جہاد افغانستان‘ کشمیر اور ہمارے اہل دانش
روشن خیالی کور چشمی ہے‘ لبرلزم دو رخی اور کھلی منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ ہم نے بھی کیا مقدر پایا ہے کیا کچے پکے دانشور پائے جو اپنی ذات میں ایسی انجمن ہیں کہ حکیم الامت کہلاتے نہ شرمائیں‘ لیکن بےچارے انجمن شرما جائے۔
ہوچی منہ ویتنام میں عالمی استعمار امریکہ کے خلاف لڑے تو چھاپہ مار کہلائے۔ چی گویرا لڑتا ہوا بولیویا میں پکڑا جائے اور ذبح کردیا جائے۔ اس کی تصاویر والے کیری کیچر اور ٹوپیاں ہمارے تاریک باطن‘روشن خیال‘ آج پہنے پھرتے ہیں اور کیا دو رخا پن اور کھلی منافقت ہے کہ اپنے لوگوں کی داڑھیاں تو ان کورچشموں کو بے طرح چبھتی تھیں‘ لیکن داڑھی والے کاسترو اور چی گویرا کی داڑھیاں انہیں کبھی دکھائی نہیں دیتی تھیں۔ ویسے یہ باکمال لوگ ہیں۔ امریکی ڈالر کھاتے ہیں اور گیت کاسترو کے گاتے ہیں۔ مخالف عالمی طاقت چھاپہ ماروں کی حمایت کرے‘ چین معاونت کرے تو پاکستانی ترقی پسند ہوچی من، روس اور چین زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے۔ روس نے افغانستان کو ویتنام بنالیا تو مخالف عالمی قوت امریکہ نے پشتون چھاپہ ماروں کی حمایت کی۔ پاکستان نے چین والا کردار ادا کیا۔ اس پر ہمارے ترقی پسندوں کو آج تک اعتراض ہے۔ کیا بیس لاکھ پشتونوں کی قربانی، لازوال مزاحمت ہوچی منہ کاسترو اور چی گویراکے ہم پلہ دکھائی نہیں دیتی یا پھر کلمہ گو پشتونوں سے ویسے ہی خدا واسطے کا بیر ہے۔ترقی پسندوں کے وقت کے ساتھ معیارات تبدیل ہوگئے۔ ان کی ترجیحات بدل گئیں۔ ان کے دلیل کے پیمانے اور ضمیرکی راہوں کے ر±خ تبدیل ہوگئے۔ وہ تاریخ کے کٹہرے میں اپنا مو¿قف تبدیل کربیٹھے اور استعمار کی شکل بدلنے پر ان کے مو¿قف تبدیل ہوگئے۔ افغانستان میں جہاد کی اصطلاح سے چڑنے والے بتائیں کہ وہاں کتنے غیرملکی جہادی ہلاک ہوئے؟ خون تو پشتون کابہا۔ اب بھی بہہ رہا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ پورا افغانستان افغان جہاد کو قبول کرتا ہے۔ امریکہ کا بٹھایا مہرہ حامد کرزئی ہو، موجودہ صدراشرف غنی ہو یا کوئی اور افغانستان میں آپ کو یہ آواز سننے کو نہیں ملے گی جو افغان جہاد کی مخالفت میں دلائل تراشتی ہو۔
بدقسمتی یہ ضرور ہے کہ پاک افغان جدائی کی لکیر کے اِس پار بسنے والے پشتونوں نے اس پر منفی آواز بلند کی۔ یہ پوچھا جانا چاہئے کہ برطانوی سامراج کو نکالنے پر فخر کرنے والے پشتون قائدین روسی سامراج کو نکالنے کو کیوں کارنامہ نہیں سمجھتے؟ ان کے اپنے ہی مرتب کردہ اصول پر امریکہ جارح اور غاصب کیوں نہ کہلائے گا ؟ ا±ن کی اپنی دلیل کی روشنی میں بھارت کی مظلوم کشمیریوں کے خلاف بدترین جارحیت اور انسانیت کی تذلیل کے خلاف مزاحمت اورجہاد کیونکر ناجائز ٹھہرے گا؟ جہاں غاصب بھارتی فوج کشمیریوں کے چہرے پیلٹ گنز سے چھلنی کررہی ہے۔ بڑے افراد تو کیا معصوم بچے بھی تکبیر اور کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے بلند کرتے موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔ محض مسلمان ہونے کی سزا کے طورپر ان مزاحمت کاروں، ان چھاپہ ماروں کی پذیرائی ترقی پسندی نہیں رہتی؟کیا کشمیر میں بسنے والے انسان نہیں ہیں۔
