بھارت پاک چین تعلقات میں دراڑیں ڈال سکتا ہے، خبردار رہنے کی ضرورت
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی بربریت جاری، مودی شی جن پنگ ملاقات میں سکیورٹی رابطوں پر اتفاق
مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں بھارتی فوج کی فائرنگ سے شہید ہونے والے طالب علم کو ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں سپرد خاک کر دیا گیا ہے جبکہ بھارتی فوج نے کپواڑہ میں شہید ہونے والے تین نوجوانوں کی شناخت اور میتیں مقامی لوگوں کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا ہے، گزشتہ روز اننت ناگ میں بھارتی فوج کی جانب سے گاڑی پر فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں گاڑی میں سوار 20سالہ طالب علم شفائق شبیر شدید زخمی ہوگیا تھا جوبعد میں ہسپتال میں دم توڑ گیا۔تدفین کے بعد لوگوں کی بڑی تعداد باہر نکل آئی اور شدید احتجاج کیا۔اس دوران مشتعل مظاہرین نے قابض فورسز پر پتھراﺅ بھی کیا جس کے جواب میں آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔بھارتی پولیس نے جموںوکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کو سرینگر میں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد زخمی حالت میں گرفتار کر لیا۔ اس موقع پر پولیس افسر حریت رہنماﺅں کو دہشت گرد کے لقب سے پکارتے ہوئے انہیں قتل کرنے کی مسلسل دھمکیاں دیتا رہا۔ دریں اثناءچین اور بھارت نے اپنی مشترکہ سرحد پر کشیدگی کے خاتمے کے لیے نئے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ چین کے شہر ووہان میں نریندر مودی اور چین کے صدر شی جن پنگ کے درمیان دوسرے روز ملاقات میں سرحدی کشیدگی کے خاتمے پر اتفاق ہوا۔ غیر رسمی ملاقات میں دونوں رہنماﺅں نے ان اقدامات کے تحت عسکری اور سکیورٹی رابطوں کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ رپورٹ کے مطابق چینی صدر سے ملاقات میں بھارتی وزیراعظم کا موضوع گفتگو ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ بھی رہا جس پرمودی نے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ اس حوالے سے چینی نائب وزیر خارجہ نے میڈیا کو بتایا کہ میرے خیال میں یہ بات اہم نہیں کہ بھارت ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو کیسے لیتا ہے۔ اس بارے میں چین کا موقف بھی سخت نہیں ہے۔ دہلی خطے میں ترقی کا دوسرا بڑا شراکت دار ہے۔ وہ یقیناً اگلے مرحلے میں آگے بڑھے گا۔جریدہ گلوبل ٹائمز کے مطابق چین تنازعہ کشمیر کو پرامن طور پر حل کرانے کیلئے پاکستان اور بھارت کی حوصلہ افزائی کرتا رہے گا۔
پاکستان اور بھارت کے مابین دشمنی اور تنازعات کا بنیادی اور سب سے بڑا سبب مسئلہ کشمیر ہے۔ یہی ایک مسئلہ دونوں ممالک کے مابین کشیدگی اور خطے میں بدامنی کی وجہ بھی ہے۔ بھارت نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے تقسیم کے ساتھ ہی یہ مسئلہ پیدا کر دیا۔ برصغیر میں ہندو اور مسلمان صدیوں سے اکٹھے رہ رہے تھے، مسلمانوں کو ہندوﺅں کی تنگ نظری کا احساس اور زندگی اپنے عقائد کے مطابق گزارنے کا ادراک ہوا تو الگ وطن کا مطالبہ کردیا۔ ہندو لیڈر شپ نے قیام پاکستان کی مخالفت اور مسلمان قیادت نے ہر صورت قیام کیلئے سردھڑ کی بازی لگا دی ۔ بالآخر ایک مسلم مملکت معرض وجود میں آ گئی۔ بھارتی متعصب لیڈر شپ پاکستان کے وجود کو ماننے کو تیار نہیں مگرپاکستان کی حقیقت سے انکار پر پاکستان لاوجود نہیں ہو سکتا۔ بھارت کو یقیناً اس کا اندازہ ہے وہ اپنی آنکھوں میں کھٹکتے پاکستان کے خاتمے کیلئے کسی بھی حد تک جاتا رہا ہے۔ پاکستان کو سازش کے ذریعے دولخت کر دیا۔ اور مزید شکست وریخت کے بھی در پے تھا۔ پاکستان نے اپنا دفاع نیو کلیئر پاور بننے کی صورت میں ناقابل تسخیر نہ بنایا ہوتا تو وہ سازشوں اور کھلے حملوں میں اسے بھی ہڑپ کرنے کی کوشش کرتا۔ پاکستان کو عدم استحکام سے دو چار رکھنے کیلئے ماضی کی طرح اس کی سازشیں آج بھی جاری و ساری ہیں۔
ہندو مسلم صدیوں سے مذہبی معاشرتی تفاوت کے باوجود اکٹھے رہے ہیں۔ ایک مسلم مملکت بننے سے کوئی قیامت نہیں آ گئی تھی۔ ہندو اور مسلمان الگ الگ ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ کیونکر نہیں چل سکتی تھیں؟ بھارت کے خبث ،تعصب اور کینے کے باعث دشمنی کا ایک سلسلہ چل نکلا جس کی وجہ سے دونوں ملکوں میں تین بڑی جنگیں ہو چکی ہیں اور مزید ایک جنگ کے خدشات بھارت کے معاندانہ اور جارحانہ رویے کے باعث نظر آ رہے ہیں۔ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ ہوگی تو اس کے نتائج کے بارے میں سوچ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
