتھ دو ، مجھے ووٹ دو۔ قبل ازیں سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ لیاقت آبادمیں تاریخی جلسے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ پیپلز پارٹی کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو سے بے نظیر بھٹو شہید تک کراچی پیپلز پارٹی کا شہر رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایک دور میں پی ایس ایف اور پیپلز پارٹی کے کارکنان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر کراچی کی گلیوں میں مارا گیا۔ ہم نے کندھوں پر لاشیں اٹھائیں۔ مگر کراچی کی روشنیوں کو خراب نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے کہا کہ آج پھر تاریخ دہرانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ مگر اب پیپلز پارٹی کسی کے لیے میدان کھلا نہیں چھوڑے گی۔ غریبوں کی قسمت تبدیلی جیسے نعروں سے نہیں بدلتی۔ تبدیلی پیپلز پارٹی لائے گی ۔ یہ بات روز عیاں کی طرح روشن ہے کہ آنے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا سورج طلوع اور باقی سب کا غروب ہو نے والا ہے۔ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہاکہ کراچی بلاول بھٹو کا ہے۔ انہوں نے عوام سے سوال کیا کہ کیا ہم بلدیہ فیکٹری میں مزدوروں کو زندہ جلانے والوں کو معاف کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بے گناہ شخص کا خون بہائے بغیر پیپلز پارٹی نے کراچی میں امن قائم کیا۔ سید مراد علی شاہ نے جلسے میں اعلان کیا کہ آئندہ انتخابات میں کراچی والے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیں۔ ہم ان سے وعدہ کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی امن دشمنوں سے اب کوئی سودے بازی نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہر الیکشن سے پہلے کراچی کے نئے وارث نمودار ہوتے ہیں۔ ہم ان کی باتوں پر یقین نہ کریں۔ عمران خان تم بلا پکڑ کرکٹ کھیلو۔ سیاست کرنا تمہارا کام نہیں۔ تم صرف کرکٹ کھیل سکتے ہو ، سیاست صرف بھٹو خاندان کا کام ہے۔ شیری رحمن نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری فرزند کراچی ہیں۔ ۔ پیپلز پارٹی کراچی ڈویڑن کے صدر سعید غنی نے کہا کہ آج کے جلسہ کراچی میں بدامنی امنی پھیلانے والوں کے لیے پیغام ہے۔ آج کراچی سے خوف کا بت ختم ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ لیاقت آباد کے جلسے کے بعد مخالفین بلوں میں گھس گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے خلاف شہر میں بینرز لگوائے۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ اب بینروں سے کام نہیں چلے گا۔ پیپلز پارٹی دوبارہ ہر جگہ تعاقب کرے گی۔ سابق وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا کہ لیاقت آباد کا جلسہ ان لوگوں کے لیے پیغام ہے ، جو اپنے آپ کو خان کہتے ہیں اور کراچی سے الیکشن لڑنے کا دعوی کرتے ہیں۔ کراچی سے کراچی والے ہی الیکشن لڑیں گے۔ پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ لیاقت آباد میں پیپلز پارٹی کے جیالوں کے لیے جگہ کم پڑ گئی ہے۔ کراچی کو نوگو ایریا بنانے کی کوشش کرنے اوردنیا میں کراچی کو بدنام کرنے والوں کے لیے آج آنکھیں کھولنے کا مقام ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات وقار مہدی نے کہا کہ لیاقت آباد میں کامیاب جلسہ منعقد کرنے پر پی پی کراچی ڈویڑن کو مبارکباد دیتا ہوں۔ ہمارا رشتہ عوام سے قائم ہے۔ اس شہر میں مکمل امن قائم کرے گی۔ ایم کیو ایم کے میئر کو اختیارات کا نہیں مال کا مسئلہ ہے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کی طرف سے لندن بھیجے جانے والے بریف کیس بند کر دیئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کراچی ڈویڑن کے جنرل سیکرٹری جاوید ناگوری نے کہا کہ اب کراچی کو خوف سے نجات دلانے کا وقت آ گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما این ڈی خان نے کہا کہ ملک کا آئندہ وزیر اعظم بلاول بھٹو زرداری ہو گا۔ راشد ربانی نے اپنے خطاب میں کہاکہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کامیاب ہوگی ۔ پیپلز پارٹی کراچی ڈویڑن کی سیکرٹری اطلاعات شہلا رضا نے کہا کہ ہمیں ڈاکٹر عبدالقدیر ، حکیم سعید ، رئیس امروہی اور مفکروں کا چاہئے۔ کراچی پڑھے لکھوں کا شہر ہے۔ پیپلز پارٹی شعبہ خواتین کراچی کی صدر شاہدہ رحمانی نے کہا کہ کراچی کے نام پر سیاست کرنے والے سن لیں اب ان کا باب بند ہو چکا ہے۔ پیپلزپارٹی ضلع وسطی کے صدر ظفر صدیقی نے کہا کہ کراچی امن اور سب کا شہر ہے۔
بلاول بھٹو /جلسہ