اگر ہوچی منہ اور اس کے ساتھی چھاپہ مار حریت پسند اور قابل فخر مجاہد تسلیم ہوئے تو محض مسلمان ہونے پر ان انسانوں کی حریت فکر کو کم تر اور حقیر قرار دے دیا جائے۔ یہ کون سا معیار ہے؟ یہ کون سی دلیل ہے؟ یہ کون سی منطق ہے؟ اور یہ کون سا انصاف ہے؟ ایسا ترقی پسند کیونکر ترقی پسند یا روایت پسند بھی کہلانے کا حقدار ہے؟ یہ تو ابن الوقتی، مفاد پرستی اور دانشورانہ ہوس پرستی کہلاسکتا ہے اور کچھ نہیں۔ ترقی پسندی کے نام پر بعض ایسے ”نان سٹیٹ“ ایکٹر گھس بیٹھئے‘ گل کھلاتے پھرتے ہیں جن کا سوچ کی ترقی نہیں البتہ جیب کی ترقی پر یقین ضرور ہے جو پاکستان میں ”کلبھوشن یادیو مشن“ سوچ اور فکرکے محاذ پر پورا کرنے میں فعال ہیں۔ ان کا مقصد ہی جھوٹ کے لئے نت نئی دلیل تراشنا ہے تاکہ سچ صرف وہ سچ رہ جائے جو ان کے ذہن کی تخلیق ہو، وہ حرف ہی پارسائی کی تصدیق پائے جو ان کے لب سے ادا ہو۔ ان کی سوچ اور حرف کو ہی سچائی کا پیمانہ اور ہر دلیل کا بنیادی اصول تسلیم کیاجائے‘ لیکن ایسا ہو نہیں سکتا اور نہ ہم ایسے ہونے دیں گے۔ترقی پسند کہلانے کے شوقین حضرات کو چاہئے کہ وہ کشمیر اور افغانستان کے بارے میں بھی وہی معیار اپنائیں جو امریکہ کے خلاف روس، چین اور ویتنام کے چھاپہ ماروں کے حق میں اپنایا تھا۔ افغانستان میں بھی تو صرف کردار ہی بدلے ہیں۔ یہاں امریکہ کے بجائے روس آیا۔ اس نے پٹھو حکومت بٹھائی۔ مجاہدین کے لفظ کی جگہ یہ کہہ لیں کہ یہاں کے اپنے چھاپہ مار تھے۔ ترقی پسندوں کو جہاد کا لفظ بُرا لگتا ہے۔ یہ جہاد یا مزاحمت ویتنام والا کرے تو ہیرو ہے۔ یہ کام پشتون کرے یا کشمیری کرے تو یہ دہشت گردی کے ہم پلہ کیوں کہلائے؟ ان ترقی پسندوں کا یہاں معیار کیوں بدل جاتا ہے؟ ان کی ترقی پسندی فنا کے کون سے گھاٹ اتر جاتی ہے؟ شاید اس لئے کہ افغانستان میں تاریخ بنانے والے پختون تھے؟۔ہماری ذہنی پسپائی کا تو یہ عالم ہے کہ افغانستان کے مختلف محاذوں پر سوویت سرخ فوج سے دو بدو مقابلوں میں صف اوّل پر صف آرا رہنے کا اعزاز رکھنے والا یہ کالم نگار ‘جلال الدین حقانی کے خوست مستقر‘ گل بدین کے لوائےر راکٹ اڈوں کو بھلا بیٹھا ہے اور وہ بھی اس جہاد کو ”فساد افغانستان“ لکھتا ہے وہ تو اللہ بھلا کرے میجر محمد عامر کا جنہوں نے تاریخی اوہام کے ازالے کے لئے مختلف تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں خطابات کا سلسلہ شروع کرکے کمال کردیا ہے۔ اور ہم جیسے قلم کاروں کو مرعوبیت کے جال سے باہر نکالا ہے وہی میجر عامر جو جاسوسی کی دنیا کا اساطیری کردار تھا جس کے بارے میں کوئی اور نہیں شہید بی بی بے نظیر یہ کہا کرتی تھیں کہ میری حکومت گرانے میں آپریشن مڈ نائیٹ جیکالز کے دست کار میجر عامر کا بنیادی کردار تھا دوسری نحیف اور محدود آواز سلیم منصور خالد کی ہے جن کی جماعت اسلامی کا ذوق سلیم بدل چکا ہے کہ اوپر سے نیچے تک نوسر بازوں کا راج ہے جو اب زور شور سے MMA کی نوٹنکی دکھا رہے ہیں۔سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ آج امریکہ کے بارے میں پشتون قیادت سے لے کر ترقی پسندوں تک سب چپ کا روزہ کیوں رکھے ہوئے ہیں۔ امریکہ سے کیوں نہیں پوچھتے کہ آپ کاکام تو ختم ہوگیا۔ اسامہ کی تلاش میں آئے تھے۔ وہ تو مارا گیا۔ چار سال بیت گئے۔ اب افغانستان میں کیوں ہو اور کیا کررہے ہو؟ انگریز کو پختون سرزمین سے نکالنا جہاد تھا تو کشمیر سے جارح اور قابض کو نکالنا کیوں جہاد نہیں؟ افغانستان سے آج امریکہ کو نکالنا کیوں جہاد نہیں؟ القاعدہ ختم ہوچکی۔ پھر امریکہ بہادر یہاں کیا کررہا ہے؟