بھارت اپنے بجٹ کا بڑا حصہ دفاع پر بلا ضرورت خرچ کرتا ہے۔ پاکستان کو بھی بھارت کے ساتھ اسلحہ کی ریس میں شامل ہوئے بغیر دفاع پر ایک بڑی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔ بھارت کا رواں سال کا دفاعی بجٹ ہمارے گزشتہ دنوں پیش کئے گئے مجموعی بجٹ کے قریب قریب ہے۔ دونوں ممالک میں غربت ، افلاس اور پسماندگی سر چڑھ کر بولتی ہے۔ تعلیم اور صحت کی سہولیات کا فقدان ہے۔ بیروزگاری کا بھوت بے قابو ہے۔ بھارت پاکستان کو تسخیر کرنے کی پوزیشن میں نہیں، جبکہ پاکستان کے کسی بھی ملک کے خلاف کبھی ایسے عزائم نہیں رہے ہیں۔ سی پیک خطے میں گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ بھارت کیلئے بھی اس کی اہمیت کم نہیں ہے مگر اس کیلئے پاکستان اور اس کے مفادات ناقابل برداشت ہیں، وہ اسی لئے اس کی کھل کر مخالفت اور سازشیں بھی کر رہا ہے۔
مسئلہ کشمیر حل ہو جائے تو پاک بھارت دشمنی ختم اور کشیدگی کم ہو سکتی ہے جو دونوں ممالک کے عوام اور خطے کے بہترین مفاد میں ہوگی۔ بھارت مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی طرف آنے کو تیار نہیں جبکہ سات لاکھ سفاک فوجیوں کی بربریت اور مظالم کے ذریعے رائے عامہ کو تبدیل کرنے اور وادی پر قبضہ مضبوط کرنے کیلئے پاگل ہوا جا رہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں افسپاپاڈا اور پوٹا جیسے ظالمانہ قوانین نافذ کئے گئے ہیں۔ پیلٹ گنوں کے بعد نہتے کشمیریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ کشمیریوں کی اس طرح نسل کشی ماضی میں کبھی نہیں کی گئی ۔ عالمی برادری کے ضمیر کو جگانے کی بھی آج اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کے دوست ممالک مسئلہ کشمیر حل کرانے کی اپنی سی کوشش کرتے رہے ہیں، مگر بھارت کسی کی سننے پر آمادہ نہیں۔ عالمی برادری کی طرف سے زیادہ زور دیاجاتا ہے تو بھارت مذاکرات کا ڈھونگ رچالیتا اور دباﺅ کم ہوتے ہی مذاکرات سے راہ فرار اختیار کر لیتا ہے۔
نریندر مودی چین کے دورے پر تھے تو گلوبل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق چین نے بھارت پر زور دیا خطے میں ترقی کیلئے مسئلہ کشمیر بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرے۔ جب چین کی طرف سے بھارت کو مسئلہ کشمیر پرامن طریقے سے حل کرنے کا مشورہ دیا جا رہا تھا تو بھارت سی پیک کے خلاف زہر اُگلتے ہوئے اس سے پاکستان کو الگ کرنے پر زور دے رہا تھا۔ بھارت پاکستان اور چین کے مابین گرم جوشی پر مبنی تعلقات میں دراڑیں ڈالنے کیلئے ہمیشہ کوشاں رہا ہے جس میں پاک چین مضبوط تعلقات کے باعث کبھی کامیاب نہیں ہو سکا مگر وہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے بدستورسرگرداں ہے۔
آج نریندر مودی چین کے دورے سے واپس آئے ہیں گزشتہ ماہ چینی وزیراعظم نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔ دشمنی کے باوجود بھارت اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارت گزشتہ برس بڑھ کر بلند ترین سطح پر جا پہنچی اور 84.44 ارب ڈالر ہوگئی۔ اس طرح تجارت میں 18.63 فی صد کا اضافہ ہوا۔ باہمی تجارت 2016 ءمیں 71.18 ارب ڈالر رہی تھی۔ بھارت چاہتا ہے کہ چین کے ساتھ تجارتی تعلقات میں توازن بڑھانے کے لیے اس میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔ چینی وزیر اعظم کے تین دورہ بھارت کے دوران دوطرفہ تجارت کا فروغ تیزی سے معاشی ترقی کرتے ہوئے ان دونوں ایشیائی ممالک کے درمیان ایجنڈے کا ایک اہم موضوع تھا۔ چینی وزیر اعظم وین جیاباو¿ کے دورے کے اختتام سے قبل دونوں ممالک نے 2015 تک دوطرفہ تجارتی حجم دگنا کرکے اسے ایک کھرب ڈالر سالانہ تک لے جانے کے ہدف کا تعین کیا تھا۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس ہدف کا حصول ممکن ہے۔ چین پہلے ہی بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔
ماضی قریب میں پاک امریکہ تعلقات بھی مثالی تھے۔ امریکہ پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی قرار دیتا تھا۔ بھارت نے ان تعلقات میں دراڑیں ڈال دیں خوشگوار تعلقات میں پہلے سرد مہری آئی پھر کشیدگی اور اب اس قدر غلط فہمیاں پیدا ہو چکی ہیں کہ نوبت امریکی پابندیوں تک جاتی نظر آ رہی ہے۔ مودی چین گئے، چینی وزیراعظم بھارت آئے، ایسے دوروں کی مانیٹرنگ اور بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف زہریلے پراپیگنڈہ کو کاﺅنٹر کرنے کی ضرورت ہے۔ محض یہ سوچ کر بیٹھے رہنا درست نہیں کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے اونچی، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے۔ اس میں بھارت زہر گھولنے کی سازشیں کر رہا ہے ان کو ہر صورت ناکام بنانے کی سعی کرنی چاہئے۔