سب متفق ہیں، 90ءکی دہائی سے پاک سرزمین پاکستان میں ووٹنگ ٹرن آ¶ٹ کی شرح مسلسل کم ہوتی چلی آ رہی ہے بالخصوص 2002ءاور 2008ءکے عام انتخابات کے دوران رائے دہندگان کی طرف سے اپنے حق خودارادیت کا بہت کم استعمال عمل میں لانے کا رجحان سامنے آیا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں اگر ورق گردانی کی جائے تو وطن عزیز میں 1970ءکے انتخابات وہ واحد انتخابات ہیں جس میں عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے اپنی ووٹ کی طاقت کو استعمال کیا تھا۔ عوام کی یہ طاقت شاید ہمارے حکمرانوں اور طالع آزما¶ں کو پسند نہ آئی اور بالاخر 1971ءمیں سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا جس نے قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ سیاست کے میدان میں دنیا کا کوئی ایسا بڑے سے بڑا اور طاقتور ترین جمہوری ملک نہیں جہاں سیاسی جماعتوں کے مابین سیاسی اختلافات ہوا کرتے ہیں جن ممالک میں ٹو پارٹی سسٹم ہے وہاں بھی اور جہاں دو سے زیادہ جماعتیں سیاسی میدان میں برسرپیکار ہوتی ہیں ان مضبوط جمہوری ممالک میں بھی سیاسی اختلافات کا ہونا نہ صرف ایک فطری سا عمل ہے بلکہ اسے جمہوریت کا خوبصورت ترین حسن و جمال قرار دیا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں سیاست کیا ہے اس کو سمجھنے کے لئے عوام خود نہ سمجھ ہو چکی ہے اور اٹھارہ فروری 2008ءکے عام انتخابات میں ووٹنگ ٹرن آ¶ٹ ریشو چیخ چیخ کر اعلان کرتی ہے کہ ہمارے ہاں پچاس فیصد سے زیادہ رائے دہندگان اپنے ووٹ کی طاقت کو استعمال نہ کرتے ہوئے موجودہ سسٹم اور تمام سیاسی جماعتوں پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ عوام کا یہ عدم اعتماد ان کی ملک و ملت کی بنیادی نکات جن کا تعلق براہ راست سلطنت کے معاملات سے ہے ان سے بلاشبہ لاپرواہی اور نتیجتاً لاعلمی کا اظہار ہے۔ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں عوام لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر اپنے ووٹ کی طاقت کو استعمال کرتی ہے ان ترقی یافتہ ممالک میں جو لوگ اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کرتے وہ ان کی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ بنیادی سہولیات سے قطعی محروم کر دیئے جاتے ہیں جیسے برطانیہ اور امریکہ میں سٹوڈنٹ الا¶نس کے علاوہ غربت مکا¶ فنڈ کے تحت الا¶نس کی مد میں رقوم وغیرہ وغیرہ فراہم کی جاتی ہیں۔ خیر ہمارے ہاں تو ایسی کوئی ریت ہی نہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان کو آج تک ہمارے سیاستدانوں اور طالع آزما¶ں نے قائداعظم کے حقیقی خوابوں والا وہ پاکستان نہیں بننے دیا جس کا دستور جدید اسلامی فلاحی مملکت خداداد کی صورت میں تشکیل پا کر ملک کی بیش بہا ترقی اور عوام کی خوشحالی کا زینہ قرار پانا تھا۔ ہمارے ہاں سیاست کے میدان میں جتنا گند ہے اس سے کہیں زیادہ عوام بے حس ہے۔ انتخابات کا جب جب زمانہ آتا ہے عوام انہی لوگوں کے ساتھ مل جاتے ہیں اور پھر انہی کے پولنگ ایجنٹ بنے ہوتے ہیں جن کو وہ ان کے اقتدار کے دوران کوستے اور گالیاں نکالتے ہیں۔ گویا ہماری سیاست اور عوام دونوں کا طرزعمل ایک ایسا معمہ ہے جو ہمارے ہاں جمہوریت کے حسن کی بحالی میں سب سے اہم رکاوٹ ہے۔ سیاست میں ایک دوسرے پر تنقید کرنا اور پھر اس تنقید کے ذریعے برسراقتدار سیاست دانوں کو آئینہ دکھا کر ان کے احتساب کی راہ ہموار کرنا جمہوریت کی اصل علامت ہے۔ اگر جمہوریت ہے تو ایسا ہونا بھی ضروری ہے۔ قومی اسمبلی ہو یا چاروں صوبائی اسمبلیاں ہمارے ملک میں اپوزیشن کے حقیقی کردار ماند پڑتے چلے جا رہے ہیں اور پھر جب انتخابات کا زمانہ آتا ہے تو تمام کے تمام سیاست دان زاہدانوں کا روپ دھار کر عوامی صفوں میں بچھ جاتے ہیں۔ ان دنوں تو ایسی ریت روایات بھی دم توڑنے لگی ہیں۔ پیپلزپارٹی جو اپنے آپ کو وطن عزیز کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور وفاق کی علامت قرار دیتی ہے اس کی مرکزی قیادت عوامی صفوں میں نظر نہیں آ رہی۔ پیپلزپارٹی کے نئے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کو کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی اس جماعت کے قائد کے طور پر سیاسی منظر پر اس وقت نمودار ہوئے ہیں جب وہ عوام کے سامنے آ کر کم از کم اپنا براہ راست دیدار بھی نہیں کرا سکتے۔ حالانکہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز عوام کے روبرو کھڑے ہو کر کیا تھا اور پیپلزپارٹی کی سابقہ چیئرپرسن اور سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کو بھی لیاقت باغ میں اس وقت دہشت گردی کا نشانہ بنا لیا گیا تھا جب وہ عوام کے روبرو ہو کر زندہ ہے بھٹو زندہ ہے بھٹو، کے نعرے بلند کر رہی تھیں۔ کیا بلاول بھٹو زرداری ایسا کرنے سے قاصر ہیں اور اگر وہ شدت پسندوں سے خائف ہیں تو پھر عوام کا خوف کون اتارے گا۔ ایک سال قبل ان کی جماعت کے اپنے عدالت سے سزایافتہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اعتراف کر چکے ہیں کہ ہمارے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں چالیس ہزار سے زائد افراد اپنی زندگیوں کی بازی ہار چکے ہیں۔ عوام کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے پیپلزپارٹی نے کیا کیا۔ ڈرون حملوں کے بارے میں سابق صدر اور امریکی مجاہد پرویزمشرف اعتراف کر چکے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ ڈرون حملوں پر معاہدہ کئے ہوئے تھے۔ اگر یہی معاہدہ پیپلزپارٹی نے بھی کر رکھا ہے اور وہ بتاتے نہیں تو پھر آج بلاول بھٹو زرداری کا عوام کے روبرو نہ آ کر اپنے تحفظ کو یقینی بنانا ایک شاندار چھکا ہے جس پر انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ سیاست کے میدان میں سیاست دان کسی بھی دوسرے طبقے سے زیادہ خود اپنا احتساب اکثر کر لیتے ہیں۔ مخالف سیاسی جماعتیں حکمرانوں کی کرپشن اور آئین و قانون سے تصادم و ان سے ماورائے اقدامات پر انگلی اٹھاتے ہیں اسے میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے حقائق نامے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسا کیا جانا بالکل درست اور ضروری ہے لیکن اس پر کیا کہا جائے کہ ان دنوں انتخابی مہم جب انتخابات کے چند روز قریب رہ جانے پر اپنے پورے جوبن پر ہے پیپلزپارٹی اے این پی اور ایم کیو ایم منظرسیاست سے غائب ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی اکادکا جلسے کئے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف مسلم لیگ(ن) پنجاب کے صدر میاں محمد شہبازشریف ہنگامے بنیادوں پر جلسے کر رہے ہیں اور عوام کو اپنی طرف مبذول کرنے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ عمران خان براہ راست شریف برادران اور مسلم لیگ(ن) کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی طرف سے شیر کی دھاڑ، تحریک انصاف کی طرف ہے اور تو اور اب میاں محمد شہبازشریف نے اپنے مخصوص جوش خطابت میں زرداری اور عمران خان کو ایک ہونے کا طعنہ دے کر بڑی تندوتیز تقاریر شروع کر رکھی ہیں۔ الیکشن کمیشن نے عمران خان کی نوازشریف پر تنقید کا نوٹس لے لیا ہے۔ ایوان صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر چیخ و چلا رہے ہیں کہ ہمارے جناب صدر کسی سیاسی اور انتخابی مہم کا حصہ نہیں ان پر تنقید کے حملے نہ کئے جائیں اس کے باوجود میاں محمد شہبازشریف کا شیر ایوان صدر کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ ایوان صدر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہے یا نہیں اس کا ثبوت پیپلزپارٹی کی طرف سے شہبازشریف کی زرداری پر تنقید کے بعد ٹی وی چینلز پر بجلی بحران پر قابو پانے کے حوالے سے شہبازشریف کی تقاریر پر مبنی اشتہاری مہم سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاست کا بازار ایک مرتبہ پھر سرگرم ہو چکا ہے۔ وہی پرانے انداز ہیں یہی کہا جا سکتا ہے کہ نئی بوتل میں پرانی شراب ہے۔ اب عوام کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے ووٹ کی طاقت کو استعمال کریں اور فیصلہ کریں کہ ان کا مستقبل کون سنوار سکتا ہے۔ نمبرسکورننگ کے لئے سیاستدان تو ایک دوسرے پر تنقید کیا ہی کرتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اختلافات کو اس قدر ہوا دے دیں کہ ہم آئندہ خدانخواستہ سخت سیاسی چپقلشوں کا خمیازہ ماضی کی اپنی سیاسی تاریخ کی طرح ایک مرتبہ پھر گیارہ مئی کے بعد سامنے آنے والی حکومت اور اپوزیشن کی صورت میں بھگتنے لگیں۔ ایسی سزا جس میں جمہوریت تو ہو مگر آئین اور قانون کو گھر کی لونڈی بنا کر ایک دوسرے کو ٹارگٹ کیا جاتا رہے اور عوام و ملک کے لئے کچھ نہ ہو سکے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38