یہ زمانہ ہے ’TOP‘کا۔ ٹی از سٹرنگ میکنگ، او فار اوپینین شیپنگ، اور پی فار پیس پرسپمشن مینجمنٹ۔ دو مثالیں دے رہا ہوں۔ اجمل قصاب نان سٹیٹ ایکٹر تھا۔ پاکستان نے اسے قبول نہیں کیا تھا۔ کسی پاکستانی ایجنسی نے اسے اون نہیں کیا تھا۔ وہ بھارت میں پکڑاگیا۔ دہشت گردی کرتے ہوئے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے اسے پھانسی کی سزا دی۔ انڈیا نے اس نان سٹیٹ ایکٹر کی بنیاد پر پاکستان کو عالمی کٹہرے میں مجرم بنا کر ننگا کردیا۔ اس نان سٹیٹ ایکٹر کی پاداش میں۔ اس کے مقابلے میں سٹیٹ سپانسرڈ ایکٹر را کا سرونگ سینئر افسر کلبھوشن یادیو پکڑا گیا۔ ایسا انٹیلی جنس کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ اگر اجمل قصاب کے معیار کو ہم رکھیں توانڈیا کو کوہ ہمالیہ کے پیچھے منہ چھپاناچاہئے تھا۔ انڈیا اس کو نہ صرف عالمی فورم پر اسے اون کررہا ہے بلکہ اس کا مقدمہ لڑرہا ہے۔ یہ ہے فرق۔ جسے ہم نے دانش کا منبع بنادیا۔ ہم نے ادب اور شاعری کا منبع بنادیا تخیل اورتصورکو۔ اور وہ بھی اپنی تخلیق کردہ۔ سیلف کری ایٹڈ۔ ہمارا دشمن ایسا نہیں کررہا ہے۔اس لئے وہ مجرم ہوکر بھی ہم پر حاوی ہے۔
اصل میں یہ ”میڈیا وار“ ہے۔ یہ اس جادونگری کا وہ جادو ہے جو لوگوں کے ذہنوں اور آنکھوں کو اپنی مرضی کا منظر دکھلاتا ہے۔ ان کے ذہن میں مخصوص دلائل ڈالتا ہے۔ ایک خاص سمت میں سوچ کو لے جاتا ہے۔ انہیں ایک تیار کردہ سچ تھما دیاجاتا ہے تاکہ لوگ اسی کو سچ سمجھیں اور اسی کو سچائی جان کر ہر حقیقت کو مستردکردیں۔ عرف عام میں اسے ”میڈیا پرسپشن“ یا میڈیا کی پھیلائی سوچ کی اصطلاح سے پہچانا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ کی کوئی مذمت نہیں کررہا۔ وہ افغانستان میں بیٹھا ہوا تھا۔ ہمارے پختون قائدین سے امریکی پٹھو کہلانے والا حامد کرزئی زیادہ بہادر تھا۔ صدر ابامہ نے حامدکرزئی کو طلب کیا۔ کرزئی کو معلوم تھا کہ ا±سے کیوں طلب کیاگیا ہے۔ اس سے پوچھاجائے گا کہ افغانستان کا صدر ہوکر بھی تم امریکہ کو بُرا بھلا کہتے ہو؟ صدر اوبامہ نے کرزئی کو بے ن±قَط خوب سنائیں۔ ہم نے پیسہ دیا۔ افغانستان میں تم لوگ کرپشن کررہے ہو۔ بیڈ گورننس ہورہی ہے۔ امریکی تمہاری مدد کررہا ہے اور تم ہر روز ہمیں گالیاں دیتے ہو؟ اوبامہ کی لفظی گولہ باری تھمی تو کرزئی نے جیب سے وہ چٹ نکالی جو اس نے امریکی صدر سے ملاقات کے لئے خاص طورپر تیار کرکے جیب میں پہلے سے ہی رکھ لی تھی۔ کرزئی نے کہا ”مسٹر پریذیڈنٹ میں نے آپ کو اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے بلایاتھا۔“ اور پھر اس نے پرچی پر لکھے وہ اعدادوشمار امریکی صدر کے سامنے بیان کرنا شروع کئے کہ کس تاریخ کو کہاں کتنے بچے امریکی بمباری میں مارے گئے۔ شادی کی کون سی تقریب جاری تھی جب بمباری نے خوشیوں کو ماتم میں تبدیل کردیا جس میں عورتیں بچے سب نشانہ بنے۔امریکی سرمایہ میں سے مجھے صرف تین فیصد ملتا ہے باقی وسائل تو خود امریکی صرف کررہے ہیں۔
پختون لیڈر اور ترقی پسندوں سے سوال پوچھتا ہوں کہ ان کی آنکھ میں آنسو کیوں نہیں آیا۔ ان کی زبان سے حرف احتجاج کیوں نہیں نکلتا۔ ان کا قلم اور زبانیں امریکی استعمار کے آگے گونگی، بہری اور اندھی کیوں ہیں۔